وہ جیسے ہر وقت لوگوں کی نظروں کے حصار میں ہوتی تھی۔ ہر جگہ، سٹاپ پر، کام پر، محلے میں جیسے لوگوں کی نظریں اکثر اسے اپنے وجود سے آرپار ہوتی محسوس ہوتی تھیں۔اسے اپنی غلطی بہت اچھی طرح معلوم تھی لیکن وہ غلطی ایسی تھی جس میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ایک سال پہلے اس کے میاں نے دوسری بیوی کے کہنے پر اسے طلاق دے دی تھی۔ ماں باپ غریب تھے، طلاق یافتہ بیٹی کا بوجھ کیسے اٹھاتے؟ لہذا اسے نوکری ڈھونڈنی پڑی۔ اور وہ گھر سے لے کے جاب تک، جاب پر اور پھر واپسی کے راستے میں خود کو جیسے چاروں طرف سے نظروں میں گھرا پاتی۔ کہیں ترس کھاتی نظریں تو کہیں ہوس بھری نگاہیں۔ کہیں استہزا اڑاتی تو کہیں دعوت دیتی آنکھیں، کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا جب وہ گھر آ کر روتی نہ ہو۔
آفس میں اکثر لوگ اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے مگر وہ نظرانداز کر دیتی تھی ۔ سب کو معلوم تھا کہ اسے طلاق ہو چکی ہے۔ ثانیہ کے آفس میں ایک نئے کولیگ نے کچھ عرصہ پہلے کام شروع کیا تھا، اس کا نام احمد تھا۔ وہ اس سے بہت اچھی طرح پیش آتا، کبھی کوئی غلط بات نہیں کہی۔ (شاید اسے طلاق کے بارے میں معلوم نہیں تھا) کئی بار لنچ کے وقت وہ اس کے میز پر آ جاتا کہ مل کر کھاتے ہیں اور ساتھ ميں دوسرے کولیگز کو بھی آواز دے لیتے۔ وہ دل سے اس کی عزت کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ وہ غیرارادی طور پر اس کی طرف مائل ہو گئی، اسے اس سے بات کرنا اچھا لگتا، اس سارے عرصے میں وہ واحد شخصیت تھی جواس سے اچھی طرح پیش آتی تھی۔
ایک دن اس نے اسے باتوں باتوں میں اپنی طلاق کے بارے میں بتا دیا۔ اس کے بعد اس کا رویہ مزید اچھا ہو گیا، بلکہ اب وہ اس کو کبھی کبھی تحائف بھی دینے لگا اور ایک دو بار گھر چھوڑنے کی پیشکش بھی کی جو اس نے سہولت سے رد کردی۔ وہ دنیا کو خود پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔ وہ ان کے ساتھ آفس سے کبھی باہر نہیں گئی مبادا لوگ باتیں بنائیں مگر اب اسے لگ رہا تھا کہ آفس میں چہ مگوئیاں شروع ہو چکی ہیں۔ اسے دیکھتے ہی کوئی کھنکارنے لگ جاتا، کسی کو سر کھجانا یاد آ جاتا یا کوئی گنگنانے لگتا۔ اسے یہ سب بہت عجیب لگ رہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ سب اچانک اس طرح کیوں کرنے لگے ہیں۔
ایک شام احمد نے اسے کافی پینے کی دعوت دی، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ساتھ چل پڑی اور پھر یہ اکثر ہونے لگا، ایک بار کے بڑھے قدم واپس موڑنے مشکل ہوتے ہیں۔ اسے بھی اتنے عرصے بعد کوئی شخص اچھا لگا تھا۔ دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں بدل گئے۔ ان کی دوستی بڑھتی گئی۔ ایک دن ریستوران میں ڈنر کرتے ہوئے ثانیہ نے احمد سے کہا 'ہم کب تک اس طرح ملتے رہیں گے، اب ہماری دوستی کو اتنا عرصہ ہو گیا، ہم شادی کر لیتے ہیں، احمد کو تو جیسے کرنٹ لگ گیا، کیا کہا؟ شادی؟؟؟ شادی کر لوں، وہ بھی تم سے؟ آئینے میں شکل دیکھی ہے۔ تم ایک طلاق یافتہ عورت ہو، تم سے دوستی کی جا سکتی ہے، شادی نہیں، وہ تو اور بھی معلوم نہیں کیا کہتا چلا گیا مگر ثانیہ سن کہاں رہی تھی؟ اس کو تو جیسے کسی نے بھرے بازار میں رسوا کر دیا تھا، وہ تو اپنی نظروں میں گر گئی تھی۔ اشکوں کا دریا رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ پتا نہیں وہ کیسے گھر پہنچی، لیکن آج اس کی ایک اور ناکردہ غلطی کی سزا اسے مل گئی تھی۔ اس نے تو عزت کی زندگی گزارنے کا سوچا اور اسے وہ کچھ سننا پڑ گیا تھا، جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
