تحریک نظام مصطفی کا حاصل حصول بھی ہمارے سامنے ہے، وکلاء تحریک کا بھی اور پھر سوئس بینکوں سے 6 کروڑ ڈالر کی واپسی کا حال بھی کسی سے اوجھل نہیں. جب اس مسلہ پر محترم افتخار محمد چوہدری عدالت عظمی میں گرجا کرتے تو یوں لگتا کہ بس کل نہیں تو پرسوں، یہ ہوا کہ ہوا، لیکن پھر کیا ہوا؟
اس بیچ عرب اسپرنگ آ گئی، اس کے جلوے بھی خوب دیکھے، اب تک دیکھ رہے ہیں. عرب بےچارے تو اپنے خون کا فدیہ دے کر اسے بھگت رہے ہیں.
پھر 126 دن کا دھرنا آیا. اب اس کا ذکر بھی نہیں ہوتا لیکن ملک کی جگ ہنسائی کی بازگشت اسلام آباد میں موجود مختلف مغربی اور ایک مشرقی سفارت خانے میں آج بھی خوب سنائی دیتی ہے.
ان دنوں تحریک احتساب ہے.
1990ء کی دہائی میں جب ہم سیاست میں میوزیکل چیئرز کی اپنی ایجاد سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے تو اس پوری دہائی میں ہم صرف یہ معاملہ نمٹا سکے کہ اسلام آباد اور لاہور کے بیچ بننے والی موٹروے چار رویہ ہوگی یا چھ رویہ. شکر ہے یہ اہم معاملہ ہم نے نمٹا لیا. تاہم اس بیچ چین اور بھارت ترقی کی موٹروے پر قلانچیں بھرتے یہ جا اور وہ جا. ہم نے اس دور کا سب سے بڑا انقلاب ”ڈاٹ کام“ مس کر دیا جبکہ بھارت صرف سافٹ وئیر سے 50 ارب ڈالر کمانے لگا. ہم ان دنوں بھی بدعنوانی کے الزامات پر 58/2 بی کی سرجری کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے حکومتیں پلٹتے رہے.
بھارت میں جمہوریت اور چین میں ایک پارٹی حکومت کے تسلسل نے پالیسی کو دوام بخشا اور ان کے ثمرات سے ملک اور قوم دونوں بہرہ مند ہوئے. دو مختلف نظام لیکن اہم ترین مشترک ایک .... تسلسل.
اس دور میں بھارت میں اربوں ڈالر کے گھپلے ہوئے. 2جی سپیکٹرم میں ہی 23 ارب ڈالر کا اسکینڈل سامنے آیا لیکن انہوں نے پورے کا پورا ہی اکھاڑ کر ایک طرف نہیں رکھ دیا. تسلسل سے انویسٹرز کا اعتماد بھی حاصل کیا اور ان سے فرسٹ کلاس انویسٹمینٹ بھی. فرسٹ کلاس انویسٹمینٹ یہ ہے کہ بھارت اور چین میں ملٹی نیشنلز نے مینوفیکچرنگ اور اسمبلی پلانٹ لگائے، یعنی وہ وہاں طویل المیعاد بنیادوں پر کمٹ ہو گئے. اس کے نتیجے میں وہاں صنعتی بنیاد بھی وسیع ہوئی اور پھر ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی ہوئی.
ہمارے ہاں بیرونی سرمایہ کار صرف اسٹاک ایکس چینج یا اس نوع کی دیگر وقتی سرمایہ کاری کرتا ہے کہ منافع کھرا کیا اور کھسکے. یا پھر وہ ملٹی نیشنلز ہیں جو اپنا مال باہر سے منگواتی ہیں اور بھاری منافع پر بیچتی ہیں، لیکن طویل المدت کوئی پراجیکٹ نہیں کرتیں.
اس وقت پاکستان کو تسلسل کی ضرورت ہے. نہ زرداری صاحب والے 600 کروڑ آئے نہ نواز شریف والے آنے ہیں. اور آ بھی جائیں تو اس سے پاکستان کا کیا بن جائے گا؟ یہ بھی تو سوچیں. نواز شریف کو پھانسی بھی دے دیں تو کیا ہوگا اس سے. 30 سال بعد وہ بھی شہید بن کر مستقل سوار ہو جائے گا ہم پر. اس کے بجائے یہ دیکھیں کہ اس وقت پانچ لاکھ پندرہ ہزار کروڑ کا جو پراجیکٹ چل رہا ہے وہ متاثر ہوگا تو پاکستان کو کتنا نقصان ہو جائے گا.
یہ مسئلہ نواز شریف کا نہیں بلکہ تسلسل کا ہے. 2018ء میں انتخابات ہوں گے تو بےشک نواز شریف کو ڈس کوالیفائی کروا دیں. کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ نئی حکومت آ چکی ہوگی اور اب سب کو اسی سے غرض ہو گی اور یہ بھی معلوم ہو گا کہ اگلے پانچ سال اب یہی حکومت کام کرے گی. یہ تسلسل ہے. سرمایہ کار اسی کی یقین دہانی پر کام کرتا ہے.
عمران خان صاحب ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں. انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ جو مرضی کر لیں. اس وقت ان کا رول ایک ”destroyer“ سے بڑھ کر کچھ نہیں. ہنگامی حالات میں یہ حکومت ختم بھی ہو جائے تو خان صاحب کو کیا ملے گا، اور کیسے، کس بنیاد پر؟
عمران خان اور ان کی حکومت اپنی پوری ایمانداری اور نیک نیتی کے باوجود اپنے صوبے میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمینٹ کا ایک ڈالر نہیں لا سکے. اپنے میگا پراجیکٹس کے لیے ان کا تکیہ اب پھر عالمی ساہوکاروں پر ہی ہے. اس پس منظر میں اربوں ڈالرز کی اس چینی سرمایہ کاری کو داؤ پر لگا دینا دانشمندی نہیں.
اگر اس وقت چین پیچھے ہٹ گیا یا اس پراجیکٹ کا پورا معاشی امکان عملی صورت نہ اختیار کر سکا تو یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہو گا. دفاع، معیشت، سفارتکاری اور تجارت، سب ہی میدانوں میں.
نواز شریف کو سبق سکھانے کا بہت موقع ملے گا. اس وقت کڑوا گھونٹ بھر کر تسلسل کو یقینی بنائیں. یہی ملک سے محبت اور قوم سے ہمدردی ہے. ورنہ محض یہ ہو گا کہ ماضی بعید و قریب کی تحریکوں میں ایک اور کا اضافہ ہو جائے گا اور ان ہی کے نتیجوں جیسا ایک اور نتیجہ بھی سامنے ہوگا. بس اتنا کہ بہتری کا ایک تاریخی موقع ضائع ہو چکا ہوگا.
تبصرہ لکھیے