بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کا آغاز قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی ہو گیا تھا مگر اسے توانائی بھٹو مرحوم کے دور میں کیے جانے والے متنازعہ آپریشن کے بعد ملی. ضیاء الحق دور میں یہ آپریشن ختم کر دیا گیا اور چونکہ ان کے دورِ حکومت میں بالعموم علیحدگی پسند خواہ وہ سندھی ہوں یا بلوچی، سکون سے رہے اس لیے ضیاء دور میں بلوچوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی بڑی محاذ آرائی نہیں ہوئی. تاہم یہ حقیقت ہے کہ بلوچوں نے فوجی حکومت کو کبھی بھی پسند نہیں کیا. جب ملک میں جمہوریت آئی، سیاسی سرگرمیاں بحال ہوئیں تو بلوچ سرداروں کی جانب سے بھی مختلف مطالبات دوبارہ دہرائے جانے لگے، جن میں ایک مطالبہ علیحدگی کا بھی تھا تاہم اس کے حق میں بلند ہوتی آوازیں اتنی توانا نہ تھیں. نوے کی دہائی میں جب بلوچستان کے ساحلوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے گوادر پورٹ کو ترقی دینے کی بات چلی اور بینظیر بھٹو صاحبہ کے دور میں ایک امریکی کمپنی کو گوادر میں کچھ زمین دیے جانے کا معاملہ آیا تو بلوچ راہنماؤں میں ایک بے چینی کی لہر اٹھی. انھی دنوں ناراض بلوچ راہنماؤں نے ایک بار پھر شدومد سے بلوچ قوم اور صوبے کے استحصال کا راگ الاپنا شروع کیا، تاہم جمہوری حکومتوں کو ان سے نبٹنا آتا تھا. بےنظیر بھٹو اور نوازشریف دونوں نے گاجر اور چھڑی کے مناسب استعمال سے صورتحال قابو میں رکھی. یہاں تک کہ بینظیر بھٹو شہید کے دوسرے دورِ حکومت میں جب نواب اکبر بگٹی شہید کی قیادت میں بگٹی قبیلے نے سوئی گیس فیلڈ پر قبضہ کر لیا تو ایک طرف ایف سی کی بھاری نفری بھیج کر بگٹی قبیلے کو محصور کر دیا گیا تو دوسری طرف مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا اور یوں یہ معاملہ بالآخر خوش اسلوبی سے حل کر لیا گیا. نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں ہی فوج نے بلوچستان میں نئی چھاؤنیوں کے قیام کا فیصلہ کیا جس کی بلوچستان میں سخت مخالفت کی گئی، مگر حالات صحیح معنوں میں اس وقت سنگین شکل اختیار کر گئے جب فوج نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پہ قبضہ کر لیا.
جنرل مشرف کے دور میں جب گوادر پورٹ سنگاپور کی کمپنی کے حوالے کی گئی تو بلوچ علیحدگی پسندوں کا اس پر ردعمل بہت شدید تھا. پرویزمشرف نے بلوچوں کو کچھ ملازمتیں اور فنی تعلیم کے وظیفے دے کر بہلانے کی کوشش کی، مگر جس طرح گوادر کی زمین کی کراچی اور پنجاب کے حریص پراپرٹی ڈیلرز اور بلڈرز نے بندر بانٹ شروع کر رکھی تھی، مقامی آبادی کو اسی طرح سائیڈ لائن کیا جا رہا تھا جیسے شمالی امریکا اور آسٹریلیا میں وہاں کے مقامی باشندوں کو کیا گیا. حکومت باہر سے آنے والوں کے لیے تو سیون سٹار ہوٹل، ائیرپورٹ اور جانے کیا کچھ بنانے کے منصوبے بنا رہی تھی جبکہ مقامی لوگوں کو بیماری کی صورت میں یا کوئٹہ جانا پڑتا تھا یا پھر عمان، اور کوئٹہ کی نسبت ان کا عمان میں زیادہ بہتر خیال رکھا جاتا تھا. ایسے میں بلوچ راہنماؤں کا یہ خدشہ کچھ بےبنیاد بھی نہیں تھا کہ بلوچی اپنی ہی سرزمین پر اقلیت بن جائیں گے. بجائے ان کے تحفظات دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرنے کے، مشرف نے انہیں طاقت کے بل بوتے پر دبانے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں پہلے کوئٹہ کینٹ میں فوج پر حملے شروع ہوئے، پھر ان کا دائرہ پھیلتا چلا گیا. سوئی فیلڈ میں ڈاکٹر شازیہ خالد سے آرمی کیپٹن کی مبینہ زیادتی کا واقعہ جلتی پر تیل ثابت ہوا. بلوچ قبائل میں خواتین کے احترام کی