رحمت للعالمین کا وہی ارشاد: الصدق یُنجی والکذب یہلک۔ سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ سچ سننے کی تاب مگر ہم میں نہیں۔ کسی گروہ میں نہیں۔
وعدہ نبھانے کا سوال تھا اور ایک مرد شریف سے‘ جس کے خاندان سے 46 برس سے تعلقات ہیں۔ بروقت گھر سے روانہ ہوئے۔ غلطی یہ کی کہ بڑی شاہراہ کی بجائے اس کے پہلو میں‘ قدرے چھوٹی سڑک پہ گاڑی موڑ لی۔ ایک سکول‘ دوسرا اور پھر تیسرا۔ سبھی کے باہر کاروں کی طویل قطاریں۔ جی ہاں‘ عریض بھی‘ تین قطاریں۔ دو اڑھائی کلومیٹر کا فاصلہ باقی تھا۔ ملاقات کے وقت میں پندرہ منٹ باقی تھے‘ اندازہ تھا کہ چھ سات منٹ میں مسافت طے ہو جائے گی۔ سست رفتاری سے‘ مگر پہلے سکول سے سلامت گزرے کہ چوکیدار چوکس تھا۔ دوسرے سے بھی مگر تیسرے پر جا پھنسے۔ ڈیڑھ سال سے‘ ایک سرکاری دفتر میں وہ صابر آدمی ستم جھیل رہا ہے۔ اس پہ ترس آتا ہے اور کبھی کبھار اپنے آپ پہ بھی کہ ہاتھ بٹانے کا پیمان کیوں کر لیا۔ وارداتِ قلبی ہی نہیں‘ کچھ اور معاملات میں بھی وہی رونما ہوتا ہے‘ شاعر نے جس کی دہائی دی تھی ؎
مجبوری و دعوائے گرفتاریٔ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے
تین ماہ ہوتے ہیں پروفیسر احمد رفیق اختر برطانیہ‘ سپین اور فرانس کے لیے پا بہ رکاب تھے‘ ناخوش و مجبور۔ عرض کیا: مت جائیے۔ بولے: وعدے کا کیا کروں۔ لوٹ کر آئے تو نڈھال۔ صبر کی بے پایاں توفیق درویش کو عطا ہوتی ہے۔ جھیل گئے۔ ہم سے عامی مگر کیا کریں؟
فراق نے کہا تھا ؎
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے
زندگی کا دھاگہ ہمارے سماج میں الجھ گیا ہے‘ اور اس بری طرح کہ کسی طور بھی سلجھتا نہیں۔ وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کی خدمت میں ایک بار عرض کیا تھا: لوحِ زماں پہ دائم نقش رہنے والے کارنامے الگ‘ اتنی سی عنایت ہو کہ لاہور کی ٹریفک رواں ہو جائے۔ شہر کے قلب میں وہ گندے ڈرامے بند کر دیجئے‘ جس نے ایک پوری نسل کو ذہنی مریض بنا دیا ہے‘ ہزاروں‘ ہزاروں کو۔ بھارتی فلمیں اس کے سوا ہیں‘ آدمی کو جو حیوان بننے کی ترغیب دیتی ہیں۔
بے یقینی کی گرفت میں جو جیتے ہوں‘ ذہنی سکون سے جو معاشرے محروم ہو جائیں‘ اپنی ترجیحات کا تعین وہ نہیں کر سکتے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ الجھائو بڑھتا چلا جاتا ہے۔ عدم تحفظ کا نوچ کھانے والا احساس‘ حواس مختل کر دیتا ہے۔ ایسے میں بقا کی غالب آنے والی جبلّت آسیب بن جاتی ہے۔ آدمی پھر آدمی نہیں رہتا‘ وحشی جانور سا ہو جاتا ہے‘ بے رحم بے رحم۔ حیات کا سارا جمال دھل جاتا ہے۔ زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔ بازار شکارگاہیں بن جاتے ہیں اور گھر بازار۔ فیض احمد فیض کا شعر سمجھ میں نہ آسکا تھا ‘ اب آیا ؎
گھر رہیے تو ویرانیٔ دل کھانے کو آوے
