ہوم << بند گلی کے مکین - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

بند گلی کے مکین - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

عاصم اللہ بخش مقام .... بند گلی.
مکین....
حکومت /مسلم لیگ (ن)
پاکستان تحریک انصاف
اسٹیبلشمنٹ
یہاں تک کیسے پہنچے ..
مسلم لیگ ن:
1. پانامہ پیپرز کے ہنگام وقت گزاری کو شفا پر محمول کر لیا، یہ اندازہ ہی نہیں کر سکے کہ مخالف کا عزم کتنا قوی ہے. بجائے اس کے کہ اتنا وقت گزر جانے پر یہ معاملہ بھلا دیا جاتا، اب یہ ایک پریشر ککر بن گیا ہے. ہر گزرتا دن اس پریشر ککر کے پھٹ جانے کے امکانات میں اضافہ کر رہا ہے.
2. ڈان نیوز والے واقعہ نے فوج کے ساتھ بھی معاملات خراب کر دیے. بار بار اس بات کا اعادہ کہ حافظ سعید یا مولانا سمیع الحق کے جماعتی کارکن تحریک انصاف کے دھرنا میں شامل ہوں گے فوج کے ساتھ معاملات کو بگاڑ سکتا ہے کیونکہ بظاہر یہ سب دہراتے رہنے کا مقصد یہی ہے کہ اس کے پیچھے فوج کا ہاتھ تلاش کیا جائے.
تحریک انصاف:
1. حکومت کو قبل از وقت ہٹانے کا ایک اور موقع. خانصاحب کے پچھلے اور آئندہ دھرنے میں ایشو مختلف ہو سکتا ہے لیکن تقاضا ایک ہی ہے، نواز شریف مستعفی (یا برطرف) ہو جائیں.
2. اسے اپنی سیاسی زندگی کا اہم ترین پوائنٹ قرار دے دیا. یعنی Stakes کو انتہائی درجہ تک بلند کر دیا. اب پیچھے ہٹنا سیاسی موت کے مترادف ہے.
3. اسٹبلیشمنٹ :
1. بظاہر یہ کہ وزیراعظم کو ذرا اور ٹائیٹ کیا جائے.
2. بالخصوص سی پیک کے حوالہ سے یہ باور کروانا کہ اس ملک میں دراصل تسلسل کی علامت وہ ہیں، سیاسی انتظام نہیں.
اندازوں کی ممکنہ غلطی.
ن لیگ:
کچھ وقت عدالت سے پہلے ضائع کردیا اب باقی ڈیڑھ سال سپریم کورٹ کی پیشیوں میں نکل جائے گا.
عمران خان پر کرپشن کے جوابی الزامات لگا کر اپنے لیے سپیس لی جا سکتی ہے، بہت بڑی غلط فہمی ہے. خانصاحب نے کچھ غلط کیا ہے تو ان. پر گفت کی جائے، لیکن اس کو حکومت اپنے پر لگے الزام کے دفاع کے لیے کیونکر استعمال کر سکتی ہے.
تحریک انصاف:
نواز شریف صاحب/حکومت کی برطرفی سے پنجاب میں ان کے لیے راستہ کھل جائے گا. چونکہ پنجاب میں زیادہ سیٹیں مرکزی حکومت کا فیصلہ کرتی ہیں اس لیے لامحالہ تحریک انصاف کے لیے "سم سم" کا دروازہ کھل جائے گا. اگر سسٹم ٹوٹا تو اگلے ہی دن دوبارہ روبہ عمل نہیں ہو جائے گا. ماضی پر نظر ڈال کر تحریک انصاف دیکھ سکتی ہے کہ 2018 زیادہ قریب ہے یا 2026.
اسٹیبلشمنٹ:
وزیراعظم نواز شریف کے رہنے یا نہ رہنے سے سی پیک پر کچھ اثر نہیں پڑے گا. اگر یہ بات سچ ہوتی کہ محض فوج کے دبدبے سے کام نکلنے لگتے ہیں تو کالاباغ ڈیم کب کا بن چکا ہوتا.
چین کی یہ پلاننگ ہے کہ نجی شعبہ کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر متوجہ کیا جائے. اگر اسلام آباد میں کوئی حادثاتی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے تو اس بات کو بہت زک پہنچے گی کیونکہ سیاسی استحکام کا سب تاثر جاتا رہے گا. یہ ایک بڑا نقصان ہو گا.
عمران خان صاحب اس دفعہ اپنے آزادانہ فیصلے کرنے کی راہ پر جا کر سب کو سر پرائز دے سکتے ہیں.
مسئلہ کا حل
1. باعزت :
سپریم کورٹ اس بات کو یقینی بنائے کہ انصاف کے تقاضے ہر طرح سے مکمل کیے جائیں. حکومت یہ یقینی بنائے کہ اس کی جانب سے تاخیری اور انتظامی حربے استعمال نہ ہوں. تحریک انصاف بھی اپنا احتجاج کچھ مؤخر کرے اور سپریم کورٹ سے استدعا کرے کہ سماعت کو جلد از جلد مکمل کیا جائے.
2. خجالت آمیز:
چین کردار ادا کرے اور سب پارٹیوں کو سمجھائے بھی اور ان کا گارنٹر بھی بنے کیونکہ وہ سی پیک کا بنیادی اسٹیک ہولڈر ہے. لیکن یہ بحیثیت قوم ہم سب کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہو گا.
02 نومبر کے ممکنہ سائیڈ ایفیکٹس.
1. دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ.
2. بھارت کی جانب سے سچ میں سرجیکل اسٹرائک یا دیگر کارروائی.
اس میں اہم بات یہ ہوگی کہ ایسی کسی واقعہ کے بعد ہم نے آپس میں ہی لڑنا اور الزام تراشیاں کرنا ہے یا بھارت کو ایک متحد جواب دینے کی صلاحیت کا اظہار کرنا ہے.
اختتامی بات.
ہمیں یہ سیکھنا ہو گا کہ کس درجہ کا احتجاج آخری درجہ ہو گا. اس کے بات ہر دو اطراف کو سنجیدہ اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ بات اس سے آگے نہ بڑھے.
بات اب اسلام آباد بند کیے جانے تک تو آ گئی ہے جبکہ ایسا تو کسی جنگ کے دوران بھی نہیں ہؤا. اس سے آگے کیا ہوگا، یہ سوچنا ہی محال ہے. پھر بھی سوچنا چاہیں تو اٹھارہ اور انیسویں صدی کے دہلی کو دیکھ لیجیے.