اتنی مضبوط روایات پائی جاتی ہیں کہ سرکاری سکولوں میں تعینات اکثر خواتین ٹیچرز جو کہ پنجابی ہوا کرتی تھیں، انہیں ان کے گھر سے زیادہ احترام بلوچیوں سے ملتا تھا. ڈاکٹر شازیہ کی بے حرمتی کو بگٹیوں نے اپنی توہین گردانا جبکہ دوسری طرف اس آفیسر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی اور ڈاکٹر شازیہ کو بیرون ملک بھجوا دیا گیا. اس معاملے پر نواب اکبر بگٹی شہید نے جس شدومد سے فوج پر تنقید کی تھی، اس نے مشرف کو ان کا دشمن بنا دیا. کمانڈو نے کیمرے کے سامنے اپنے ہی لوگوں کو دھمکی دی کہ انہیں وہاں سے ہٹ کیا جائے گا کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا. اس کے بعد بلوچستان کے لیے گاجر ختم ہو گئی اور صرف چھڑی باقی رہ گئی. بلوچ نوجوان ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں پر چڑھ گئے، فوج نے آپریشن شروع کر دیا اور بالآخر نواب اکبر بگٹی کو شہید کر دیا گیا. جو سلوک بعد میں ان کی لاش سے کیا گیا اور جس طریقے سے ان کی میت لائی گئی، اس نے ان کے دشمن قبائلیوں کے دلوں میں بھی فوج کے خلاف نفرت پھیلا دی. دوسری جانب مشرف اور ہمنواؤں کا خیال یہ تھا کہ معاملہ محض چند باغی سرداروں کا ہے جنہیں مار کر وہ بلوچستان میں جاری بے چینی اور بدامنی کا خاتمہ کر لیں گے. یہ پالیسی سازوں کی بدترین غلط فہمی تھی.
فوج نے پسماندہ علاقوں میں عارضی ڈسپنسریاں بنائیں، سکول قائم کیے، بلوچ نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کے مطلوبہ معیار میں رعایت بھی دی گئی اور یہ سمجھا گیا کہ بلوچی اتنے ہی پر ٹل جائیں گے، مگر ایسا نہ ہوا، بلوچ مزاحمت پھیلتی چلی گئی. بلوچوں کے دلوں میں جو بےاعتباری اور مرکز بیزاری پیدا ہو گئی تھی، اس کی اصل وجوہات کو پہچانے اور ان کا تدارک کیے بغیر یہ اقدامات بےثمر ہی ثابت ہوئے. بدقسمتی سے مشرف کے چلے جانے کے بعد بھی بلوچستان کے متعلق پالیسی وہی رہی جو مشرف بنا کر گئے تھے.
2005ء کے بعد پنجابی آبادکاروں اور بعض اقلیتی افراد کو ٹارگٹ کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا، اس سے جہاں پنجاب میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف نفرت پھیلی، وہیں فوج کو ان کے خلاف زیادہ جارحانہ کاروائیاں کرنے کا جواز بھی مل گیا. اسی وقت سے بلوچ سیاسی ورکروں اور مبینہ علیحدگی پسندوں کی پراسرار گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوا. اس کے ساتھ ساتھ بلوچوں کو انہی کے سکوں میں ادائیگی کرنے کے لیے ایک اور تدبیر سوجھی گئی.
بلوچستان میں افغان طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے علاوہ بھی چند مسلح تنظیمیں اپنا وجود رکھتی تھیں. ان میں کالعدم سپاہِ صحابہ یا اس کا بازوئے شمشیر زن لشکرِ جھنگوی اور ایران میں علیحدگی کی تحریک چلانے والی جنداللہ شامل تھیں. جنداللہ ایرانی بلوچستان میں سنی اکثریت کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ردعمل تھی، اس لیے اسے مقامی علیحدگی پسندوں سے کوئی ہمدردی نہیں تھی. دوسری جانب لشکرِ جھنگوی ایک مخصوص فرقے کا دشمن تھا اس کی ریاست کے ساتھ کوئی جنگ نہیں تھی. یہاں سے تین چار نئے کردار اس کہانی میں شامل ہوئے. یہ تھے جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی، کالعدم جماعت اہلسنت بلوچستان کے رمضان مینگل، لشکرجھنگوی کے ایک رمضان مینگل مخالف دھڑے کے سربراہ عثمان (سیف اللہ) کرد اور مشرف دور کے وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل، جنداللہ کے لیے بلوچستان اسی طرح محفوظ پناہ گاہ تھی جس طرح افغان طالبان کے لیے.
