* دین بیزاروں اور ملحدین کا کہنا ہے کہ مذہب میں سوال سوچنے اور پوچھنے پہ پابندی ہے، جب ہمارے پاس عقل ہے تو ہم استعمال کیوں نہ کریں؟
* یہ بظاہر معصومانہ سوال انتہائی دھوکہ پر مبنی ہے، جی ہاں! مذہب میں سوچنے اور سوال کرنے پر کوئی پابندی، نہیں مذہب تو فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے لیکن سوچنے اور سوال کرنے کا بھی کچھ لیول ہونا چاہیے، سوال ایسا نہ ہو کہ سائل کی اوقات سے زیادہ ہو، مثلا ایک سپاہی قومی سلامتی کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتا، صرف تابعداری کرے گا، ایک ملک کا شہری دوسرے ملک کی پالیسی میں رائے نہیں دے سکتا، ایک آدمی دوسرے آدمی سے اُس کی ملکیت پر اختیار اور تصرف کے متعلق سوال نہیں کرسکتا کہ یہ حد، حدود اور حقوق کی بات ہے، یہ ملکیت کا باب ہے، ایسی ہی حقیقت یہ بھی ہے کہ اللہ نے انسان کو عقل دی ہے تو سوچنے کا بھی معیار دیا ہے، اسلوب دیا ہے، جو کہ دین ہے، سوچیے اور ضرور سوچیے لیکن دین کے خلاف نہیں، کیونکہ دین حتمی دستور ہے اور انسان اُس کو فالو کرنے پہ مامور ہے، چنانچہ مسلمان خود کو مامور سمجھتا ہے جبکہ بےدین خود کو مجبور کہتا ہے، حالانکہ بنانےوالے کی بات ماننا دل لگتی اور عقل سمجھتی بات ہے.
سادہ سی مثال سے بات سمجھی جاسکتی ہے کہ کمپنی ایک چیز بناتی ہے اور اُس کے استعمال کے لیے مناسب طریق کار اور مفید ہدایات بھی فراہم کرتی ہے، اب لازم ہے کہ اُس چیز کو دیے گئے طریق کار پر ہی استعمال کیا جائے، جو شخص کمپنی کی ترتیب کے خلاف استعمال کرے گا، نقصان اٹھائے گا، زیادہ سائنس دانی کی حاجت نہیں سمجھنے کے لیے ایک عام سی مثال کافی ہے کہ بجلی سپلائی کے A\C اور D\C طریقہ کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو ٹھاہ ٹھاہ کی آواز کے ساتھ قیمتی الیکٹرونکس اشیاء ہوا ہوجائیں گی. بالکل یہی معاملہ انسانی عقل کا ہے، عقل مفید شے ہے، سوچنے میں مددگار ہے، راہنمائی میں معاون ہے مگر حتمی دلیل نہیں ہے، مثلاً گونگا اندھا اور بہرا اپنی عقل کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا، اور یہی نوعیت فکری اندھے گونگے اور بہرے کی ہے کہ وہ بات سمجھنے سے، قبول کرنے سے عاجز ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالےٰ ہے صم بکم عمی فہم لایرجعون ! البتہ ایسے لوگ مفادپرستی سے قطعی نہیں شرماتے، اللہ کی پیدا کردہ کائنات میں سے حسبِ ضرورت اپنی مطلوبہ اشیاء استعمال کرلیتے ہیں، مصیبت میں OMG کہہ کے دل بہلا لیتے ہیں، مشرکینِ مکہ کی طرح اللہ کو پکارتے ہیں اور کنارے پہ آ کے سائنس کو thanks کہتے ہیں، اللہ کا حکم مانتے ہیں نہ ہی اُس کا احسان تسلیم کرتے ہیں. ایسے لوگوں سے ہمارا سادہ سا اصولی تقاضا ہے کہ جس نے خالقِ کائنات کے احکامات کو تسلیم نہیں کرنا، وہ براہِ غیرت و حمیت اِس کائنات سے تشریف لےجائے کیونکہ جہاں کی شناخت استعمال کی جائے، وہاں کے احکامات ماننا لازمی امر ہے، مثلاً ہم کسی ادارے میں کام کرتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ اُس کے تمام تر قوانین کی پاسداری کریں، اگر نہیں کرنی تو وہاں سے د ف ع ہوجانا چاہیے کہ یہ آئینی وقانونی بات ہے، تو ایسا ہی کچھ طور طریقہ کائنات کے استعمال اور خالقِ کائنات کی اتباع کا ہے.
نظامِ فطرت اور احکامِ شریعت سے منکر عقل عقل کی بات تو کرتا ہے مگر عقل استعمال کرنے کے خدائی دستور سے فرار پکڑتا ہے، جبکہ عقل متاثر ہونے والی شے ہے، بچپن سے پچپن تک ہزار مرتبہ بدلتی ہے، تھکاوٹ کے وقت سُن ہوجاتی ہے، جوش کے وقت مفلوج ہوجاتی ہے، بیماری میں بےبس اور صحت میں آوٹ آف کنٹرول ہوجاتی ہے، جوانی مستانی میں ہاتھ نہیں آتی، تو ایسی کمزور شے کو کُلی اختیار کیسے دیا جاسکتا ہے، ہاں عقل ایک حد تک معاون ہے اور اُس حد سے آگے اللہ کا حکمِ مطلق ہے، دین ہے، شریعت ہے، وحی ہے اور کیا خوب کہا ہے کسی نے کہ وحی عقل کی رہنما ہے جو دلیل بھی ہے اور کامل بھی ہے، اللہ نے عقل دی انسان کو اپنی سہولت کےلیے نہ کہ اللہ کی الوہیت کو چیلنج کرنے کے لیے، باغی ہے وہ عقل جو اللہ کی بات کے مقابل آجائے، اللہ بچائے ہمیں ایسے مشاہدات اور حالات سے کہ ہماری عقل اللہ سے باغی ہوجائے. آمین
تبصرہ لکھیے