يہ صرف ایک اس ثانیہ کا المیہ ہی نہیں ہے۔ اس طرح کی بےشمار ثانیہ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جن کو کسی بھی وجہ سے طلاق ہو گئی ہے۔ چاہے اس میں ان کی غلطی تھی یا نہیں تھی ۔ طلاق ہو جانے کے بعد ہمارا معاشرہ مرد کے لیے اتنا ظالم نہیں بنتا جتنا عورت کے لیے بن جاتا ہے۔ اس کے لیے آزادی سے جینا مشکل کر دیا جاتا ہے۔ خاندان ہو یا باہر ہر جگہ اس پر نظر رکھی جاتی ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایسی عورت کو صدق دل سے سہارا دینا چاہیں مگر بدقسمتی سے اکثریت وہ لوگ ہوتے ہیں جو صرف ٹائم پاس کرنے کے متمنی ہوتے ہیں، رشتہ جوڑتے وقت انہیں کئی گھریلو مجبوریاں یاد آ جاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے کی ناانصافی دیکھیں۔ مرد کو طلاق کے بعد بھی والدین اپنی خوبصورت، کم عمر یا کنواری لڑکی کا رشتہ دے دیتے ہیں مگر ایک طلاق یافتہ خاتون یا لڑکی کو تو جیسے چھوت کی بیماری لگ جاتی ہے۔ طلاق کے ساتھ ہی خوبصورت، کم عمر اور کنوارا آدمی تو اس کی قسمت سے کوسوں دور ہوجاتا ہے۔ اگر اس کی قسمت جڑتی ہے تو کسی رنڈوے سے یا کسی بوڑھے سے جس کے پہلے ہی 4 بچے ہوں گے یا پھر کسی ایسے شخص سے جس نے ساری جوانی گھر والوں کو سیٹ کرنے میں گزار دی اور اب بڑھاپے میں اسے آرام کے لیے ایک عدد خدمت گزار کی تلاش تھی جو اسے بیوی کی شکل میں چاہیے۔
والدین بےچارے بھی کیا کریں، جب ان کی طلاق یافتہ بیٹی کے لیے ایسے ہی رشتے آئیں گے تو انہوں نے اپنا فرض تو ادا کرنا ہی ہے، وہ بھی مجبور ہوتے ہیں کہ ایسے رشتوں کو قبول کر لیں۔ لڑکی کی اپنی مرضی تو جیسے دفن ہو جاتی ہے۔ وہ طلاق کے بعد کسی کو پسند کرنے کی ہمت بھی نہیں رکھتی، اگر وہ ایسی جرات کر بھی لے تو لڑکے کے گھر والے ایسی لڑکی کو بہو بنانے پر راضی نہیں ہوتے۔
طلاق کا عموما الزام عورت پر ہی آتا ہے۔ ہم یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ اس طلاق کے پیچھے اس کی کوئی غلطی نہیں ہوگی۔ چاہے مرد کو کوئی دوسری عورت پسند آ گئی ہو یا دوسری بیوی کے کہنے پر پہلی کو طلاق دے دی جائے مگر قصور عورت کا ہی گنا جاتا ہے کہ اسی نے کچھ کیا ہوگا، اسی نے کچھ کہا ہوگا۔ تصویر کے دونوں رخ بہت کم لوگ دیکھ پاتے ہیں۔
کب بدلے گی ہماری سوچ ؟ کب ہم کھلی آنکھوں سے حقیقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں گے؟
کب ہم ایک طلاق یافتہ عورت کو وہ مقام دے سکیں گے جس سے اسے اپنے فالتو اور ناکارہ ہونے کا احساس ختم ہو جائے؟
کب بدلے گی لڑکوں کے والدین کی سوچ کہ طلاق یافتہ لڑکی کو بہو بنانا کوئی گناہ نہیں ہے اور کب بدلے گی مردوں کی سوچ کہ طلاق یافتہ عورت کھلونا نہیں ہے، اسے بھی معاشرے ميں جینے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا ایک طلاق شدہ مرد کو۔ ؟ کب آخر کب؟
تبصرہ لکھیے