لشکرِ جھنگوی کے عثمان کرد اور کالعدم جماعت اہلسنت کے رمضان مینگل دونوں کوئٹہ کینٹ میں واقع اینٹی ٹیررازم سیل کی مضبوط جیل میں سخت نگرانی میں رکھے گئے تھے. دونوں الگ الگ سیلز میں تھے مگر 2008ء کی ایک رات دونوں اس جیل سے فرار ہوگئے. کرد تو ایرانی سرحد کے ساتھ واقع ایک قصبے جا پہنچا مگر رمضان مینگل نے تو کوئٹہ چھوڑنے کی زحمت بھی نہیں کی، ان کی سلیمانی ٹوپی نے انہیں سکیورٹی فورسز کی آنکھ سے اوجھل رکھا. یاد رہے کہ یہ وہی رمضان مینگل ہیں، جنہوں نے دہشتگردی کے ایک واقعے میں پچاس کے لگ بھگ ہزارہ شہید ہونے کے بعد اعلانیہ یہ فرمایا تھا کہ وہ سینچری پوری کر کے رہیں گے اور یہ کہ جو ہمارے معیار پر پورا نہ اترا، اسے ہم کچل ڈالیں گے. ان کے ساتھ فرار ہونے والے عثمان کرد بھی کچھ کم نہیں تھے. ایک ٹرک ڈرائیور کے طور پر عملی زندگی کا آغاز کرنے والے عثمان جلد ہی داؤد بدینی کے ساتھی بن گئے. داؤد القاعدہ کے اس وقت کے نمبر تین خالد شیخ محمد کا بھانجا بھی لگتا تھا اور رمزی یوسف کا سالا بھی. اس کے والد امیر حمزہ کالعدم اہل سنت والجماعت کے سرگرم راہنما تھے، گویا پورا خاندان ہی بخشا ہوا تھا. ان کی صحبت میں تربیت حاصل کر کے عثمان کرد افغانستان چلا گیا تھا جہاں اس نے حربی تربیت کالعدم حرکتہ المجاہدین کے کیمپ میں حاصل کی. واپس آ کر اس نے شیعہ کی ٹارگٹ کلنگ کا آغاز کیا. اسے 2003ء میں سزائے موت سنائی گئی تھی.
مگر یہاں ایک اور ہستی کا تذکرہ بھی لازم ہے اور وہ ہیں شفیق مینگل. نصیر مینگل کے چھوٹے بیٹے کو ایچی سن کالج میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بھیجا گیا مگر وہ وہاں سے بھاگ کر ایک دیوبندی مدرسے جا پہنچے. وہاں سے نکلنے کے بعد شفیق مینگل نے بھی کالعدم اہلسنت والجماعت جوائن کر لی اور واپس بلوچستان چلے آئے. بلوچستان پہنچ کر وہ کافی کچھ کرتے رہے جس میں اپنے کزن اور مخالف اختر مینگل کے گھر پر حملہ، چند بم دھماکے وغیرہ قابلِ ذکر ہیں, مگر 2008ء میں ان دونوں مذکورہ بالا پراسرار بندوں کی پراسرار گمشدگی کے چند دن بعد جناب نے بلوچستان مسلح دفاعی محاذ تشکیل دیا، جس کے بنیادی اغراض و مقاصد میں معصوم بلوچ عوام کا بلوچ علیحدگی پسندوں سے دفاع سرفہرست تھا. چنانچہ مسلح دفاعی محاذ نے بلوچ علیحدگی پسندوں کے اغوا، تشدد اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی خدمات انجام دینا شروع کر دیں. اس کام میں کہیں کہیں انہیں جنداللہ کا تعاون بھی میسر رہا. ان کے اس کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقتا فوقتا وہ اپنے پسندیدہ ٹارگٹ یعنی شیعہ برادری پر بھی ہاتھ ڈال دیا کرتے تھے. ایسی ہی ایک سفاکانہ واردات کے بعد جسے بی ایل اے کے کھاتے ڈالا گیا تھا، ہزارہ برادری کو علیحدگی پسندوں کی جانب سے پیغام پہنچایا گیا کہ اپنے قاتل کہیں اور تلاش کریں جس کی وفاداری کا آپ دم بھرتے ہیں، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں. توتک میں ملنے والی اجتماعی قبر سے نکلنے والی چودہ لاشوں کے ورثا نے بھی بار بار ان کا نام لیا، مستونگ میں بسوں سے اتار کر زائرین کو قتل کرنے کی واردات بھی انہی کے سر ڈالی جاتی ہے. علیحدگی پسندوں کو اپنی جانب کھینچ کر لانے کے لیے انہوں نے بعد میں اپنی تنظیم کا نام بدل کر براہوی میں “حق کی آواز“ رکھ لیا تھا اور خود بھی علیحدگی پسند ہونے کا دعوٰی کرتے رہے، ایسا علیحدگی پسند جو نہ مفرور ہوا نہ اشتہاری، بلکہ جو علیحدگی پسند ”حق کی آواز“ میں شامل ہوا پھر اس کی نہ تو کبھی آواز سنائی دی نہ تصویر دیکھی گئی. عبدالمالک ریگی ایرانی ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ گیا، اس کے کئی کمانڈرز کو گرفتار یا قتل کرنے کے لیے ایرانی کمانڈوز نے بلوچستان کے اندر گھس کر آپریشن کیے، مگر جنداللہ بلوچستان میں فعال رہی.
