اللہ کے نبی – صلى اللہ عليہ وسلم – کا فرمان ہے کہ:
[pullquote]ان اللہ يبعث لہذہ الامۃ على رأس كل مائۃ سنۃ من يجدد لہا دينھا (سنن أبي داود، حكم الشيخ الالباني عليہ بالصحۃ)[/pullquote]
”اللہ تعالی ہر صدی کے سرے پر اس امت کے لئے کسی ایسے (یا ایسوں) کو اٹھاتا ہے جو اس کے لئے اس کے دین کی تجدید کرتا ہے (یا کرتے ہیں)“
اسی حدیث کی وجہ سے لفظ "تجدید" مسلمانوں میں، خاص طور سے علمی ودینی حلقوں میں، بہت مقبول ہو گیا اور اسی کے ساتھ ایک لفظ "تجدد" بھی۔ مندرجہ ذیل سطروں میں ہم دونوں لفظوں کو عربی زبان اور حدیث میں اس کے استعمال کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کریں گے۔
لفظ تجدید دراصل ”جد ۃ“ دال کی تشدید کے ساتھ ، سے بنا ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کا تروتازہ اور نیا ہو جانا اور اپنی پہلی حالت کو لوٹ جانا، اس کے مقابلے میں ”خلق“ آتا ہے جس کے معنے ہیں کسی چیز کا بوسیدہ ہو جانا، چناچہ ”الصحاح“ میں اس لفظ کے تحت آتا ہے:
[pullquote]جد الشئ يجد بالكسر جدۃ: صار جديدا، وھو نقيض الخلق[/pullquote]
جد کے معنے ہیں کسی چیز کا نیا ہو جانا اور اس کا متضاد ہے بوسیدا ہونا۔
اسی سے لفظ ”تجدید“ بنا جس کے معنی ہیں کسی چیز کو نیا کر دینا اور اسے اس کی سابقہ حالت پر لے جانا، اس حالت پر جس پر وہ اپنی ابتدا میں تھی اسی سے حدیث پاک میں آیا ہے کہ ہر صدی کے سرے پر اللہ تعالی مجدد کو اٹھاتے ہیں جو لوگوں کی زندگیوں اور افکار میں دین کے حوالے سے جو بوسیدگی آ جاتی ہے، اسے ختم کر کے اپنی پہلی حالت پر لے آتا ہے۔
اسی سے لفظ ”تجدد“ بنا جس کے معنے ہیں کسی چیز کا نیا ہو جانا چناچہ ”الصحاح“ میں آتا ہے:
[pullquote]وتجدد الشئ: صار جديدا[/pullquote]
ترجمہ: تجدد کے معنے ہیں کسی چیز کا نیا ہو جانا۔
البتہ لفظ ”تجدد“ میں تکلف کی جھلک پائی جاتی ہے اور عربی زبان میں ایک اصل سے الفاظ بنانے کے حوالے سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب اسے اس شکل پر، جس شکل پر تجدد ہے، لایا جاتا ہے تو اس میں تکلف کے معنے پائے جاتے ہیں اور شاید یہی بات ہے کہ ”تجدید“ کے مقابلے میں جب کسی ایسی کاوش کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو امت مسلمہ میں کسی تبدیلی کی خواہاں ہو لیکن صحیح طریقے سے ہٹی ہوئی ہو، تو اس کے لئے لفظ ”تجدد“ استعمال کیا جاتا ہے کہ کوئی صاحب اپنی تئیں ”تجدید“ کا کام کر رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ تجدید نہیں۔
اس حوالے سے بعض تحریروں میں یہ بات دیکھنے کو ملی کہ:
”تجدد“ کا مطلب اسلام کو نیا بنانا ہے اور اسلام کو نیا بنانے کے حوالے سے اللہ کے نبی – صلى اللہ عليہ وسلم - نے فرمایا کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے چنانچہ کسی صاحب کو متجدد کہنا دراصل اس کی نیت اور ارادہ پر حملہ ہے. اس بات پر غور کرنے سے پہلے ایک اور حدیث دیکھیے جس کی طرف اس بات میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ اللہ کے نبی – صلى اللہ عليہ وسلم –کا فرمان بخاری و مسلم میں ہے:
[pullquote]من أحدث في أمرنا ھذا ما ليس منہ، فھو رد (صحيح البخاري، كتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود)[/pullquote]
”جس نے ہمارے اس دین میں ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہ ہو، تو وہ مسترد ہے اور در خور اعتنا نہیں۔“
اس حدیث میں لفظ ”احداث“ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کو از سر نو پیدا کرنا، چناچہ اس لفظ کے مادے اور اصل ”حدوث“ کے بارے میں ”الصحاح“ کے مصنف کا کہنا ہے:
[pullquote]والحدوث: كون شئ لم يكن[/pullquote]
حدوث کے معنی ہیں کہ ایک چیز کا وجود میں آنا بعد از آن کہ وہ موجود نہ ہو۔
نیز یہ حدیث خود بھی اسی معنے کی وضاحت کر رہی ہے کہ دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کرنا جو اس میں پہلے نہ ہو۔
