شادی سُنت ہے، شادی معاشرتی ضرورت ہے، شادی دو زندگیوں کا، دو خاندانوں کا ملاپ ہے، شادی ایک نئے خاندان کی شروعات ہے. شادی پاکیزگی ہے، شادی فطرت ہے، اور فطرت کی پاکیزہ تعمیر ہے.
شادی ایک کرنی چاہیے، یا دو تین چار، اس پر بھائی بہنوں نے ہر موقف پر سیر حاصل بحث کرلی ہے. ہم اور آپ نے یہ پڑھ بھی لی ہیں. اس بحث سے صرف نظر کرتے اس بحث کے پسِ منظر میں جاتے ہیں. یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں حالات اس نہج پر آجائیں کہ زنا کرنا آسان ہو جائے اور نکاح کرنا مشکل ہو. وہاں تعدد ازواج نہیں، سببِ گناہ کی تلاش زیادہ اہم ہوتی ہے.
لفظ شادی کیا ہے؟ جب یہ لفظ زندگی میں آتا ہے، تو آج کوئی لڑکی کا باپ کیا سوچتا ہے؟ شادی کرنے والا لڑکا، اس کا خاندان کیا سوچتا ہے؟ اہم اس لفظ کا وہ پہلا تاثر دیکھنا ہے. آج شادی کا مطلب لڑکی کے والد کے لیے اور لڑکے اور اس کے خاندان کےلیے بہت سی رسموں کا نام بن گیا ہے. وہ رسمیں جن کی ادائیگی میں خون پسینہ کی کمائی فضولیات کی نظر ہوتی ہے. قرضوں کے بوجھ چڑھتے ہیں. یہ سنت رسموں و رواجوں کی ملمع کاریوں میں سنت نہیں فرض نہیں ایک بڑا بوجھ بن جاتی ہے.
شادی کیا ہے؟ عبدالرحمان بن عوف نبی علیہ السلام کی محفل میں آئے تو کپڑوں پر زعفران کا نشان تھا, نبی پاک نے پوچھا عبدالرحمان کیا ماجرا ہے؟ عبدالرحمان بن عوف نے کہا اے نبی انصار کی ایک خاتون سے شادی کر لی. آپ علیہ السلام نے پوچھا، کتنا مہر دیا؟ کہا ایک نواۃ سونا. نواۃ کجھور کی گھٹلی کو کہتے ہیں. آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے کہا کہ ولیمہ کرو خواہ ایک بکری یا بکرے یا چھترے کا ہی ہو. ولیمہ کرو.
شادی نکاح کی یہ میراث ہم نے پائی، آج شادی کیا ہے؟ منگنی سے شروع رسموں کا سیلاب، رشتے کی تلاش کی دعوتیں، منگنی کی رسمیں، شادی، مہندی، مایوں، برات، شادی ہالز، جہیز، ڈشوں کے انتخاب رخصتی کی رسموں سے ہوتے گود بھرائی تک پہنچ گئیں. خاندان کے دور نزدیک کے مہمانوں کے کارڈز ہر تقریب کا ڈریس کوڈ، موویز، بیوٹی پارلر، کُل ملا کر نکاح و شادی کو رواجوں کے انبار میں ایسا دبا دیا گیا کہ سنت ہی بھاری لگنے لگی.
اسلام قناعت و سادگی سکھاتا ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ رواجوں پر قدغنیں ڈالی جائیں، لیکن ہوتا یہ ہے کہ ان رواجوں کو ذمہ داری بنا دیا جاتا ہے، اس ذمہ داری کو گلیمرائز کرلیا جاتا ہے. اس گلیمر میں اس کا وزن اتنا بڑھ جاتا ہے کہ شادی بوجھ لگتی ہے. ایسا بوجھ جو دوسری تیسری کا تصور مٹا دے.
دوسری تیسری شادی کو معتوب کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، غریب کی بیٹی ان رواجوں کی زنجیروں میں جہیز کے طوق سے بندھ جاتی ہے. بالوں میں چاندنی اتر آتی ہے لیکن رواجوں کی زنجیریں وہ کھول نہیں پاتی.
آئیں ان رواجوں سے بغاوت کریں، اپنے اور اپنے اردگرد سے ان رواجوں کی زنجیروں کے حصار توڑیں. تب مسئلہ دوسری تیسری کا نہیں بنے گا. ہر فرد اپنے تقاضے اور ضرورت پر فیصلہ کرے گا.
تبصرہ لکھیے