وہ زندگی کی پچیس بہاریں دیکھ چکا تھا۔ عمر کی چھبیسویں سیڑھی پر ابھی پہلاہی قدم رکھا تھاکہ اس کے قدم ڈگمگانے لگ گئے ۔اُس نے کبھی سوچا تک بھی نہ تھا کہ اس قدر دشوارگزار مراحل کو کامیابیوںکے ساتھ سر کرنے کے باوجود منزلِ مقصود پر پہنچ کر ناکامی کا سامناکرناپڑے گا۔ہاتھوں میں خوبصورت کتابیں اورعمدہ عمدہ نوٹ بکس تھامنے کے بعد سیمنٹ اور گارا کی بھاری بھر تگاریاں اٹھانا پڑیںگی۔کمرپر کتابوں سے بھرے بیگ اٹھانے کے بعد گدھے کی طرح بار اٹھاناپڑے گا۔ ہرطرف سے داد وتحسین اور محبت وپیار کے بنڈ ل وصول کرنے کے بعد رسوائی کا سامنا کرنے پڑے گا۔فاسٹ فوڈ اور ہوٹلنگ کے مزے لینے کے بعد دو وقت کی روٹی کے لیے دھکے کھانے پڑیں گے۔ ساری زندگی نازونعم میں گزارنے کے بعد مصائب اورآلام کی پریشانیاں جھیلنا پڑیں گی۔
بارہ سال تک ہر امتحان میں اول دوم پوزیشن لینے والے صادق آباد کے رہائشی غلام مرتضیٰ کے دل میں ان باتوں کا کبھی خیال تک بھی نہ گزرا تھا۔ دسویں کلاس کے پچاس بچوں کے سامنے”سر! آپ کی شکل بہت ڈراﺅنی ہے“ کہتے وقت اُس نے یہ سوچاتک بھی نہ تھا، کہ مجھے اس ایک جملے کی وجہ سے اس قدر آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا۔ بھری کلاس میں دورانِ سبق استاد کی کسی بات پر جب اُس نے یہ جملہ کہا،تو استاد نے اپنے آنسوﺅں کو پی کر سر نیچے جھکا لیا تھا۔غلام مرتضی ٰ نے اگرچہ استاد کی سبکی کے بعد خوشی سے بغلیں بجاکر اپنے گروپ کے ساتھیوں سے داد وصول کی تھی، لیکن تقریبا ً چھ سال بعد اسے اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب وہ ماسٹر ،الیکٹریکل اورمیکینکل کے ڈپلومے حاصل کرنے کے باوجود مزدوری اورسبزی کی ریڑھی لگانے پر مجبور ہوا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد چار سال تک وہ یوں ہی دردر کی خاک چھانتا رہا ۔پھر ایک دن اُس کے ایک کلاس فیلونے دس سال قبل کے اس دلخراش واقعہ کی طرف توجہ دلائی ۔جس پر اسے ندامت ہوئی اور وہ فوراًاس استادکی تلاش میں نکل پڑا ۔تلاش ِبسیار کے بعد استاد کے گھرپہنچ کر جب دستک دی تواتفاقا ً استاد صاحب نے ہی دروازہ کھولا۔غلام مرتضی ٰ استاد کو دیکھتے ہی پاﺅں میں گرکر یہ فریاد کرنے لگا کہ’ ’سر! مجھے معاف کردیں“ ۔استاد صاحب نے بڑی شفقت سے اسے اٹھایا اور معاملہ دریافت کیا۔ غلام مرتضی ٰ سے دس سال پرانا واقعہ سن کر استاد صاحب کی ڈاڑھی آنسوﺅں سے تر ہوگی ۔آخرمیں استاد صاحب نے غلام مرتضی ٰ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ” بیٹامیرے دل میں کوئی بات نہیں ہے،میرا دل تب بھی صاف تھا اور اب بھی صاف ہے “۔
میرے دوست ساجد اشرف کے والد صاحب کے ساتھ پیش آنے والے اس دل خراش واقعہ کی روئیداد سن کر میری آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں توہمیں غلام مرتضی ٰ جیسے بے شمار ٹیلنٹڈ نوجوان ملیں گے جو صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے لاشعوری طور پربے ادبی ،گستاخی اور اس طرح کی دیگر غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔اور پھر سالہا سال کی محنت کے بعدڈگریاں ہاتھوں میںلیے دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔دیکھا جائے تو اس وقت ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی بے شمار معاشرتی خرابیوں کی ایک وجہ ہم خود ہیں۔