رہ چلے تو ہرگام پہ غوغائے سگاں ہے
تین عشرے قبل‘ پہلی بار یہ مصرعے سنے تو تعجب ہوا کہ ہمارے عہد کے شائستہ شاعر نے آدمی کو سگ کیسے کہہ دیا۔ پچھلے دو دن اسی خیال میں گزرے۔ تب دوسری صدی ہجری کے ایک عارف کا قول نظر سے گزرا‘ ''شیر جنگلوں میں بھوکے ہیں اور بستیوں میں کتے ہرن کا گوشت کھاتے ہیں‘‘۔
ظالم حکمران لعنت سہی‘ طوائف الملوکی مگر اس سے بڑی لعنت ہے۔ ہشام بن عبدالملک نے کوفہ کے گورنر کو لکھا کہ منڈی میں غلے کی فروخت روک دی جائے‘ جب تک اس کی جاگیر کا اناج بازار میں پہنچ نہیں جاتا۔ اس گورنر کو ''ابن النصرانیہ‘‘ کہا جاتا‘ مسلمان باپ کا بیٹا مگر زندگی کی آخری سانس تک عیسائی رہنے والی ماں کا فرزند۔ تین چار گنا قیمتیں بڑھ گئیں تو خلقِ خدا میں بغاوت کے آثار اٹھے۔ گورنر بڑا ہی بدبخت تھا۔ مساجد کے مینار گرا دیے تھے کہ مؤذن گھروں میں جھانکتے ہیں۔ ایک افسانہ جو اس کے تعصب نے تراش دیا تھا۔ آخرکار منبر پر وہ نمودار ہوا اور یہ کہا: اس پر لعنت ہو جس کی وجہ سے غلے کی قیمت بڑھی۔ ایک کے بعد بنو اُمیّہ کا دوسرا حکمران تخت پر بیٹھا حتیٰ کہ نوبت خانہ جنگی تک پہنچی۔ پھر بے یقینی کے بطن سے عباسی لشکر نمودار ہوئے۔ سپین کے سوا ہر کہیں بنو اُمیّہ کے چراغ بجھ گئے۔ ان کی ایک بڑی تعداد نے سندھ سمیت دور دراز کی سرزمینوں کو ہجرت کی۔ بھیس بدل گئے اور قبیلوں کے نام تک۔ ظلم‘ وحشت کی آندھی میں پھوٹتا ہے‘ عقل کا دیا جس میں جلتا نہیں۔ نتائج کا ظالم کو ادراک نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر پانچ کروڑ لاشوں پر سوویت یونین میں کمیونزم کی سلطنت تعمیر کرنے والے۔
پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ دمشق کے تخت پر عبدالملک براجمان ہوا۔ مسجدِ نبوی میں خطبہ دیا: خلفائے راشدین کے عہد میں مسلمان بے باک ہو گئے‘ حتیٰ کہ ابوبکر صدیقؓ‘ عمر فاروق اعظمؓ اور عثمان غنی ؓ تک کو ٹوک دیتے: اتق اللہ۔ اللہ سے ڈرو۔ کسی نے یہ بات مجھ سے کہی تو گردن اڑا دوں گا۔ حجاج اسی پس منظر میں اٹھا اور حدِ نظر تک لاشیں بچھا دیں۔ مرا تو خواجہ حسن بصری سجدہ ریز ہو گئے۔ کہا‘ بارِ الہا‘ اس ظالم سے‘ جس طرح نجات دی ہے‘ اسی طرح اس کے اثرات بھی تمام کر دے۔ سرکارؐ کا فرمان مگر راہ میں حائل تھا: برائی سے جب روکا نہ جائے گا‘ بھلائی کی جب ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط کیے جائیں گے‘ سخت ترین ایذا وہ تمہیں دیں گے اور تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی تب قبول نہ ہوں گی۔ کچھ عرصے بعد‘ صرف سوا دو سال کا استثنا ملا۔ درویشوں کے درویش عمر بن عبدالعزیز کا عہد‘ جب دنیا بہشتِ برّیں سی ہو گئی۔ افتادگانِ خاک سر اٹھا کے جینے لگے۔ رحمۃ اللہ علیہ‘ جنہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔
