"گھر عورت ہی بناتی ہے" ایک ایسا جملہ ہے جس کی بناء پر کئی مردوں نے خود کو بہت سی ذمہ داریوں سے بری الذمہ سمجھ لیا ہے. جب بات بڑھتی ہے یا میاں بیوی میں اختلاف ہوتا ہے تو گھر کے بڑے بوڑھے خاتون، چاہے وہ بیوی، بہو یا بیٹی کے روپ میں ہو، کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں. اسلامی تعلیمات کا ذکر ہوتا ہے، احادیث کے حوالے دیئے جاتے ہیں، اُسے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اُسکے شوہر پر اُس کے کس قدر حقوق ہیں.
معاشرتی نظام کی بات کی جاتی ہے.
" لوگ کیا سوچیں گے" کی گردان ہوتی ہے. خاندان بھر میں "صبر کا میٹھا پھل" کھانے والی خواتین کا ذکر چھیڑ دیا جاتا ہے، جو کہ دراصل اپنی بزرگی کی عمر میں ہی صبر کے پھل کے بجائے عموماً شوہر کے بُڑھاپے کا پھل کھانے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں. کوشش اس لیے کہ زندگی کی وہ حسین بہاریں جس میں اُنہیں شوہر کے ساتھ کی، اعتبار اور توجہ کی ضرورت تھی، وہ سب گزر چکی ہیں اور اب شوہر کو بھی اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ جن ماؤں، بہنوں اور بھابھیوں کی وجہ سے وہ بے اعتنائی کا خو چڑھائے بیٹھا تھا، وہ اِس بڑھاپے میں اُس کا ساتھ ہرگز نہیں دینے والی..
ساتھ دینے والی اب یہی ہے جو شروع میں ساتھ مانگتی رہی مگر پھر صبر کو دانتوں میں دبا کر بیٹھ گئی . یہاں تک کہ اُس کے دانت بھی جھڑ گئے اور اب وہ اس پھل سے مستفید ہونے کے قابل نہیں رہی.
اب یہ گھر جو عورت نے بنانا ہے، جس کے بنانے کی وہ ذمہ دار ہے دراصل کس کا گھر ہے؟ اُس کے شوہر کا یا اُس کے سُسر کا... اُس کا کام ہے بس گھر بنانا جب تک کہ گھر کے بزرگ اللّہ کو پیارے ہو جائیں اور اُس گھر کے بچے بڑے ہو جائیں تاکہ گھر کے مالک بن سکیں.
سالہا سال سے چلی آرہی اس روایت کو بنانے والے نے اگر مرد کو بھی یہ بات باور کروا دی ہوتی کہ گھر بنانے میں وہ بھی برابر کا ذمہ دار ہے تو چُپ کا یہ کڑوا گھونٹ اور برداشت کا نوالہ محض عورت کو نہ کھانا پڑتا.
گھروں میں جب مسئلے سر اُٹھانے لگیں اور برتن آپس میں ٹکرانے لگیں تو گھر کے بڑوں کا یہ فرض ہے کہ عورت کے ساتھ ساتھ مرد کو بھی سمجھایا جائے کہ اُس کا مقصد صرف کمانا نہیں ہے، بیوی اگر اس کی توجہ اور اعتبار کی خواہاں ہے تو یہ اُس کا شرعی حق ہے نا کہ اُسے یہ یقین دلایا جائے کہ وہ مرد ہے تو ہمیشہ حق پر ہی ہوگا.
سیرتِ طیبہ اور احادیث سے کچھ حوالے اُس کے بھی گوش گزار کر دینے چاہیئں تاکہ وہ اپنے مکمل فرائض سے بھی آگاہ ہو کیونکہ عموماً مرد صرف بیوی کے فرائض سے آگاہ ہوتے ہیں.
میاں بیوی کو گاڑی کو دو پہیئے بلکل بجا کہا گیا ہے مگر اگر کسی ایک پہیئے پر وزن ضرورت سے زیادہ ہوگا تو گاڑی کو ایک ہموار سفر کاٹنے میں یقیناً دشواری ہی پیش آئے گی.
تبصرہ لکھیے