ہوم << امید بمقابلہ مایوسی-احسن اقبال

امید بمقابلہ مایوسی-احسن اقبال

na-117
حالیہ دنوں میں ملک کے اِن قابل نوجوانوں سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا جوپاکستان کی ترقی و خوشحالی میں نت نئے بزنس آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے میں مصروفِ عمل ہیں،بلاشبہ دورِ جدید میں جِدت ہی کسی بھی معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار اداکررہی ہے اور خداداد صلاحیتوں کے حامل نوجوان بزنس مین نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری میں ملک کا مثبت امیج اجاگرکرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ کسی بھی نئے کاروبار کی کامیابی کا دارومدار خود اعتمادی اور مثبت سوچ پر ہوتا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب گلاس کو آدھا بھرا یا آدھا خالی دیکھنے کے حوالے سے سوچ واضح ہو، ازل سے قانونِ فطرت ہے کہ آدھا گلاس خالی دیکھنے والے چاہے جتنے بھی وسائل سے مالامال ہوں ، مایوسی اور ناامیدی کے گہرے کنویں میں گِرکر ناکامی اپنا مقدر بنالیتے ہیں، ناکامی کا خوف انہیں کوئی بھی نیا رِسک لینے سے باز رکھتا ہے جس کی بناء پر مقاصد کا حصول سراسر اپنی ہی منفی اپروچ کی وجہ سے ناممکن ہوجاتا ہے جبکہ آدھا گلاس بھرا دیکھنے والے مثبت سوچ کے حامل افراد درپیش چیلنجز کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں، وسائل کی کمی کا رونا رونے کی بجائے مسائل کا پائیدار حل تلاش کرتے ہیں اور ہمتِ مرداں مددِ خدا کے مصداق کامیابی سے ہمکنار ہوجایا کرتے ہیں۔
یہی صورت حال عالمی منظرنامے میں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے جہاں تمام ممالک اپنے مثبت امیج کو اجاگرکرنے کیلئے سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں، بدقسمتی سے پاکستان کو ان عناصر کا سامنا ہے جو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے صرف اور صرف “ستیاناس” اور “بیڑاغرق” ہی کا راگ الاپ کر ملک و قوم کی بدنامی میں بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عالمی سیاست میں کسی بھی قوم کی پُرامیدی اور مثبت سوچ پر مبنی لائحہ عمل ہی کامیابی کا ضامن ہواکرتا ہے،اِس امر پر اختلاف نہیں کہ پاکستان کو مختلف چیلنجزکا سامنا ہے لیکن گزشتہ تین برسوں میں وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں مختلف شعبوں میں بیش بہا کامیابیوں کی داستانیں بھی رقم کی گئی ہیں۔پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی پر تمام پاکستانیوں کو فخر ہونا چاہیے، ماضی قریب میں عالمی طاقتوں کے ایماء پرایک آمرنے آئین کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی، غیرملکی اشاروں پر ڈالرزکے عوض ملکی مفاد کا سودا کیا گیا،ملک میں دہشت گردی کا بازار گرم کیاگیا، جمہوری معاشرے کی جان عوام کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کی مقبول قیادت کو قومی دھارے سے باہر کرنے کی غیرآئینی کوششوں کے باوجود عوام نے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے جمہوریت، انصاف، مساوات، اور قانون کی حکمرانی کیلئے اپنی پُرامن جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا، آج پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور دیگر طبقات کا فیڈریشن کو مضبوط بنانے کیلئے اتفاق ہے۔
اگر آج کے پاکستان کا موازنہ 2013ء کے پاکستان سے کیا جائے تو واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آج کا پاکستان 2013ء سے کہیں مختلف ہے جب ملک دہشت گردی کے عفریت کا شکار تھا، ریاست کی رِٹ روزبروز کمزور ہوتی جارہی تھی، روزانہ کی بنیادوں پر معصوم عوام کا خون بہایا جا رہا تھا لیکن بہادر قوم نے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جس کی بدولت آج کے پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت آخری سانسیں لے رہا ہے، کامیابی سے دہشت گردوں کا صفایا کیا جا رہا ہے جس کی تازہ مثال اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حکومتی اداروں کی چوکسی کی بناء پرحالیہ محرم کا خیروعافیت سے گزرنا ہے۔مجھے یہ بتانے میں فخر محسوس ہورہا ہے کہ موجودہ حکومت کی کامیاب پالیسیوں کا اعتراف عالمی میڈیا بھی کررہا ہے جو 2013ء میں اپنے تبصروں ، نیوز رپورٹس میں پاکستان کو روئے زمین پر خطرناک ترین ملک کہتا تھا اور آج پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی بناء پر پاکستان کوتیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت اورعالمی سرمایہ کاری کیلئے پرکشش ترین ملک قرار دیتا ہے،
