پچھلے تین چار دنوں میں کئی جگہوں سے یہ بات کہی گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تقویت آتی جا رہی ہے کہ عمران خان کے دو نومبر کے دھرنے میں حافظ سعید صاحب خود تو شریک نہیں ہوں گے، مگر ان کی افرادی قوت تحریک انصاف کے ساتھ شامل ہوگی۔ یہ بات تواتر سے کہی جا رہی ہے، حالانکہ حافظ سعید نے دو دن پہلے ایک انٹرویو میں وضاحت سے کہا کہ یہ بات بالکل غلط اور غیر منطقی ہے۔ حافظ سعید کا کہنا تھا کہ اس وقت جبکہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک زوروں پر ہے، اس وقت پاکستان سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا اور پھر ایسی صورت میں میڈیا اور عوام سب کی توجہ کشمیر سے ہٹ کر دھرنے کی طرف ہوجائے گی۔ اس کے باوجود پروپیگنڈا جاری ہے، اب لال مسجد والے المشہور مولوی عبدالعزیز کی حمایت کی بات بھی ہو رہی ہے، مولانا سمیع الحق کی حمایت کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے، جامعہ حقانیہ کی کے پی کے حکومت کی جانب سے دی گئی امداد کا واوین یعی کاماز میں ذکر کرنے کے بعد۔
سچ تو یہ ہے کہ اسے پروپیگنڈے کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تین چار دلائل ایسے ہیں جن کی بنا پر حافظ سعید اور جماعۃ الدعوہ کا اسلام آباد دھرنے میں شامل ہونا یا تحریک انصاف کا انہیں قبول کرنا ممکن نہیں۔
1۔ حافظ صاحب کے معتقدین کوان کے مخصوص حلیوں کی وجہ سے پہچاننا کبھی مشکل نہیں رہا، اس لیے جو بھی ان کی حمایت لینا چاہتا ہے، اسے یہ معلوم ہے کہ یہ بات چھپی نہں رہ سکتی۔
2۔ حافظ صاحب آج کل امریکہ اور مغربی دنیا کی نظروں میں جس قدر معتوب ہیں، کوئی بھی پاکستانی سیاسی جماعت ان کی حمایت کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ کون اپنے اوپر یہ ٹھپہ لگوانا چاہے گا؟ اس میں حاصل وصول کچھ نہیں ہونا اور نققصانات ایک سو ایک ہیں۔
3۔ حافظ صاحب خود بھی یہ خودکشی والا قدم نہیں اٹھا سکتے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ نواز شریف صاحب ان کی تنظیم کی جڑیں کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔ نواز حکومت کے خلاف کسی احتجاجی مظاہرے میں شامل ہونا تو کسی بھینسے کو سرخ کپڑا دکھانے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ وہ اپنے لیے نئی مصیبت کیوں کھڑی کریں گے؟ وہ آج کل پہلے ہی خاصا لوپروفائل جا چکے ہیں، سیاسی منظر میں آنے کی غلطی کبھی مول نہیں لیں گے۔
4۔ رہی اسٹیبلشمنٹ تو وہاں بھی بے وقوف لوگ نہیں بیٹھے ہوئے ہیں، حافظ سعید صاحب اپنی مرضی سے بھی کسی تحریک مین شامل ہوں گے تو الزام اسٹیبلشمنٹ پر آئے گا، اس لئے اسٹیبلشمنٹ ایسا کچا کام کبھی نہیں کرتی، جس کے بعد ان کے حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔
5۔ عمران خان کا عسکریت پسندی کے حوالے سے نرم گوشہ قطعی نہیں ہے۔ وہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا حامی ضرور رہا ہے، مگر اس کی وجہ امریکہ ہے۔ عمران خان کے مطابق اینٹی امریکی جذبات کی وجہ سے جو لوگ پاکستانی ریاست کے خلاف ہوئے، ان کے خلاف آپریشن سے پہلے مذاکرات کر کے انھیں جس قدر الگ کیا جا سکتا ہے، کیا جائے۔ تاہم عسکریت پسندانہ تنظیموں کے حوالے سے عمران خان بھارتی صحافی کرن تھاپر کے انٹرویو میں پچھلے عام انتخابات سے پہلے واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ اگر وہ الیکشن جیتا تو جماعت الدعوہ وغیرہ پر پابندی لگا دے گا۔ ویسے بھی عمران خان کے جلسوں کا ماحول، ناچ گانے وغیرہ یہ حافظ صاحب کے سخت گیر قدامت پسندانہ ذہن رکھنے والے حامیوں کو بالکل ہی گوارا نہیں ہو سکتا۔
کم وبیش یہی پوزیشن مولانا لدھیانوی کی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے، امریکہ کے خلاف مظاہرے کرنے کے لیے اکٹھے ہو کر عوامی جلسے جلوس نکالنا ایک الگ بات ہے، ان ایشوز پر ان کے حامی واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ عمران خان کی حمایت میں تحریک انصاف کے رنگا رنگ جلسوں میں شرکت کرنا یکسر دوسرا مسئلہ ہے، جس کی حمایت کرنا ان میں سے کسی کے لیے آسان نہیں ہے۔
رہی بات مولوی عبدالعزیز کی تو ان کے پاس افرادی قوت بچی کہاں ہے؟ وہ اپنا بیان البتہ داغ سکتے ہیں، مگر اب انہیں کوئی سیریس نہیں لیتا۔ نواز شریف حکومت کے وہ مخالف ہیں تو ایسے میں نواز شریف کے خلاف اٹھنے والا ہر شخص ایسے لوگوں کو پسند ہوگا، مگر یہ ایک اور بات ہے۔
ہاں! مولانا سمعیع الحق والا معاملہ الگ ہے۔ وہ ایک باقاعدہ سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ خیبر پختون خوا میں اگلا سیاسی اتحاد تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور سمیع الحق صاحب میں ہوسکتا ہے۔ یہ کسی حد تک قابل عمل لگتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے سمیع الحق صاحب کو ایک سائیڈ سے لگا رکھا ہے، ان کے پاس فطری آپشن تحریک انصاف ہی ہے۔ تو ان کی حمایت اگر شامل ہو تو اس کی کوئی منطق سمجھ آتی ہے۔
عوامی تحریک بھی اگر اس میں شامل ہوتی ہے تو اس کی وجوہات بھی واضح ہیں۔ طاہر القادری صاحب کی موجودہ سیاست میں کوئی جگہ نہیں بنتی، وہ صرف احتجاجی تحریک میں شامل ہو کر ہی اپنی کچھ پوزیشن بنا سکتے ہیں۔ ورنہ تو وہ ایک بڑا سا صفر ہی لگتے ہیں، ہر ایک کو یہ بات معلوم ہے۔
حافظ سعید کے ساتھیوں کے تحریک انصاف کے دھرنے میں شامل ہونے والی بات تو صرف عمران خان کو سیاسی نقصان پہنچانے کا حربہ نظر آ رہا ہے کہ اسے متنازع بنایا جائے اور عالمی سطح پر بھی اس کے خلاف سخت ناگوار میسج جائے۔ اس کے سوا مجھے تو اور کچھ نظر نہیں آ رہا۔ مسلم لیگ ن کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اس سے اور اس کے حامیوں سے کسی بھی طرح کے جھوٹے پروپیگنڈے کی توقع رکھی جا سکتی ہے.
تبصرہ لکھیے