پشاور اے پی ایس کے سانحے کے بعد یوں لگا کہ پالیسی پر نظرثانی کی گئی ہے لیکن ایسا ہوا بھی تو کے پی کے کی حد تک. ضربِ عضب شروع ہونے کے بعد بلوچستان میں بس اتنا ہوا کہ عثمان سیف اللہ کرد کوئٹہ میں سکیورٹی اداروں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا. رمضان مینگل ابھی بھی کوئٹہ میں موجود ہے،گزشتہ سال انہوں نے شہر میں ایک ریلی نکالی جو کہ کینٹ کے ریڈ زون تک گئی. ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے ایسی دیدہ دلیری کا مظاہرہ بلوچستان کے حالات سے ناواقف لوگوں کے لیے شاید باعثِ حیرت ہو مگر واقفانِ حال جانتے ہیں کہ بلوچستان میں انہیں کس قدر آزادی حاصل ہے. انہیں اس سال فروری میں گرفتار کیا گیا اور شاید جولائی یا اگست میں موصوف ایک بار پھر رہا کر دیے گئے. جناب شفیق مینگل بھی بدستور ”حق کی آواز“ بلند کر رہے ہیں. ایک اطلاع کے مطابق 2014ء میں موصوف شام چلے گئے تھے، وہاں سے پچھلے برس لوٹے تو داعش کی فرنچائز کھولنے کا پروانہ ان کی جیب میں تھا. مستونگ، دالبندین، چاغی وغیرہ میں داعش کے لیے افرادی قوت کی بھرتی کا کام بھی شروع کر دیا گیا.
یہ تو خیر ہمارا ماضی تھا. آئیے حال پر ایک نظر ڈالیں.....
کوئٹہ پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملہ پاکستان میں داعش کی پہلی بڑی کاروائی ہے. ہم مگر اس کے پاکستان میں وجود سے ہی انکار کرتے ہیں. حالیہ کاروائی کی ذمہ داری لشکرِ جھنگوی العالمی اور داعش نے مشترکہ طور پر قبول کی ہے. لشکر نے داعش کے ساتھ تعاون کا بھی اعتراف کیا ہے اور داعش نے اپنے ان کارکنوں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں جنہوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا. ہمیں ریاست یہ کہہ کر بہلا رہی ہے کہ اس سانحے میں را ملوث ہے یا یہ کہ دہشت گرد ہدایات افغانستان سے لے رہے تھے. یہ واقعی حقیقت ہے کہ دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے اور یہ بھی کہ وہ ہدایات بھی وہیں سے لے رہے تھے. لشکر جھنگوی افغانستان میں بلخ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ایک مضبوط نمائندگی رکھتی ہے، اور داعش کا بھی افغانستان میں ایک مضبوط نیٹ ورک قائم ہے، یہ دونوں تنظیمیں وہاں بھی آپس میں تعاون کر رہی ہیں. اب ان کے جوائنٹ وینچرز پاکستان میں بھی شروع ہو گئے.
