دو نومبر کو کیا ہوگا؟ بظاہر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اسلام آباد کا گھیراؤ کریں گے، اسلام آباد میں کاروبار زندگی بند کریں گے اور وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کا نام پاناما لیکس میں آنے کی وجہ سے انکے خلاف مظاہرہ کریں گے۔ 24 اکتوبر کو سخاکوٹ ملاکنڈ میں پارٹی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کشتیاں جلاکر اسلام آباد جارہے ہیں، ہمارا مقابلہ کرپشن کے شہنشاہ نواز شریف سے ہے۔ کرپشن ٹولے کے جعلی کھلاڑیوں میں ایزی لوڈ اسفند یار، کرپٹ زرداری، فضل الرحمن، اچکزئی، شو باز، امیر مقام، اکرم درانی شامل ہیں۔ دو نومبر کو اسلام آباد میں دس لاکھ افراد جمع ہونگے (نوٹ: دس لاکھ افراد جمع کرنے کا دعوی عمران خان نے 2014 کے دھرنے سے پہلے بھی کیا تھا جس میں وہ ناکام رہے تھے) اور اتنی تعداد میں عوام جمع ہونے کے بعد نواز شریف خود یا تو تلاشی دیں گے یا مستعفی ہوجائیں گے۔ عمران خان نے نواز شریف پر ایک بہت ہی خطرناک الزام یہ بھی لگایا کہ ’’جب بھی نواز شریف پر کوئی دباؤ پڑتا ہے، کنٹرول لائن پر ماحول گرم ہوجاتا ہے، وزیراعظم خود کو اور اپنی کرپشن کو بچانے کے لیے بھارتی و اسرائیلی لابی سے اپیلیں کررہے ہیں۔‘‘
حزب اختلاف کی جماعتیں وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کا نام پاناما پیپرز میں آنے کے بعد سے ان سے اپنی پوزیشن صاف کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں تاہم نواز شریف حزب اختلاف کی جماعتوں کا کوئی مطالبہ ماننے کو تیار نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس ضمن میں ملک بھر میں تحریک احتساب بھی شروع کر رکھی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دو نومبر2016ء کو اپنے حامیوں کے ساتھ اسلام آباد جاکر اس کو بند کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی 2014ء میں عمران خان نے علامہ طاہر القادی کے ساتھ ملکر 14 اگست 2014ء کواسلام آباد کا گھیراؤ کیا تھا اور 126 دن کا دھرنا دیا تھا۔ یہ دھرنا شاید اور چلتا لیکن 16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں 132 بچوں سمیت 148 افراد مارے گئے جس کی وجہ سے عمران خان نےاپنا دھرنا ختم کردیا تھا۔ اگست 2014ء سے دسمبر 2014ء تک عمران خان کا سارا احتجاج یا اسلام آباد میں دھرنا 11مئی 2013 کےانتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف تھا۔
نواز شریف کابینہ کےوزرا جو ماہانہ آٹھ کروڑ روپے سے زیادہ تنخواہ تو سرکاری خزانے سے لیتے ہیں لیکن نوکری نواز شریف اور انکے اہل خانہ کی کرتے ہیں، حسب دستوروفاقی وزیر اطلات پرویز رشید سمیت وفاقی وزرا خواجہ آصف، عابد شیرعلی، خواجہ سعد رفیق، اسحاق ڈار، احسن اقبال،چوہدری نثار علی خان، محمد زبیر، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، صوبائی وزیر قانون راناثنا اللہ، ممبرقومی اسمبلی دانیال عزیز،سینیٹر نہال ہاشمی، مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری اور طارق فضل چوہدری کریز پر موجود ہیں اور نواز شریف کو بچانے کےلیے صبح سے شام تک کسی نہ کسی صورت میں عمران خان کے خلاف الزامات پر الزامات لگاتے ہیں، سب سے زیادہ شوکت خانم ہسپتال کے مالی معاملات کے بارئے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس میں دھاندلی کیں گیں ہیں، پہلے یہ الزام ممبرقومی اسمبلی دانیال عزیز نے لگائے تھے اب وہی الزام وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار لگارہے ہیں جبکہ پاناما پیپرز اورشوکت خانم ہسپتال کے مالی معاملات دو علیدہ کیس ہیں، ابھی تو نواز شریف کو پاناما پیپرز کا جواب دینا لازمی ہے۔