آزادی ہی میں نمود ہے‘ جس طرح ابر و باراں سے ہریالی۔ ڈسپلن کے بغیر کوئی معاشرہ مگر پنپ نہیں سکتا۔ حکمرانوں کے ظلم ہی سے معاشرے نہیں اجڑتے‘ جتھے اگر بن جائیں‘ قبیلوں میں ڈھل کر گروہوں کے گروہ‘ مقابل آ جائیں تو پھر نفرت کی حکمرانی ہوا کرتی ہے‘ تعصبات کی فراوانی‘ اعتدال جس میں روند دیا جاتا ہے‘ عدل تمام ہوتا اور سچائی بے دردی سے ذبح کر دی جاتی ہے۔ زندگی کو خالق نے تنوع میں تخلیق کیا ہے۔ آزمائش اور کشمکش دائمی ہے مگر جتھے داری میں‘ زندگی کا تنوع بھاپ بن کے اڑ جاتا ہے۔ رواداری کا نام تک نہیں رہتا۔ کسی بھی گروہ کے لئے سچائی‘ فقط اس کا اپنا مؤقف رہ جاتی ہے۔ امن باقی نہیں رہتا‘ جو بشر کے لیے اللہ کا سب سے بڑا انعام ہے۔
خبر یہ ہے کہ متنازعہ خبر کی تحقیقات میں ہونے والے انکشافات ہولناک ہیں۔ سرکاری شخصیات تو ملوث ہیں ہی‘ اخبار نویس اور خود اخبار کے بطن میں کینسر کی علامتیں پائی گئیں۔ اخبار نویس برادری اور ان کی انجمنیں مُصر ہیں کہ آزادی ٔ اظہار پہ حرف نہ آئے۔ حکومت کی آرزو ہے کہ بچ نکلے۔ فوجی قیادت نے اول یلغار کی‘ پھر یہ کہا کہ صحافی سے کوئی غرض اسے ہے اور نہ بنیادی طور پر اخبار سے۔ پورا سچ سننے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ چار دن میں تحقیقات مکمل ہونا تھیں۔ قرائن اور شواہد یہ ہیں کہ نسبتاً طویل عرصہ درکار ہوگا۔
بیرونِ ملک اخبار نویس اور اخبار کے روابط کا سراغ ملا ہے۔ تمام سرزمینیں‘ اخبار نویسوں کے لئے کھلی ہوتی ہیں۔ سب وادیاں‘ سب میدان اور چراگاہیں۔ اصول یہ ہے کہ جوچراگاہ کے اردگرد گھومے گا‘ وہ اس میں داخل بھی ہو سکتا ہے۔ درجنوں داخل ہیں۔ آدمی جی دار ہیں‘ مگر تحقیقات میں وزیر داخلہ پر یقینا ذہنی دبائو ہو گا‘ تینوں طرف سے۔ اب ایک سوال ان کے سامنے ہو گا۔ تمام تر حقائق کھول کر اگر بیان کر دیے جائیں تو سبھی ناشاد ہوں گے۔ سبھی کی غلطیاں ہیں۔ حافظ سعید اور مولانا اظہر مسعود کو گوارا کیا گیا۔
سازش میں دو تین حکومتی شخصیات ملوث ہیں۔ پوری سچائی بیان ہوئی تو ایک برادری کے طورپر اخبار نویس بھی شاید برہم ہوں۔ اس کے سوا پھر کیا چارہ رہے گا کہ اندر خانہ مفاہمت کر لی جائے۔ قربانی کے بکرے تلاش کیے جائیں اور بھینٹ چڑھا دیے جائیں۔ فوج اور سول میں کشمکش بڑھی ہے۔ بظاہر کپتان کا دھرنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے بڑھ کر مگر ملک کے محافظوں اور منتخب حکمرانوں کی آویزش۔ کوئی دن میں اندازہ ہو گا کہ حقائق آشکار ہوتے ہیں یا چودھری شجاعت والی مٹی ان پر ڈال دی جاتی ہے۔
رحمت للعالمین کا وہی ارشاد: الصدق یُنجی والکذب یہلک۔ سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ سچ سننے کی تاب مگر ہم میں نہیں۔ کسی گروہ میں نہیں۔
تبصرہ لکھیے