کچھ روز قبل کی بات ہے کہ جب میں اپنے ایک عزیز کے گھر تھا ... ہم سب ساتھ
بیٹھ کر ہی کھانا کھا رہے تھے ..چونکہ ان کے بچے بھی ہمارے ساتھ ہی کھانے کی
میز پر موجود تھے لہذا ہمارے درمیان بچوں کی تعلیم کے حوالہ سے گفتگو جاری تھی
... والدین بڑے فخر کے ساتھ ایک اعلی اسکول کا حوالہ دے رہے تھے .... کہ ہمارے
بچے فلاں نامور اسکول میں زیر تعلیم ہیں .. ابھی گفتگو اختتام کو نہ پہنچی تھی
... . کیوں کہ میں دروازہ کے بالکل سامنے تھا اور ہم ابھی کھانا تناول ہی فرما
رہے تھے کہ مجھے اس گھر کے متصل دوسرے گھر کے دروازے پر قاری صاحب دستک دیتے
نظر آے ..... جو بچوں کو قرآن پڑھانے تشریف لاتے تھے ... قاری صاحب کو دیکھ
کر میرے ذہن میں ایک سوال آیا ... کیوں کہ گھر والوں سے بے تکلفی تھی اس لیے
بلا جھیجک پوچھ لیا ... سوال یہ تھا کہ آپ کے بچے ناظرہ قرآن پڑھنے مسجد کس
وقت جاتے ہیں ؟
جواب ملا آج کل اسکول کی تعلیم کا بوجھ زیادہ ہے .. ٹیوشن بھی ہے .. اس لیے
وقت کی قلت کی وجہ سے نہیں جا سکتے .... میں نے جواب میں مشورہ کے طور پر کہ
دیا کہ ساتھ والے گھر میں قاری صاحب بچوں کو پڑھانے تشریف لے آتے ہیں ...ان کے
بچے بھی تو آخر اسکول ، ٹیوشن وغیرہ پڑھتے ہیں ... آپ بھی انہی قاری صاحب کو
یہ ذمہ داری سونپ دیں ...
یہ سنتے ہی بچوں کی والدہ آگے ہوئی اور کہنے لگی یہ قاری صاحب ایک بچے کے
ماہانہ پورے ہزار روپے لیتے ہیں . اور ہمارے تین بچوں کا پورا تین ہزار بنتا
ہے ... اتنا خرچہ ہم کیسے برداشت کریں .. میں نے کہا اچھا ؟؟؟ ابھی ابھی آپ
بچوں کے اسکول کی کچھ بات کر رہی تھی ... وہاں آپ ان بچوں کی ماہانہ کتنی فیس
ادا کرتی ہیں ؟؟؟
کہنے لگے سب سے چھوٹے کی 2 ہزار ... درمیان والے کی 3 ہزار ہے .. اور بڑے بیٹے
کی 5 ہزار فیس ہے .... اور میں نے کہا ٹیوشن کی کتنی فیس ماہانہ ادا کر رہی
ہیں ؟
جواب ملا 6 ہزار ہے سب کی ..
میں نے یہ جواب سنا تو بالکل ساکت ہو کر رہ گیا ...... اس حماقت کا کوئی جواب
مجھ سے نہ بن پڑا اور بس میں عالم تحیر میں ڈوبتا چلا گیا ......
تبصرہ لکھیے