اس لیے دوسروں کوکوسنے کی بجائے سب سے پہلے ہمیںاپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔ مصروفیات کے نام پرخود کو اولادوں سے دور رکھ کر جس طرح ہم اپنی نوجوان نسل کو اخلاقی اقداراور اسلامی تہذیب سے دورکررہے ہیں،اس کانتیجہ ہمیں غلام مرتضٰی جیسے نوجوانوں کی شکل میں دیکھنا پڑ رہاہے ۔ہم نے پیسے کی خاطر صبح سے لے کر رات گئے تک کو لھوکے بیل کی طرح پِلنے کی عادت بنا لی ہے ۔
دنیا کی بے جا خواہشات کے حصول کے لیے اپنے اوراپنی اولاد کے درمیاں خلیج حائل کرلینا قطعاًدرست نہیں ہے ۔ یہ روش مغرب کی ہے ،جہاں والدین کے لیے اولاد کے فائدے کی بات کرنابھی جرم سمجھا جاتاہے ۔ہم ایک آفاقی دین کے پیروکا رہیں۔ہمارے مذہب میں معاشرے کے ہر طبقے کے افراد کے حقوق متعین ہیں۔ایک طرف اولاد کووالدین کی فرمانبرداری کاحکم دیاگیا ہے تو دوسری طرف والدین پر بھی اولاد کی بہترین تربیت کو لازم قرار دیا گیاہے ۔جس طرح خاندا ن کے معاشی نظام کو چلانے کے لیے آٹھ گھنٹے تک کا م کرنا ضروری ہے اسی طرح اولاد کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کچھ وقت نکا ل کر ان کی تربیت کرنا بھی ناگزیر ہے ۔تاکہ عمدہ تربیت کے ذریعے انہیں معاشرے میں آداب واحترام کے ساتھ رہن سہن کا طریقہ آجائے ۔ورنہ آپ ﷺکے ارشادکہ” تم میں سے ہرشخص ذمہ دارہے ‘اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق باز پرس کی جائی گی“ کی وجہ سے کوتاہی اور غفلت پر بارگاہِ الٰہی میں بازپُرس کے سخت مراحل کا سامنا کرنے پڑے گا۔
غلام مرتضی جیسے نوجوانوں کی تربیت کی ذمہ داری جس طرح والدین پر عائد ہوتی ہے اسی طرح اساتذہ پربھی عائد ہوتی ہے ۔بدقسمتی سے ایک تو ہمارا نظام تعلیم اس قدر فرسودہ ہوچکاہے کہ اس میںاولاً اخلاقی اقدار اور دینی تہذیب پر مشتمل کتب بہت کمیاب ہیں اور جو ہیں انہیں یا تو پڑھایانہیں جاتا، یاپھر اخلاق سے عاری افراد کو پڑھانے پر مامور کر دیا جاتاہے ۔جس کا نتیجہ اچھے خاصے ذہین طلباءکی بد تمیزی اور بے ادبی جیسے عادات سے لگایا جاسکتا ہے ۔اس لیے اپنی نوجوان نسل کو غلام مرتضی ٰ جیسی ذلت ورسوائی سے بچانے کے لیے نہ صرف والدین کو اپنی اولاد کی تربیت کے لیے ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہوگا ،بلکہ اساتذہ کرام کو بھی اخلاص ِنیت کے ساتھ” تنخواہ برائے ڈیوٹی“ کی سوچ سے آزاد ہوکر قوم کے معماروں کی ذہنی واخلاقی تربیت کے لیے تیار ہونا ہوگا۔دوسری طرف نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت کی خاطر حکومت کو بھی نصاب ِ تعلیم اور اس کی تدریس کرنے والوں کی مانیٹرنگ کرنے کے لیے ہنگامی طور پر موثر اقدامات اٹھانا ہوں گے ۔اس سلسلے میں اگر سکولوںکے حالیہ نصاب کو برقرار رکھتے ہوئے ایسے اساتذہ جوبذات ِخود اخلاق وتربیت کے لحاظ سے اکمل ومکمل ہوں بھرتی کرلیے جائیں تو” ہینگ لگے نہ پھٹکڑی ‘رنگ چوکھاآئے“ والی مثال پر اچھی طرح عمل ہوجائے گا۔ لیکن اس سلسلے میں بہرحال اصل ذمہ داری والدین کی ہے۔
تبصرہ لکھیے