اب اس بات کی طرف لوٹیے اور غور کیجیے کہ دراصل ”تجدید یا تجدد“ اور ”احداث“ کے مفہوم کو گڈ مڈ کرنے سے یہ اشتبا پیدا ہوا کہ کسی کو ”متجدد“ کہنا دراصل یہ کہنا ہے کہ وہ بدعت ساز ہے اور کسی کی طرف اس لفظ کی نسبت کرندراصل اس کی نیت پر حملہ ہے۔
اس بات میں ایک اور زاویے سے بھی جھول نظر آتا ہے کہ اگر ”تجدد“ کا مطلب ”بدعت سازی“ ہے تو کیا ”تجدید“ کا بھی یہی مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ دونوں لفظوں کےبنیادی معنے ایک ہی ہیں؟ جبکہ حدیث میں کہا جا رہا ہے کہ ہر صدی کے سرے پر اللہ تعالی ”مجدد“ پیدا کرتے ہیں اور اس کا کام ہی بدعتوں کا قلع قمع کر کے لوگوں کی زندگیوں میں دین کو اصلی حالت پر لے جانا ہوتا ہے۔
جب یہ بنیاد ہی اکھڑ گئی کہ ”تجدد“ کے معنے بدعت سازی ہیں، تو اس بات پر کیا بحث کرنی کہ کسی کو ”متجدد“ کہنا دراصل اس کی نیت پر حملہ ہے، البتہ میں صرف اتنی بات عرض کرنا چاہوں گا کہ جب کسی کے فعل کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ”وہ بدعت ہے“ اور کسی کی بابت میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ ”بدعتی“ ہے تو اس کی نیت پر کبھی بھی حملہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے فعل کی بنیاد پر گفتگو ہوتی ہے، دلوں کے بھیدوں کو کبھی بھی نہیں کریدا جاتا۔ اس کے لیے صرف ایک مثال دوں گا کہ مونچھوں کو کترنا چاہیے یا مونڈھنا؟ اس حوالے سے امام طحاوی – رحمہ اللہ تعالى – یہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ – رحمہ اللہ تعالى – کے نزدیک مونڈھنا افضل اور اعلی ہے جبکہ امام دار الجہرہ، امام مالک – رحمہ اللہ تعالى – کا یہ موقف نقل کیا جاتا ہے کہ مونڈھنا بدعت ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی کسی کی نیت پر حملے کرنا والا نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے لیے دلوں میں احترام کو جگہ دیے ہوئے ہیں جیسا کہ ان کے واقعات اور معاملات سے چھلکتا ہے (واللہ العليم بذات الصدور)
بے گناہ شخص کے قتل کا معاملہ بہت ہی عمدہ طریقے سے آپ نے پیش کیا ہے۔ آپ کی تحریر نے عاقلہ کی جو تعریف متعین کی ہے اور جس طرح آپ نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھے گے سوال اور جواب کو عاقلہ کے ذیل میں پیش کیا ہے، اسی شکل کو سامنے رکھتے ہوئے آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے
کیا عاقلہ میں تمام افراد کو ان افراد کی مرضی کے بنا شامل کیا جا سکتا ہے؟
اگر ایسا ممکن ہے تو تمام شامل کیے گے افراد پر کل دیت کی رقم کو کیسے تقسیم کیا جائے گا؟
عاقلہ جن مشترکات کی بنا پر تشکیل پاتا ہے، جیسا کہ ٹرانسپورٹ سیکشن کو آپ نے حالیہ حادثہ میں کہا ہے، تو کیا اُن مشترکات اور خاص طور پر رویوں کو ،جن کی وجہ سے حادثات پیش آتے ہیں ، ان رویوں کا موجب بننے والے قوانین اور ان قوانین کو بنانے والے حل و عقد اس عاقلہ میں شامل نہیں ہوں گے؟ اگر نہیں ہوں گے توکیا دلیل ہو گی؟
(میری رائے میں کسی فرد کا اختیاری عمل، جسے وہ اپنی مرضی سے اپناتا ہے اور کسی فرد کا کسی قانون کی وجہ سے اختیار کردہ عمل، جسے وہ باامر مجبور اپناتا ہے ایک جیسے تصور کرنا ظلم کے مترادف ہو گا)
ٹرانسپورٹ سیکشن کے ملازمین کی اصلاح کا یہ راستہ کیوں کر درست ہو سکتا ہے جبکہ ٹرانسپورٹ کے ملازمین کو آئی۔ایل۔او اور ملکی قوانین کے تحت کام کے اوقات کے مطابق نا تو تنخواہیں دی جاتی ہیں، ناہی اوور ٹائم کے ریٹ ٹھیک ہیں، نا ہی ایک ڈرائیور کے ڈرائیونگ آوورز کے مطابق کام لیا جاتا ہے؟
کیا دیت کی ادائیگی یونیورسٹی پر عائد نہیں ہوتی؟ یونیورسٹی بحیثیت ادارہ اور بحیثیت راعی اس دیت کا ذمہ دار نہیں ہے؟
کیا ایک اعلان عام کے زریعے تمام طلبہ، ملازمین اور فیکلٹی سے دیت کی رقم جمع کی جائے تو زیادہ بہتر نہیں ہو گا؟