پاکستان طویل عرصے سے بحرانوں کا شکار ہے، اور ان کی شدت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی، اقتصادی ،سماجی اور اخلاقی بحرانوں نے پورے ملک کے عوام کو گھیرا ہوا ہے۔ سیاسی ادارے شکست و ریخت اور عدم اعتمادی کا شکار ہیں، اخلاقی بحران نے انسانی اقدار کی دھجیاں اڑادی ہیں۔ قوم ژولیدگی اور منتشر خیالی کے گرداب میں پھنس چکی ہے۔ بیرونی مداخلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ملکی استحکام اور قومی خود داری گویا داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ملک و قوم کے اہم فیصلوں کا اسکرپٹ کون لکھتا ہے، یہ پاکستانی قوم کی عقل و فہم سے ماوراء ہے۔ صوبوں کے مابین نسلی، لسانی اور باہمی نفرت کی ہوا تیز وتند ہونے لگی ہے۔ پوری قوم ذہنی ہم آہنگی اور ملی یگانگت کے جذبات سے محروم ہے۔
ہر محب وطن شہری کوفت اور ذہنی اضطراب کا مریض بنا ہوا ہے۔ اسے اپنے وطن کی دیواروں میں جگہ جگہ نمایاں شگاف نظر آ رہے ہیں۔ خود اس کا نہ آج اچھا ہے اور نہ مستقبل میں کوئی بہتری کے آثار نظر آتے ہیں۔ وطن کی قیا دت لوٹ کھسوٹ میں مبتلا ہے، حکمرانوں اور عوام کے درمیان لا تعلقی اور بے حسی کی خلیج گہری ہوتی جارہی ہے۔ عوام کی بنیادی ضرورتیں ان کی دسترس سے دور ہیں۔ پانی، بجلی، گیس کی عدم دستیابی، یوٹیلیٹی بلوں میں من مانا اضافہ، زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، اور ایسے ہی بے شمار مسائل انسانی زندگی کی راہ میں کوہِ گراں بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان کو مغربی استعمار سے آزاد ہوئے 69سال گزر گئے مگر یہ وطن آج بھی اپنی اصل شناخت کی تلاش میں ہے۔ پون صدی قبل آزادی کے حصول کے لیے دی ہوئی جان و مال اور عزتوں کی قربانیاں رائیگاں جاتی نظر آرہی ہیں۔ مفاد پرست، غدار وطن اور فکرو عمل کی گمراہیوں میں ڈوبے لوگ آج اس نظریے سے ہی انکاری ہیں جس کے تحت یہ خطہ ارض کا حصول ممکن ہوا تھا۔ آج آزادی کی اس راہ میں شہیدوں کی قربانیوں پر پانی پھیر کر، حصول پاکستان کی جا ں گسل تحریک آزادی کو ہمارے اسلاف کی غلطی اور پچھتاوے کا رنگ دیا جارہا ہے، اس سے بڑی نمک حرامی اور احسان فراموشی اور کیا ہوگی؟ جس ہندو بنیے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر ’’دیا‘‘ کی بھیک مانگی جارہی ہے۔ اس کی سفاکیت اور درندگی کی تصویر اس تحریر کے آئینہ میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے:
’’1947کے خو نی کھیل میں دس لاکھ مسلمان قتل و غارت گری کی نذر کر دیے گئے اور بقول جمیعت العلماء ہند کے جنرل سیکریٹری یہ خونیں کھیل ابھی تک جاری ہے اور مشکل ہی سے کوئی دن ایسا گزرتا ہے جب مسلمانوں کا قتل عام نہ ہوتا ہو۔ 1947ء سے 1987ء تک چالیس برس کے عرصے میں بھارت میں پینتیس ہزار ہندو مسلم فساد ہوچکے ہیں جو در اصل مسلم کش فسادات تھے اور ان میں بیشتر کو فوج، پولیس اور حکومت کی اشیر باد حاصل تھی یعنی ہر 875 دفعہ مسلمانوں کو ذبح کرنے، جلانے اور مسلم خواتین کی آبرو ریزی کا بہانہ پیدا کیا گیا۔ حکومت ہند کی وزارت داخلہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 1954ء سے 1984ء تک آٹھ ہزار پانچ سو سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں، یعنی ہر سال 283 مسلم قتل گاہیں قائم کی گئیں، یاد رہے کہ یہ اندازہ خود ہندو سرکار کا ہے۔‘‘ ( بحوالہ ماہنامہ چشم بیدار، لاہور، اگست 2016صفحہ نمبر 35)