ملکی معیشت جو چند برس پیشتر تباہی کا شکار تھی آج خطے کی ابھرتی ہوئی معیشت سمجھی جارہی ہے،2013ء کے پاکستان کے گروتھ ریٹ کا گزشتہ آٹھ برسوں سے موازنہ کیا جائے توآج 4اعشاریہ 8فیصد کی بلند ترین سطع پر پہنچ چکا ہے،پاکستان فارن ایکسچینج ریزرو 23بلین ڈالرز کی تاریخی بلندی کی بدولت آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوچکا ہے،حکومت اس کامیابی کے مثبت اثرات سے معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی کو مستفید کروانے کیلئے مصروفِ عمل ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ عناصر کی جانب سے ایسا بے بنیاد دعویٰ کرکے مایوسی پھیلائی جارہی ہے کہ حکومت نے عوام کو قرضوں میں جکڑ دیا ہے، جبکہ درحقیقت حکومت کی طرف سے گزشتہ تین برسوں میں ڈیبٹ/جی ڈی پی ریشو کو برقرار رکھا گیا ہے، ملک میں شرحِ بے روزگاری 6فیصد سے کم ہوچکی ہے، 2013ء میں فِسکل ڈیفیسٹ 9فیصدتھا جو آج 5فیصد ہے، موجودہ انفلیشن ریٹ لگ بھگ 5فیصد ہے جوکہ گزشتہ 13سالوں میں کم ترین سطع پرہے ، جی ڈی پی گروتھ ریٹ میں گزشتہ تین برسوں میں اضافہ ہوا ہے،
پاکستان سٹاک ایکسچینج تاریخ میں پہلی مرتبہ چالیس ہزار پوائنٹس عبور کرچکے ہیں،مورگن سٹانلے کیپیٹل انٹرنیشنل (ایم ایس سی آئی)سمیت عالمی ادارے پاکستان کو ایمرجنگ مارکیٹ قراردے رہے ہیں ۔ یہ وہ چشم کشا حقائق ہیں جن کی توقع 2013ء تک دور دور تک کہیں نہ تھی۔آج انرجی، انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور ہائیر ایجوکیشن کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی جارہی ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف نے اپنا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا ہے، موڈیز، اسٹینڈرڈ اینڈپورز جیسے عالمی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو پازیٹو قرار دیا ہے،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور دیگر اداروں کی غیرجانبدارانہ رپورٹس اس بات کی گواہ ہیں کہ ملک میں کرپشن میں کمی آئی ہے، گلوبل کمپیٹیٹونیس انڈکس میں پاکستان کی رینکنگ برائے 2015۔16ء بہتر ہوئی ہے، شرح خواندگی 60فیصد تک ہوچکی ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پرائم منسٹرز نیشنل ہیلتھ پروگرام کی بدولت معاشرے کے پِسے ہوئے غریب عوام کی حالت بہتر کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں،آئی ٹی انڈسٹری میں پاکستانی نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، پاکستان کو آئی سی ٹی کے شعبے میں نئے بزنس پراجیکٹس کے حوالے سے موزوں ترین سمجھا جا رہاہے،تھری جی اور فور جی متعارف کروانے کے بعد سی پیک منصوبے کے تحت آپٹیکل فائبر سے ملک میں مزید تیز رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے ،
پاکستان نے اپنے ہم پلہ ممالک کے گروپ میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو ماضی میں سیاسی عدمِ استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکا۔ یہ وہ حقائق ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ آج کا رائزنگ پاکستان درست سمت کی جانب گامزن ہے۔ اس کی بنیادی وجہ میرا گلاس کا آدھا بھرا ہوا دیکھنا ہے۔ ایسے حالات میں جب حکومت وقت کو ناحق تنقید کا نشانہ بناجارہا ہو میری پاکستانی معاشرے میں مثبت پہلو تلاش کرنے کی عادت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اختلافِ رائے کسی بھی جمہوری معاشرے کا حسن ہے، ہمارے سیاسی مخالفین سمیت دیگر ناقدین کو تنقید کرتے وقت پاکستان کی ترقی و خوشحالی پر مبنی منصوبوں کو نشانہ بنانے کی بجائے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ معاشرے میں پرامیدی اور مثبت سوچ اجاگر کرنے کا پیغام عام کرتے ہوئے میں توقع کرتا ہوں کہ ناقدین کو تنقید کرتے ہوئے توازن رکھنا چاہیے، آدھا گلاس خالی دیکھنے کی عادتِ بد سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے اور پاکستان سے منسلک مثبت کامیابیوں کو اجاگر کرنے کیلئے تعاون کا ہاتھ تھامنا چاہیے ورنہ اندیشہ ہے کہ مایوسی کے سوداگر قوم کا مورال ڈاؤن کرنے کا باعث بنیں گے جوکہ کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