اگلے روز نئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے فرمایا کہ تعلیمی اداروں میں رقص و موسیقی کی حمایت اس لیے جاری رکھیں گے کہ یہ ”لبرل معاشرے“ کا لازمی حصّہ ہے.
وزیراعلیٰ سندھ نے اپنے تمام پیش روؤں کے برعکس چارج سنبھالتے ہی چند اچھے اقدامات کا کم از کم اعلان کر کے اور غیر روایتی ہنگامی دوروں اور فوری بموقع احکامات کے ذریعے اچھا نام کمایاہے. کہتے ہیں کہ ہر کامیاب حکمران کے دامن سے جراثیم کی طرح چمٹے کچھ مشیر ہوتے ہیں جو اس کامیاب انسان کو اپنی عینک، اپنے کان اور اپنا دماغ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور اچھا بھلا انسان بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے، اور اگر یہ حکمران بدقسمتی سے پیدائشی لبرل اور سیکیولر بھی ہوں تو سونے پر سہاگا کیوں کہ ان لبرلز کی ایک کامن بیماری یہ ہے کہ یہ کسی فرسودہ نظام کی بوسیدگی کا فائدہ اٹھا کر مسندِ حکمرانی پالیتے ہیں تو اپنے خواب و خیال میں ایسا سمجھنے لگتے ہیں کہ سارا معاشرہ ہی لبرل ہوگیا ہے.
اے بھائی لبرل! تم نے دیکھا نہیں اس معاشرے کو ــ جہاں کسی لبرل کے جنازے کو ڈیڑھ درجن افراد نہیں ملتے اور کسی کے جنازے کو لاکھوں شہری ملتے ہیں ــــ جہاں تمہاری تمام کوششوں کے باوجود نوجوانوں میں داڑھی اور نقاب کا کلچر تیز رفتاری سے فروغ پا رہا ہے ـــــ جہاں مساجد اور نمازی ہی نہیں حفّاظ قرآن کی تعداد میں بھی روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے ـــــ جہاں آج بھی ہر عام و خاص امن کی آشا کو امن کا جھانسہ سمجھتا اور دل کی اتاہ گہرائیوں سے بھارت، امریکہ اور اسرائیل سے نفرت کی حد تک بیزار ہے ـــــ جہاں قراردادِ مقاصد پر تمہارے رونے دھونے، پاؤں پٹخنے، واویلا کرنے کا کوئی اثر نہیں لیا جاتا، اور آج بھی ”پاکستان کا مطلب کیا لاالہٰ الااللہ“ اہل وطن کا سب سے محبوب نعرہ ہے ـــــــــــ کیا تم نہیں دیکھتے اس معاشرے کے حسن کو جو سرحدوں کی تفریق کو بالاتر رکھ کر ترکی سے تیونس تک اور مصر سے الجزائر تک لبرلز کی پے در پے شکستوں اور اسلامیوں کی شاندار اور مسلسل کامیابیوں پر جشن مناتا، مٹھائیاں بانٹتا اور شکرانے کے نوافل پڑھتا ہے ـــــ اور ایک ایسا معاشرہ جو صرف ایک کلمہ کے رشتہ کی بنیاد پر کشمیر، بنگلہ دیش، مصر، شام اور ساری دنیا میں مظلوموں کے خلاف تمہارے بڑوں کے ظلم و بربریت پر غمزدہ اور متفکر رہتا ہے.
ان اندھے بہرے لبرل اور سیکولر حکمرانوں کو کوئی سمجھائے کہ آپ کے جدامجد سے لے کر آج تک میڈیا پر قبضے کے باوجود، ترقی پسند ادب اور لٹریچر کی بھرمار کے باوجود، بین الاقوامی این جی اوز کی بھرپور فنڈنگ کے باوجود، مفلس و مجبور انسان کی قیمت لگا کر اپنے ایجنڈے پر چلانے کے باوجود، دنیا کی تمام بڑی طاقتوں اور اداروں کی کھلی و چھپی امداد و حمایت کے باوجود ــــــــــــ پاکستانی معاشرے سے اس لبرل ازم کے شوشے کو محض چند کے علاوہ ملا ملایا کچھ بھی نہیں. یہ یقینی ہے کہ فرسودہ نظام کے طفیل عبداللہ شاہ کا پوتا پھر پڑپوتا بھی وزیر اعلیٰ بنا تو اس معاشرے کو لبرل اور حکومتی نظام کو سیکولر نہیں بنا سکے گا. (ان شاءاللہ)
ہم اپنے پیارے وزیراعلیٰ سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کرتے ہیں کہ جو چند اچھے اچھے اعلانات آپ سے ہو گئے ہیں، اُن پر عملدرآمد کی فکر کیجیے تاکہ آپ کے ناکارہ پیش رو حکمرانوں کے چھوڑے ہوئے بدنما داغ کچھ دھلنا شروع ہوں. رہا معاملہ اسکولوں میں رقص و موسیقی کا تو اپنے اور اپنے لبرل دوستوں کے بچوں کے لیے الگ سے کوئی انتظام فرمالیں کیوں کہ ہم تو اپنے بچوں کو اسکولوں میں پڑھنے لکھنے بھیجتے ہیں، ناچنے گانے نہیں.
تبصرہ لکھیے