ہوم << عدالتی نظام پراعتماد، آئیے شیر سے سیکھتے ہیں - امتیاز خان

عدالتی نظام پراعتماد، آئیے شیر سے سیکھتے ہیں - امتیاز خان

ہمارے وزیر اعظم جناب میاں محمدنوازشریف نے شکوہ کیا ہے کہ ان سے استعفی، رسیدیں،حساب اور جواب مانگنے والوں کو پاکستان کے عدالتی نظام پر اعتماد نہیں۔ انہیں چاہیے کہ اس نظام پر اعتماد کریں اور عدالتی فیصلے کا انتظار کریں۔
پانامہ لیکس کے حوالے سے جاری شور شرابے اور اب اسلام آباد بند کرنے کی فائنل دھمکی کے تناظر میں میاں صاحب نے اپنے خیال میں اچھی نصیحت بھی کی ہے اور گرمی کو ٹھنڈا کرنے کی ایک کوشش بھی لیکن یہ نصیحت ضرور اثرانداز ہوتی اگر ”شیر“ کا عدالتوں پر اعتماد کے حوالے سے اپنا ریکارڈ یا تو اچھا ہوتا یا کم از کم قوم کے سامنے نہ ہوتا۔ موجودہ حکومت کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ عدالتی نظام پر ”اعتماد“ کے بانی ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
چیف جسٹس سجاد علی شاہ کا واقعہ، سپریم کورٹ پر حملہ، جسٹس عبدالقیوم کیس کی ریکارڈ شدہ کالیں اور کتنے ہی ایسے واقعات پاکستان کی تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش ہیں جو چلا چلا کر حکومت کے ”اعتماد“ کی گواہی دے رہے ہیں۔اسی طرح ”شیر“ کےگذشتہ دور حکومت کے بدنام زمانہ ماورائے عدالت قتل، جعلی پولیس مقابلے اور موجودہ دور میں سانحہ ماڈل ٹائون بھی اسی اعتماد کے کھلے ثبوت ہیں۔ جبکہ اس وقت بھی یہ حکومت اپنے ماضی کی طرح ”عدالتی“ نظام پر کس قدر مکمل اور غیر متزلزل اعتماد رکھتی ہے، اس کا سب سے بہترین مظہر مظفر گڑھ سے شیخوپورہ تک پنجاب میں مسلسل ہو رہے وہ ”مبینہ“ پولیس مقابلے ہیں جن میں ایک ہی ترتیب کے ساتھ چار سے سات دہشت گرد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک اور ایک یا دو بلا ناغہ فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ عدالتی نظام پر مکمل یقین کے زیر سایہ ہونے والے ان مقابلوں میں ایک اور مستقل معمول پر دو روز قبل بی بی سی کی رپورٹ میں بھی حیرانی کا اظہار کیا گیا کہ ان میں آج تک سکیورٹی فورسز کا کوئی اہلکار نہیں مارا گیا۔ بی بی سی نے صرف اس حسن اتفاق پر حیرانی کا اظہار کیا حالانکہ ان میں حیران کن امور کئی اور بھی ہیں۔ مثلا
ان میں اب تک کوئی”دہشت گرد“ پولیس کی گولی سے ہلاک نہیں ہوا بلکہ سب اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے ہیں۔
ان مقابلوں کے علاوہ جب بھی ان ”دہشت گردوں“ نے خود کہیں حملہ کیا، ان کا کوئی ساتھی ان کی اپنی فائرنگ سے ہلاک نہیں ہوا۔
ان مقابلوں کے علاوہ وہ جب بھی حملہ آور ہوئے، سکیورٹی فورسز کا بھی کافی جانی نقصان ہوا۔
ان مقابلوں میں ہمیشہ صرف وہی دہشت گرد ہلاک ہوئے، جو پہلے سے گرفتار تھے، باہر سے حملہ کرنا کوئی نہیں مارا گیا۔
حسن اتفاق سے ان تمام مقابلوں کی سٹوری بالکل ایک جیسی رہی، کہیں سرمو بھی فرق نہیں آیا۔
ان کے علاوہ حکومت نے اب تک پیش آمدہ جن معاملات میں عدالتی نظام پر اعتماد کا بھرپور ثبوت دیا، مرتب کیا جائے تو ایک پوری کتاب بن جائے گی۔
ایسے میں میاں صاحب کا یہ بیان ایک اچھے لطیفے کے طور پر تو قبول کیا جاسکتا ہے اور اس پر دل کھول کر ہنسا جاسکتا ہے، مگر اسے ایک اچھی نصیحت کے طور پر ہرگز نہیں لیا جاسکتا۔

Comments

Click here to post a comment