فکر و عمل کا یہ بحران ہی اصل بحران ہے، اسی بحران کے شجر خبیثہ سے ہی وہ تمام شاخیں پھوٹی ہیں جن پر لگے ہوئے کڑوے کسیلے پھل کھانے پر قوم مجبور ہے۔حصول تعلیم کو محض روزی کمانے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔آج ہمارے ہاں تعلیم بامِ عروج پر ہے مگر تربیت و اصلاح پستی کی حدوں کو چھو رہی ہے، تعلیمی اداروںمیں کردار سازی کا قحط پڑا ہوا ہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں۔ لیکن بانی پاکستان کی رحلت کے بعد ہماری سول اور عسکری قیادت بشمول ہمارے ملک کے جاگیردار وں اور سرمایہ داروں نے اسلام کو عملاً نافذ کرنے پر توجہ ہی نہیں دی۔ اقتدار کے بھوکے لوگوں نے اسلام کو ووٹوں کے حصول کے وقت محض نعروں کی حد تک ہی محدود رکھا کیونکہ اسلام کے عملی نفاذ میں انہیں اپنی چود ھراہٹیں خطرے میں نظر آتی تھیں۔ اس لیے کہ اسلام میں عزت و توقیر اور بڑائی کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ دولت اور اقتدار کی اگر کوئی وقعت ہوتی تو خالق کائنات کا فر کو ایک قطرہ پانی بھی نہ دیتا، مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔
وہ جو کہا گیا ہے ناں کہ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ عوام جس نے آزادی کے وقت اسلام کا نعرہ لگایا تھا اس کی تڑپ اب مضمحل ہو چکی ہے۔ اب تو اسلام سے ہمارے عوام کا تعلق بھی ایک نفسیاتی وابستگی تک ہی رہ گیا ہے۔ چند مراسم عبو دیت ادا کر کے ہم مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں۔ ہر سال حج بھی کرتے ہیں، قربانیاں بھی کر تے ہیں، لیکن وہ روح اسلام جس نے استعمار سے آزادی کا جنون اور ولولہ جسم و جاں میں دوڑا دیا تھا، وہ اب کہاں ہے؟ دل کو چھلنی کر دینے والا المیہ تو یہ ہے کہ اب تو ’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ بھی کچھ لوگوں کی سماعت پر قول ثقیل بن رہا ہے۔ یا للعجب!
اپنی شناخت کا مسئلہ قوموں کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اور اس سے ترجیحات کا تعین ہوتا ہے۔ جب ترجیحات طے ہوجاتی ہیں تو اہداف کا تصور واضح ہوتا ہے اور یہی تصور انسان کی ہر جدو جہد کی صحیح سمت مقرر کر دیتا ہے۔ اور جب سمت کا راست تعین ذہن کے کینوس پر نقش ہوجائے تو اس کی عملی جدوجہد کے لیے قوت و استحکام انسان کی پشت پناہی کر تے ہیں۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم 69 برسوں میں اپنے منزل کا تعین ہی نہیں کر پائے ۔ ہمارے بحرانوں کے تسلسل کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہےگویا ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں! بحران خواہ اقتصادی ہو، سیاسی ہو، اخلاقی اور سماجی ہو، ان سب کا منبع و محور اپنی اصل شناخت کے تصور کا فقدان ہے، جب ہمیں یہ علم ہی نہیں کہ ہم کون ہیں، کس لیے دنیا میں ہمیں بھیجا گیا ہے، ہمارا اصل تعارف کیا ہے اور یہ ملک ہم نے کیوں حاصل کیاہے؟ تو ہم زندگی کے تمام معاملات کو کس سانچے میں ڈھال کر کوئی لائحہ عمل ترتیب دے سکیں گے؟ ہمیں قدرت نے سمیع و بصیر اسی لیے تو بنایا ہے کہ ہم اپنے سود و زیاں کو پہچان سکیں۔ ہر سانپ زہریلا نہیں ہوتا مگر ہم اس خوف کے مارے کسی سانپ کو بھی نہیں چھوتے کہ مبادا یہ بھی زہریلا ہو۔ جب ہم اللہ کی ایک مخلوق سے اس درجہ خوف زدہ رہتے ہیں تو یہ خوف ہم اپنے اندر کیوں محسوس نہیں کرتے کہ اسی اللہ سے ہم نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہمیں ایک علیحدہ سرزمین عطا کر دے، ہم وہاں تیرا الہامی نظام اور تیری شریعت عملاً نافذ و قائم کر نے کی جدو جہد کریں گے۔ اور اپنی شناخت کو کبھی ذہنوں سے مٹنے نہیں دیں گے۔ لہٰذا جس دن ہم نے بحیثیت قوم خود کو اس راہ پر ڈال دیا، اسی دن سے ہمارے سب بحران ختم ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اور ہماری ایک منفرد پہچان منظر عام پر آجائے۔
تبصرہ لکھیے