کالج سے چھوٹے تو کاروبار نے جکڑ لیا. خود کاروبار کیا ہے، محض ایک چٹیل میدان جہاں افکار کے سوتے خشک ہوتے دیکھے، ان کو جلا کیا ملتی؟ لیکن قسمت اچھی تھی کہ کاروبار کتاب کا تھا. کتاب بیچتے کتاب چھاپتے مدت گزر گئی. جی ہاں میرا مذہبی کتب کا کاروبار ہے، مولوی نہیں لیکن ایک خالص مولوی کا بیٹا ہوں. باپ کے منہ سے گالی تو بڑی بات، کبھی بد تہذیبی کی ہلکی سی بات بھی یاد میں نہیں. اگرچہ ہمارے لڑکپن میں ہی وہ دنیا سے چلےگئے، لیکن ہماری زندگی کی عمارت کی بنیاد رکھ گئے. میں ان کے اخلاق کو شاید چھو بھی نہ سکوں لیکن کسی سے بدزبانی کرنا، توہین کرنا، میرے لیے بھی ویسے ہی مشکل ہے. ہماری دکان پر بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کے چوٹی کے علماء کا مستقل آنا جانا رہتا تھا، میں نے مذہبی طبقے کو جتنا بااخلاق پایا اس کی کم ہی مثال ملے گی.
مجھے شاید چار برس ہوے سوشل میڈیا پر لکھتے ہوئے، بہت سا لکھا، کبھی اچھا کبھی گوارا، بہت سے افراد پر تنقید کرتا ہوں، اور بہت کا رد، لیکن ایک بات عجیب ہے کہ مجھ سے ایک دو بار ہی کسی نے بدزبانی کی ہے. بلاشبہ یہ ایسا ہی مے خانہ ہے کہ جہاں قدم قدم پر پگڑی اچھلتی ہے، لیکن ہم تو اس گلی میں سے اپنی دستار و جبہ بنا کسی داغ کے بچا کے لے آئے ہیں. ہم کوئی ایسے پارسا نہ تھے اور نہ ہی کوئی بھگت کبیر کہ جو ”باجار“ میں کھڑے سب کی”کھیر“ ہی مانگتے رہتے ہیں. بیسیوں بار بہت سوں کے بارے میں تند و تیز بھی لکھا اور شدید تلخ بھی لیکن سب کچھ ایک خاص سلیقے کے ساتھ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے.
یہ سب قصہ طویل اس لیے ہے کہ ایک صاحب کا لکھا دیکھا کہ مذہبی لوگوں کا اخلاقی دیوالیہ پن حد سے گزر گیا. میں صرف اس بات سے حیران ہوں کہ اخلاق کی گراوٹ کی دہائی دیتے ہوئے صاحب ایسے بے اختیار ہوئے کہ مدارس کے خاتمے کی پیشین گوئی تک کر ڈالی. سوشل میڈیا پر موجود ایک خاص طبقے کی جہالت کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کو ہی مذہبی طبقے کا چہرہ قرار دے دیا.
ایسی بھی کیا بےخبری اور سادگی کہ بندہ معقول سا تجزیہ بھی نہ کر سکے. حضور والا مجھ کو آج تک چار برس میں کسی نے گالی دی نہ دشنام کیا، میں مسلسل لکھتا ہوں اور طویل لکھتا ہوں، کہہ چکا کہ اختلاف کرتا ہوں اور ڈٹ کے کرتا ہوں، تنقید کرتا ہوں اور کھل کے کرتا ہوں، آپ خود سوچیے کہ کیا وجہ ہے کہ ایک صاحب کو اس معمولی سی ”فیس بکی اقلیت“ میں اہل مذہب کا چہرہ دکھائی دے رہا ہے، اور ان کی نظر میں یہی مذہب کا مستقبل ٹھہرے، یہی مذہب کے دیس نکالے کا سبب..