ماضی اور حال کو تو جانے دیجیے، ہمارے لیے سب سے خوفناک وہ امکانات ہیں جو مستقبل کے حوالے سے ہمیں دکھائی دے رہے ہیں. آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کیا ہیں؟
داعش شام اور عراق میں تیزی سے پسپا ہو رہی ہے. ساتھ ہی ساتھ وہ افغانستان اور بلوچستان میں تیزی سے اپنا نیٹ ورک پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے. داعش کسی سرحدی یا جغرافیائی حدبندی کو نہیں مانتی اس لیے اسے وفاقِ پاکستان سے کوئی ہمدردی یا لگاؤ قطعی نہیں ہے.
لشکرِ جھنگوی العالمی اپنی ساتھی تنظیموں ٹی ٹی پی وغیرہ کے خلاف کاروائیوں، پنجاب میں اپنے اہم راہنماؤں کے مارے جانے یا گرفتار کیے جانے، کالعدم اہلسنت و الجماعت کے فنڈز منجمند کیے جانے جیسے اقدامات کے نتیجے میں اب وفاقِ پاکستان کی وحدانیت یا سلامتی میں اپنی دلچسپی کھو چکی ہے. ان کے لڑاکے بڑی تعداد میں شام گئے تھے اور وہاں سے وہ ایک عالمی ایجنڈا لے کر واپس آئے ہیں اس عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے داعش ان کی فطری اتحادی ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر خوفناک معاملہ یہ ہے کہ بلوچستان میں لشکر کو جن علیحدگی پسندوں کے مدمقابل کھڑی ہوئی تھی، اب ان میں اور لشکر میں بھی فاصلے کم ہو رہے ہیں-
پورا ایک عشرہ فرقہ پرست کالعدم جماعتوں کو کھلی چھوٹ دینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بلوچ جو روایتی طور پر فرقہ پرستی سے ہمیشہ دور رہے ان کے نوجوان بھی ان کے زہریلے پراپیگنڈے کا تیزی سے شکار ہو رہے ہیں. اب علیحدگی پسند تنظیموں کو بھی وفاق سے وفاداری کا دم بھرنے والے شیعوں سے کوئی ہمدردی نہیں رہی. بی ایل اے کے لشکر کے ساتھ تعاون کی خبریں بھی مسلسل آ رہی ہیں کیونکہ مرکز دشمنی میں اب لشکر بھی ان کے ساتھ ہی ہے.
اللہ نہ کرے، میرے منہ میں خاک، کل کلاں کو اگر داعش، لشکر جھنگوی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کا آپس میں اتحاد ہو جاتا ہے، تو ہم پھر کیا کریں گے؟ سابقہ ریکارڈ سے تو یہی لگتا ہے کہ ان کے مقابلے میں ایک اور مسلح تنظیم کھڑی کر دی جائے گی مگر کیا مسئلہ کا یہی واحد حل ہے؟ را یا افغان انٹیلی جنس تو موقع سے فائدہ اٹھاتی رہے گی مگر ہم کب تک اپنی منجی تلے ڈانگ نہیں پھیریں گے.
اللہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو توفیق دے کہ وہ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے سے اور ہمیں ڈسوانے سے باز آ جائے.
اللہ ہمارے سیاستدانوں کو توفیق دے کہ وہ جرات کے ساتھ سیاسی معاملات کا سیاسی حل نکال سکیں اور ملکی سلامتی پہ اپنے اقتدار کو فوقیت نہ دیں.
اللہ ہمارے دانشوروں کو توفیق دے کہ اپنے تجزیے آئی ایس پی آر کی پریس ریلیزز کے بجائے زمینی حقائق کی بنیاد پہ کرنا سیکھیں.
اللہ ہمارے میڈیا کو یہ توفیق دے کہ اپنے انویسٹیگیٹو جرنلسٹس کو وہ دودھ پتی میں ملاوٹ ایکسپوز کرنے کے بجائے بلوچستان کے اصل حقائق عوام تک پہنچانے کے لی استعمال کرے.
حالات بہت نازک صورت اختیار کر رہے ہیں, اور جو کچھ ہو رہا ہے سب سی پیک کی وجہ سے نہیں ہو رہا، اس کی اپنی بہت اہمیت ہے مگر مشرقِ وسطیٰ کے حالات سے ہم براہ راست متاثر ہو رہے ہیں. ہمارے پالیسی سازوں اور سلامتی کے ذمہ داروں کو بلوچستان کے حالات کا تیزی سے بدلتے ہوئے خطے کے حالات کی روشنی میں ادراک کرنا ہوگا اور اس کے مطابق پالیسیاں بنانی ہوں گی.
خدارا ہوش کے ناخن لیجیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے
تبصرہ لکھیے