گزشتہ کالم کے حوالے سے ایک دو چیزوں کے سلسلے میں ایک باخبر دوست نے تھوڑی تصحیح کی ہے۔ اس واقف حال نے بڑی ذمہ داری سے بتایا کہ وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ہوئے تمہارے دوست نے کم از کم گزشتہ ایک سال سے تو کسی سکیورٹی میٹنگ میں سرے سے شرکت ہی نہیں کی‘ اب یہ تمہارے دوست کی ذاتی سمجھداری ہے یا اوپر والوں کی بے اعتمادی‘ لیکن یہ بات پوری ذمہ داری اور وثوق سے بتا رہا ہوں کہ ایسی میٹنگز میں تمہارا دوست موجود نہیں ہوتا۔ جب ہوتا ہی نہیں تو بات لیک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے کہا معاملہ خیر لیک کرنے کا نہیں، فیڈ کرنے کا ہے۔ وہ کہنے لگا تمہیں خود علم ہے کہ تمہارے دوست کا کم از کم سیرل المیڈا سے نہ ذاتی تعلق ہے اور نہ ہی کوئی راہ و رسم ہے ‘لہٰذا اس کو خبر دینا بعید از قیاس لگتا ہے کہ ایسی خبریں دینے کے لیے کسی حد تک ذاتی تعلقات کا ہونا نہایت ضروری ہے‘ راہ چلتے کو اپنا تعارف کروا کر خبر تو نہیں دی جاتی اور خاص طور پر ایسی خبر جو بارودی سرنگ سے بھی زیادہ خطرناک ہو۔
اور یہ سیرل المیڈا کوئی رپورٹر تو ہے نہیں کہ کہیں سے خبر نکال کر لے آئے۔ ایک اسسٹنٹ ایڈیٹر ٹائپ آدمی ہے اور اخبار کا باقاعدہ ملازم ہے۔ تمہارا دوست سرکاری ملازم ہے اور پنجاب حکومت کے ساتھ بڑی کامیابی سے کام کر چکا ہے اور اب وفاقی حکومت میں ہے اسے پتا ہے کہ کل کلاں اس کو پھر صوبائی حکومت میں کام کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ اس خبر کے بعد رائے ونڈ کے وفاداران کی واضح تقسیم ہو گئی ہے۔ بڑے میاں صاحب والے اور چھوٹے میاں صاحب والے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگا اس خبر پر غور کرو تو تمہیں دو باتیں فوراً سمجھ میں آجانی چاہئیں۔ پہلی یہ کہ اس خبر کے پیچھے وہ لابی ہے جو بھارت سے تعلقات بگڑنے پر پریشان ہے۔ حافظ سعید کو اس ساری گیم میں گھسیٹنے اور اس کے حوالے سے پنڈی والوں کے دل میں نرم گوشے کا اظہار کرکے جہاں بھارت کے اس موقف کو تقویت دی گئی ہے کہ آئی ایس آئی والے بھارت کے خلاف کشمیر میں متحرک ''نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کے سرپرست ہیں وہیں دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ اردگرد کے ممالک میں مداخلت سول حکومت نہیں بلکہ ''دوسرا فریق‘‘ کر رہا ہے۔ لیکن تمہیں علم ہے کہ اس خبر سے ملکی سلامتی کوجو خطرات لاحق ہوئے ہیں اس کے اثرات سے نکلنا کتنا مشکل ہے؟ یہ حرکت ویسے تو باقاعدہ قومی جرم ہے لیکن یہ جرم سے بڑھ کر گناہ ہے کہ ریاست کے اداروں کو عالمی سطح پر خوار کرنا جرم نہیں رہتا گناہ ہوتا ہے۔
نپولین عالمی تاریخ میں عسکری نابغہ ہے۔ نپولین کا کہنا ہے :''فوج تو بہر حال رہے گی۔ اب یہ آپ کی اپنی فوج ہو یا پھر دشمن کی‘‘۔ اپنی فوج کے خلاف (جرنیلوں کی طالع آزمائی سے قطع نظر یہ بات صرف فوج کی ہو رہی ہے) گڑھا کھودنے والے دشمن کی فوج کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ فی الوقت وزیراعظم کے قریب موجود ساری کاروباری لابی بھارت سے تجارت، بھارت میں اپنے بنکوں کی برانچیں کھولنے اور اپنی فیکٹریوں کا مال بیچنے یا اس کے لیے سستا خام مال خریدنے کے لیے بے چین ہیں۔ مودی کی حرکتوں نے ان کا سارا پلان چوپٹ کر دیا اور کشمیر میں جاری حالیہ سودن سے زائد عرصہ سے جاری بھارتی جبر کی لہر اور کشمیریوں کی بے مثال پر امن مزاحمت نے جہاں پہلی بار بھارت کو عالمی سطح پر دفاعی حالت میں لانے میں مرکزی کردار سر انجام دیا ہے وہیں وزیراعظم کو مجبوراً اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلے پر بات کرنا پڑی ہے۔ ایسی صورتحال میں اپنے بھارتی کرم فرماؤں کو مطمئن کرنے اور اپنے اخلاص کا ثبوت دینے کے لیے یہ سٹوری بڑی کارآمد ثابت ہوئی ہے اور وزیراعظم بھارت میں اپنے ہمدردوں کو یہ پیغام دینے میں کسی نہ کسی صورت میں کامیاب ہوئے ہیں کہ وہ مجبور محض ہیں اور پاکستان میں بھارت مخالف جذبات کو اُبھارنے میں معروف تنظیموں کے خلاف کچھ کرنا تو چاہتے ہیں مگر ڈنڈے والے انہیں ایسا نہیں کرنے دے رہے۔
دوسری طرف خاندان کے اندر وراثت کی چپقلش بھی زوروں پر ہے اور اس کہانی میں سکرپٹ رائٹر نے ایک تیر سے دو شکار کھیلے ہیں۔ ایک بھارت کے خلاف دامے، درمے، سنخے کام کرنے والوں کا ''مکو ٹھپنے‘‘ کی بھرپور کوشش کی گئی اور دوسرا وار میاں شہباز شریف پر کیا گیا۔ سٹوری میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی والوں سے میاں شہباز شریف کی تلخی ہوئی ہے اور انہوں نے کہا کہ ہم بندے پکڑتے ہیں اور پنڈی والے بندے چھڑوا لیتے ہیں‘ یعنی کہ ہم تو دہشت گردوں کی سرکوبی کرنا چاہتے ہیں مگر ڈنڈے والے ان کی سرپرستی فرما رہے ہیں۔ خواہ اس میں اشارہ ایک دو افراد کی طرف تھا مگر پیغام واضح تھا۔ اور اس بدمزگی کو ختم کروانے میں میاں نواز شریف نے مصالحانہ کردار سر انجام دیا اور بیج بچائوکروایا۔ صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ تقریباً دو سالوں سے جب بھی معاملات بگڑے ہیں میاں شہباز شریف علی الصبح اُٹھ کر ملاقات کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں اور گرمی سردی کو ٹھنڈا کرکے واپس آتے ہیں۔ اب ان کے حوالے سے اس بات کو اچھالنے کا مطلب جہاں انہیں خراب کرنا ہے وہیں یہ بھی ہے کہ اب وہ اس معاملے میں اپنا مصالحتی کردار بھی آئندہ سر انجام نہ دیں اور لڑائی کھُل کر ہو جائے۔
اس لڑائی کی تیاری کم از کم ایک طرف تو پوری شدو مد سے جاری ہے۔ اس ہفتے کا اگر سیرل المیڈا کا کالم پڑھا جائے اور اس کی عامیانہ زبان پر غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ میاں صاحب کی چار چھ بندوں پر مشتمل لڑاکا بٹالین ایک زور دار معرکے کی پوری تیاری کر چکی ہے اور وہ اس معرکے میں اپنی فتح کے لیے مکمل پُر یقین ہیں کہ انہیں یہ بات سمجھ آ چکی ہے کہ مارشل لاء کا لگنا خارج از امکان ہے اور دوسری کوئی صورت انہیں گھر نہیں بھیج سکتی۔
اس ہفتے کے کالم میں سیرل المیڈا لکھتا ہے: ''جہاں تک بات ہے چیف کی تقرری کی اور لونڈوں (Boys) کے غصے کی، تو ان سترہ دنوں کے طلاطم کو بڑی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک طرف سخت غصہ ہے تو دوسری طرف نواز شریف قدرے اطمینان میں! کیوں؟ اگرچہ غصہ بالکل صاف نظر آرہا ہے لیکن ایک ایسا چیف جس کی چھٹی ہو رہی ہے اگرچہ وہ تاریخ کا مقبول ترین ہی کیوں نہ ہو لیکن اسے سیاسی مات ہو چکی ہے اور اس کا ایک فاتحانہ رخصتی کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے۔ اس وقت چار معزز لوگ (chaps) لائن میں ہیں جو نواز شریف کی منظوری کے منتظر ہیں اگر ان کی موجودہ چیف سے ہمدردی بھی ہو تو وہ نواز شریف کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
