ہوم << اوئے تمھیں شرم نہیں آتی - محمد انعام المصطفیٰ اعظمی

اوئے تمھیں شرم نہیں آتی - محمد انعام المصطفیٰ اعظمی

آج کل سرجیکل اسٹرائیک کا بڑا تذکرہ ہے اور ہر ایک فریق یہی چاہتا ہے کہ اپنا کیمرہ پوری طرح تیار رکھ کر حملے کی ویڈیو دنیا کے سامنے پیش کی جائے اور پھر رستم زماں کا میڈل حاصل کیا جائے..
ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ روز ایک خاتون صحافی کے ساتھ پیش آیا جو سرجیکل اسٹرائیک کے جنون میں توپیں چلانے نکلی تھیں اور صرف ... بس ایک...... زناٹے دار تھپڑ ہی تو کھایا تھا کہ سارا دن سپاہی کے داغ مٹانے کے لیے بیٹھی لیپا پوتی کرتی رہی، عین ممکن ہے کہ کسی پارلر کے تین چار وزٹ بھی شامل ہوجائیں..
ذرا ایک لمحے کے لیے تصور کیجیے کہ آپ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف ہوں، اس دوران اچانک آپ کے احاطے میں کوئی نووارد گھس کر آپ کے سامنے فاتحانہ انداز میں آکر کھڑا ہوجائے.. اور پھر بازاری لب و لہجے کی کاٹ دار زبان اور گھن گرج کے ساتھ توپیں چلانا شروع کردے.. مگر آپ اسے مسلسل نظر انداز کرتے رہیں... پھر وہ چراغ پا ہوکر کہے....
.......اوئے تمھیں شرم نہیں آتی.......
....... تمھاری ماں بہنیں نہیں ہیں.......
مگر پھر بھی آپ اپنے جذبات و ناگفتہ بہ احساسات کو صبر و تحمل کا گھونٹ پلاکر آگے بڑھ جائیں...
مگر وہ سامنے آکر کھڑا ہوجائے اور اس بار آپ کے بازو کو پکڑ کر جھنھوڑے،
گریبان پر ہاتھ ڈالے، بےعزت کرنے کی سرجیکل اسٹرائیک پر کمربستہ ہوچکا ہو تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا...؟؟؟
یقیناً جوابی حملہ ایسا ہوگا کہ عزت لینے والا خود عزت کی بھیک مانگنے لگ جائے...
یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ راہ چلتے آپ کو کوئی ایک آدمی تھپڑ مار دے اور آپ جواب میں اس کو بیس تھپڑ، چالیس گھونسے اور بارہ جوتے ماریں....
پھر وہ رو رو کرسب کو بتائے کہ میں نے تو صرف ایک تھپڑ ہی مارا تھا، اس نے تو مجھ پر تشدد کی انتہا کر دی...
بالکل سیدھا سا جواب ہے...
آپ اگر کسی کو اپنی مرضی سے ایک تھپڑ ماریں گے تو وہ اپنی مرضی سے آپ کا بیڑا بھی غرق کر سکتا ہے.
یہ تو اس اہلکار کی مہربانی تھی کہ اس قدر ذلت برداشت کرنے پر ایک ہی تھپڑ رسید کیا..
میرے حساب سے سپاہی کا یہ طمانچہ عورت کے منہ پر نہیں بےحیا میڈیا کے گھناؤنے چہرے پر ہے.
جب عورت خود کو عورت نہ سمجھے اور اپنے ہاتھوں اپنی نسوانیت کا جنازہ نکالے پر خود ہی تیار نظر آئے ،
تو پھر مرد بھی اس مرد نما عورت کو عورت نہیں سمجھتا بلکہ پھر اس کے ساتھ بھی مردوں جیسا سلوک ہی رکھتا ہے.
اگر ایف سی اہلکار کی جگہ خاتون اہلکار ہوتی اور اس خاتون رپورٹر کی جگہ مرد رپورٹر ہوتا ...
اور واقعہ اسی طریقے سے پیش آتا، پھر قصور وار کون ٹھہرتا؟؟؟
جس طرح گدھے پر کتابیں لادنے سے وہ عالم نہیں بن جاتا اسی طرح ہاتھ میں مائیک پکڑ کر کیمرہ مین ساتھ رکھنے سے کوئی صحافی بھی نہیں ہوجاتا...
جب کسی کی عزت کا جنازہ نکالو گے تو تھپڑ کیا جوتے بھی پڑیں گے..
اس لیے صحافی حضرات اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں....
رپورٹنگ کریں، عداتیں نہ لگائیں،
صحافی رہیں، جج یا تفتیشی افسر نہ بنیں،
صحافت کو معاشرتی ذمہ داری سمجھیں،
شرفاء کی عزتیں اچھالنے کا لائسنس نہیں،
لہٰذا صحافت پہلے اپنا قبلہ درست کرے،
پھر دوسروں کا گریبان چاک کرنے کی کوشش کرے.
اب تو صحافت کی یہ درگت بن چکی ہے کہ کوئی شخص کسی ایک چیتھڑے اخبار کا بھی رپورٹر ہو و جامے میں نہیں سماتا،
لہٰذا تمام چینل اپنی آنٹیوں کو پبلک مقامات پر بھیجنے سے پہلے ان کی اچھی طرح سمجھاکر اور تربیت کرکے بھیجا کریں کہ وہ عوامی مقام ہے مغرب زدہ صحافیوں کا ڈیرہ نہیں... جہاں بازاری گفتگو کی جاتی ہے...
وہاں عزت دار لوگ ہیں جو عزت کی بات سمجھتے بھی ہیں اور جواب میں عزت سے پیش آتے بھی ہیں.
وہ معاشرے کا عزت دار ایف سی اہلکار تھا تمھارے گھر کے باہر بندھا ہوا کتا نہیں.
اور عوام سے یہی کہوں گا کہ اگر آپ بےحیا معاشرے کی پروردہ اور مغربی اخلاق کے معیار پر پورا اترنے والی صحافت کی حمایت کررہے ہیں تو آپ ایسے گھناؤنے کرداروں کو مضبوط کر رہے ہیں اور انہیں مقبول کررہے ہیں.

Comments

Click here to post a comment