نواز شریف کومزید سیاسی توانائی دینے کے لیے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کےسربراہ محمود خان اچکزئی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان موجود ہیں، اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما اورقائد حزب اختلاف خورشیدشاہ نے نواز شریف کو عمران خان کی جارحانہ بولنگ سے بچانے کی امید دلائی ہے۔ خورشیدشاہ کا کچھ دن پہلے فرمانا تھا کہ عمران خان کا اسلام آباد بند کرنا غیر آئینی ہے۔ جبکہ جاپان میں موجود مسلم لیگ ن کے سیکریٹری اطلاعات مشاہداللہ خان کا کہناتھا کہ عمران خان کا اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان اقدام بغاوت ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پاناما کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد مظاہرےکاکوئی جواز نہیں، اسلام آباد بند کرنےکا اعلان عوام اور ملک کے ساتھ دشمنی ہے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمان نے ایک ملاقات کے بعد فرمایا کہ ان کے خیال میں‘‘اسلام آباد بند کرنے کا اعلان غیر جمہوری اورغیر آئینی ہے۔ تو پھر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوازشریف کا پاناما پیپرز کا معاملہ لٹکائے رکھنا اور اسپیکر قومی اسمبلی کو اس معاملے میں اپنے حق میں استمال کرنا کیا غیر جمہوری اورغیر آئینی نہیں ہے؟۔
وزیر اعظم نواز شریف اپنے خلاف اس صورت حال کو اپنے انداز سےکنٹرول کرتے ہوئےنظر آئے۔ گذشتہ دنوں وہ کئی کئی گھنٹوں پرمشتمل پے درپے ملاقاتیں کررہے تھے، پانچ روز میں پانچ بڑے اجلاس ہوئے۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے گذشتہ تین سال میں ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ جس وقت ملک کو قومی اتحاد کی ضرورت ہے، ملک سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے، اپوزیشن لیڈرعمران خان نے کشمیر کے مسئلے پر پارلیمنٹ کے دو روزہ مشترکہ اجلاس کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کردیا کہ ‘میں نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں مانتا وہ ایک کرپٹ شخص ہے۔ میں ایک کرپٹ شخص کی بلائی گئی کسی بھی کانفرنس اور مشترکا پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کر کے اس کے ہاتھ مضبوط نہیں کرنا چاہتا۔ وہ کشمیر کی آڑ میں پاناما پیپرز میں بیان کیے گئے الزامات سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں’۔نوازشریف اور عمران خان دونوں کا دعویٰ تو یہی ہے کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، کشمیری قوم بھارتی فوج سے لڑ رہی ہے جبکہ نوازشریف اور عمران خان ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ دونوں کے باہمی اختلافات اور ایک دوسرے سے ذاتی طور پرنفرت کشمیریوں سےہمدردی پر غالب آگئی ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ’’وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا پختہ ارادہ ہے کہ اپوزیشن سیاستدان عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کے وہ تمام احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ہر صورت میں روک دیے جائیں گے، جن کے ذریعے اسلام کو بند کرانے کی کوشش کی جائے گی جبکہ تحریک انصاف اپنے احتجاج کے ساتھ اسلام آباد میں حکومتی دفاتر اور ٹرانسپورٹ کو بند کرا دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔‘‘ پاکستان کے اندر اس وقت سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے، نہ حکومت عمران خان کا کوئی مطالبہ ماننے کو تیار ہے اور نہ ہی عمران خان حکومت کو کوئی رعایت دینے کو تیار ہیں۔ کسی بھی طرح کےپرتشدد یا آئین سے ہٹ کرکوئی بھی عمل ملک کےلیے نقصان دہ ہوگا۔ دو نومبر کو کیا ہوگا یہ تو دو نومبر کو ہی پتہ چلےگا کہ نواز شریف نےتلاشی دی یا استعفیٰ یا عمران خان کو 2014 کے دھرنے کی طرح پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ایک ایسے وقت جب ہمارئے سیاست دانوں کوقومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے وہ آپس میں لڑرہے ہیں ، کیا اس طرح ہمارا موجودہ سیاسی نظام باقی رہ پائے گا؟
واہ بھئی بہت اعلی لکھا ہے