سر! آپ کا وقت پورا ہوا۔ آپ کے ساتھ بہت بُرا ہوا۔ آپ گھر جائیے اور میرے معاملات خراب نہ کیجئے‘‘۔
میں نے ایمانداری سے حرف بحرف صرف ایک پیرے کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کالم میں زبان ایسی ہے جو ان پڑھ امریکی گلیوں میں استعمال کرتے ہیں جسے ''لینگوئج‘‘ نہیں بلکہ ''سلینگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ سیرل کا پاوا تگڑا ہے اور اسے اس سلسلے میں رتی برابر پریشانی نہیں، البتہ میاں نواز شریف نہ صرف پریشان ہیں بلکہ حواس باختہ بھی۔ ایک دوست رحیم یار خان میں ہیلتھ انشورنس والی تقریب میں موجود تھا‘ بتانے لگا کہ میاں صاحب اتنے پریشان اور ٹینشن میں تھے کہ کوئی بچہ بھی ان کی اس حالت کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتا تھا کہ میاں صاحب کی کیفیت کیا ہے۔ وہ دوست کہنے لگا‘ اگر حالت ٹھیک نہ ہو اور پریشانی شکل سے ہویدا ہو تو بندے کو پبلک میں نہیں آنا چاہئے۔ ہر دو منٹ بعد وہ ایک پرچی لکھ کر کہیں بھجواتے تھے اور جوابی ہدایت والی پرچی وصول کرتے تھے۔ گمان غالب ہے کہ وہ یہ پرچی مریم بی بی کو بھجواتے تھے اور وہاں سے مشورہ طلب کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔ حقیقت کیا تھی مگر پس پردہ کوئی ایڈوائزر ضرور موجود تھا۔
ڈان والی سٹوری میں یہ واضح نظر آتا ہے کہ میاں شہباز شریف کو فریق ثانی کے آمنے سامنے لایا گیا اور سارے معاملے کی خرابی کا ملبہ ان پر ڈال کر ان کے تعلقات جو کم از کم میاں نواز شریف کی نسبت فوج سے کہیں بہتر تھے خراب کرنے کی پوری سعی کی گئی ہے اور یہ خاندان کے اندر جاری سیاسی وراثت اور جانشینی کی جنگ کو ظاہر کرتی ہے جو ابھی تک تو کھل کر سامنے نہیں آئی مگر آثار صاف نظر آرہے ہیں۔ بقول شخصے رحیم یار خان کے جلسے میں میاں صاحب کو جو رونا آیا تھا وہ غریبوں کی حالت پر نہیں اپنی موجودہ حالت پر آیا تھا کہ لڑائی چھیڑلی ہے اور ''تپڑ‘‘ ہیں نہیں۔
حالات خرابی کی طرف جا رہے ہیں اور ان حالات کو اس جگہ کسی اور نے نہیں خود میاں صاحب نے بڑی محنت سے پہنچایا ہے۔ پاناما پر ٹی او آرز بن جاتے تو عمران خان کو سڑکوں پر نکلنے کی ضرورت نہ رہتی کہ معاملہ سڑکوں پر آنے کے بجائے پارلیمنٹ میں طے پا جاتا مگر صورتحال یہ ہے کہ میاں صاحب پارلیمنٹ سے لے کر نیب تک اور ایف آئی سے لے کر عدالتوں تک، ہر ادارے کو عام آدمی کے لیے بے اعتبار کر چکے ہیں اور کسی کو بھی یقین نہیں کہ وہ میاں نواز شریف کے مقابلے میں یہاں سے دادرسی پا سکے گا۔ جب تمام گلیاں بند ہو جائیں تو معاملہ سڑکوں پر آ جاتا ہے اور اب آچکا ہے۔
جمہوریت اگر میاں نواز شریف کا نام ہے تو وہ اس وقت دباؤ میں ہے (خطرے کا لفظ شاید مناسب نہیں) اور اگر جمہوریت کا مستقبل پارلیمنٹ سے وابستہ ہے تو اسے قطعاً کوئی خطرہ نہیں۔ جمہوریت کا مطلب ہی نظام ہے نہ کہ فرد۔ لیکن ہمارے ہاں عجب جمہوریت ہے جو افراد سے جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں جب بھی جمہوریت کی بساط لپٹی ہے افراد کی خاطر لپٹی ہے۔ تا ہم اب جمہوریت کی بساط کو نہیں افراد کو مصیبت کا سامنا ہے۔
تبصرہ لکھیے