25 اکتوبر 1991ء کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان ولز ٹرافی کا فائنل کھیلا گیا تھا۔ انڈیا، پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کھیلے گئے اس تین ملکی ٹورنامنٹ کا فائنل پاکستان نے با آسانی جیت لیا تھا۔ یہ مسلسل تیسرا موقع تھا جب کسی تین یا اس سے زیادہ ملکوں کی سیریز میں میں پاکستانی ٹیم نے فائنل میں انڈیا کو ہرایا ہو۔ اس سے پہلے دو بارمسلسل 1983-84ء کے رتھمینزایشیا کپ اور بینسن اینڈ ہیجز کپ 1985ء میں انڈیا پاکستان کو ہرا چکا تھا۔ پاکستان کو کسی بھی کثیرالملکی سیریز میں پہلی فتح 1986ء کے آسٹریلشیا کپ میں حاصل ہوئی جب پاکستان نے انڈیا کو ہی فائنل میچ میں شکست دی تھی۔ یہ جاوید میاں داد کے مشہور زمانہ آخری گیند پر چھکے والا میچ تھا۔
25 اکتوبر 1991ء کے ولز ٹرافی فائنل کی خاص بات نوجوان عاقب جاوید کا ناقابل یقین باؤلنگ سپیل تھا۔ عاقب جاوید نے اس میچ میں 37 رنز دے کر 7 انڈین بلے بازوں کو پویلین واپس بھیجا تھا۔ یہ اس وقت ایک ورلڈ ریکارڈ تھا۔ ان سے پہلے صرف ایک باؤلر ویسٹ انڈیز کے ونسٹن ڈیوس یہ کارنامہ انجام دے سکے تھے۔ ڈیوس نے جون 1983ء میں آسٹریلیا کے خلاف 51 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کی تھیں لیکن ونسٹن ڈیوس نے ساتویں وکٹ اپنے گیارھویں اوور کی تیسری گیند پر حاصل کی تھی، اس وقت ون ڈے میچز60 اوورز پر مشتمل ہوتا تھا، سو موجودہ قوانین کے تحت عاقب جاوید 7 وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے باؤلر ہیں۔ عاقب جاوید کا یہ ریکارڈ تقریبا دس سال تک قائم رہا اور اکتوبر 2000ء میں مرلی دھرن نے انڈیا کے خلاف صرف 30 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کر کے یہ ریکارڈ عاقب جاوید سے چھین لیا۔ اب یہ ریکارڈ چمندا واس کے پاس ہے جنہوں نے زمبابوے کے خلاف 19 رنز دے کر 8 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔ ان کے سوا کوئی باولر ون ڈے میچ میں 8 وکٹیں حاصل نہیں کر پایا۔
عاقب جاوید نے اس میچ میں اپنے اس باؤلنگ سپیل میں ایک ہیٹ ٹرک بھی سکور کی تھی جب انہوں نے مسلسل تین گیندوں پر روی شاستری، محمد اظہرالدین اور عظیم ترین سچن ٹنڈولکر کو آؤٹ کر دیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تینوں انڈین بلے باز ایل بی ڈبلیو آوٹ ہوئے تھے۔ یہ مجموعی طور پرساتویں اور پاکستان کی طرف سے چوتھی ہیٹ ٹرک تھی۔ 19 سالہ عاقب جاوید کے کیرئیر میں یہ پہلا موقع تھا جب انہون نے 5 یا اس سے زیادہ وکٹیں حاصل کی ہوں۔ عاقب جاوید اس کے بعد بھی مسلسل اچھی باؤلنگ کرتے رہے مگر 1998ء میں ان کا کیرئیر صرف 26 سال کی عمر میں بہت ہی افسوسناک انداز میں اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ بہت سے لوگ اسے میچ فکسنگ کے خلاف بولنے کا شاخسانہ بھی قرار دیتے ہیں مگر یہ چیز آج تک کسی فورم پر ثابت نہیں ہو سکی۔ پاکستان کی طرف سے ایک اور خاص کارکردگی جو اس میچ میں دیکھنے کو ملی، وہ 18 سالہ زاہد فضل کے 98 ناٹ آوٹ رنز تھے۔ زاہد فضل کریمپس کی وجہ سے اپنی سنچری مکمل نہیں کر سکے تھے اور انہیں ریٹائرڈ ہرٹ ہونا پڑا تھا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ زاہد فضل کا یہ سب سے بہترین ون ڈے سکور بھی ہے۔ اس کے بعد زاہد فضل کئی بار ٹیم سے ان آؤٹ ہونے کے بعد صرف 22 سال کی عمر میں انٹرنیشنل کرکٹ سے باہر ہوگئے تھے۔
اس میچ میں عاقب جاوید کی وکٹیں دیکھیں
تبصرہ لکھیے