مثال حضرت ڈھونڈ کے لائے ہیں جناب غامدی صاحب کی کہ ان کو ملک سے باہر نکلنا پڑا. کاش ہم تجزیے میں دیانت کو اپنا شعار کر سکیں، اگر میں کہوں کہ خود اس مظلوم ”طبقے“ نے فکری بداخلاقی کی انتہا کر دی تو کیا غلط ہوگا ؟. اور شریف اہل مذہب اس کو مدت تک بےبسی سے سہتے چلے آ رہے ہیں، اور اس کے بعد جانے یکایک کیا ہوا کہ صاحب پاکستان سے نکل گئے اور الزام مذہبی طبقے پر دھر دیا. اس پاکستان میں عاصمہ جہانگیر، ماروی سرمد، فرزانہ باری جیسی خواتین اور مہدی حسن صاحب، پرویز ہود بھائے جیسے افراد جو چاہتے ہیں ہر دم کہتے ہیں اور پھر بھی امن چین سے رہ رہے ہیں.
لگے ہاتھوں میں اس ”مظلوم“ فکر کے ایک نمائندے جناب شبیر احمد کی کتاب ”صحیح بخاری کا مطالعہ“ پڑھنے کا مشورہ دوں گا. آپ کو ”اخلاقیات“ کی صحیح خبر ہو گی کہ کس کا گرا ہے اور کون ابھی بھی بچا ہے؟
حیرت ہے کہ اس ملک میں ایک طبقہ دشنام میں مقدسات تک کو معاف نہیں کرتا، اور سنجیدہ اہل مذہب اس تک کو جلتے کڑھتے برداشت کرتے ہیں، ہر دم ان کی داڑھی اور ٹوپی کا مذاق بنایا جاتا ہے، ان کے لطیفے گھڑے جاتے ہیں، ان کی معمولی سی غلطی کو بریکنگ نیوز بنادیا جاتا ہے، اور خود ہاتھی بھی ہضم کر لیا جاتا ہے، پھر بھی بد اخلاق یہی مولوی ٹھہرتے ہیں.
”قاصد“ گھبرا نہ جائے اس لیے مختصر کرتا ہوں. ایک سوال ہے کہ آپ کی قوم کی، لیڈر شپ کی، اشرافیہ کی، حکمرانوں کی، بیوروکریسی کی. اور حضور عام عوام کی اخلاقی حالت کیا ہے؟ ان کی تربیت کس نے کی؟ گالی، زنا، شراب، مجرے، دوسروں کی بہن بیٹیوں کو نچوانا، فراڈ، قوم کا پیسہ ہضم کرنا، پورے پورے الیکشن چرا لینا، ہمہ وقت جھوٹ، یہ سب کیا اچھے اخلاق ہیں؟ یہ سب کون کرتا ہے؟ محض فیشن کے طور پر مولوی کو گالی دینا اور اپنے احساس کمتری کو اس مہین پردے میں چھپانا ایک کار لا حاصل ہے، جس میں سب کچھ عیاں ہے.
بات اگر نصیحت کے واسطے کی جاتی تو عمدہ ہوتی. کہا جا سکتا تھا کہ اہل مذہب کو، اور ان کو جو مذہب کی شناخت رکھتے ہیں، مباحثے میں کبھی اخلاق کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے، لیکن یہ کیا کہ تمام اہل مذہب کو بد اخلاق قرار دے کرگردن زدنی قرار دے دینا، اور معیار بھی فیس بک کہ جہاں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ صاحب مرد بھی ہیں یا نہیں، اور خاتون کہیں زلف دراز کے ساتھ مونچھیں بھی تو نہیں رکھتیں.
اور ہاں ایک مشورہ ہے کبھی ملحدین کے صفحات پر جائیے اور آپ کو اخلاق کے نئے مفاہیم کی خبر ہو گی اور پھر آپ کو یہ ”ملا ملانے“ بہت با اخلاق دکھائی دیں گے.
تبصرہ لکھیے