وہ ایک چھوٹا سا جنگل تھا۔ ندی کے کنارے گھنے درخت تھے۔ جن پر پرندوں نے اپنے گھر بنا رکھے تھے۔ صبح ہوتے ہی سب اپنے رزق کی تلاش میں اڑان بھرتے، علاقے بھر کی سیر کرتے۔ دانہ دنکا تلاش کرتے اور شام ہوتے ہی اپنے اپنے گھونسلوں میں لوٹ آتے۔سب ایک دوسرے کو دن بھر کی روداد سناتے۔ پرندوں کے شور سے ندی کنارے ایک عجیب سماں رہتا۔ چڑیوں کی چوں چوں، طوطوں کی ٹیں ٹیں، اور دوسرے پرندوں کی چہکاروں سے ایک رونق سی لگ جاتی۔
جہاں بہت سارے پرندے تھے وہیں ایک گھنے درخت پر ایک ننھی سی چڑیا کا گھونسلہ بھی تھا جس میں چار ننھے ننھے انڈے رکھے تھے۔چڑیا دن بھر گھونسلے میں ان پر بیٹھی رہتی اور چڑا اس کے لیے دانہ دنکا لاتا۔ کچھ ہی دن میں اس میں سے ننھے ننھے بچے نکل آئے۔ بچے کیا تھے، عجیب لجلجے سے نرم نرم بغیر پروں کے گوشت کے لوتھڑے سے لگتے۔ اڑنا تو دور کی بات، وہ حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ چڑیا اور چڑا ان کے لیے دانہ لاتے۔ ان کے منہ میں ڈالتے۔ ان کی حفاظت کرتے۔ کچھ عرصے بعد ان کے چھوٹے چھوٹے پر نکل آئے۔ مگر وہ اڑان کے قابل نہ تھے۔ چڑیا ان کی نگرانی کرتی رہتی کہ کہیں وہ چلتے چلتے گھونسلے سے باہر نہ گر جائیں یا کوئی اور پرندہ آکر ان کو کھا نہ لے۔ چڑا ان کے لیے دانہ لینے جاتا تھا۔ ایک دن شام ہو گئی۔ چڑا واپس نہ آیا۔ چڑیا نے بچوں سے کہا کہ وہ گھونسلے میں ہی رہیں۔ وہ چڑے کو ڈھونڈنے جاتی ہے۔ وہ سمجھا کر اڑ گئی۔
بچوں میں سے ایک بچہ بہت تیز تھا۔ وہ تھوڑی اڑان بھی بھرنے لگا تھا۔ اس نے جب چڑیا کو باہر جاتے دیکھا تو سوچا کہ میں بھی زرا باہر کی سیر کروں۔ آخر باہر کیا کیا ہے؟ وہ باہر کی طرف لپکا، گھونسلہ درخت کی ٹہنیوں میں بنا تھا۔ زمین سے اونچا تھا۔ اس کے پر چھوٹے تھے۔ وہ زیادہ دور نہیں اڑسکتا تھا۔ اس کے بھائیوں نے اسے کہا کہ باہر نہ جائو۔ امی نے منع کیا ہے۔
میںتو صرف دیکھ رہاہوں کہ باہر کیا ہے؟ اس نے جواب دیا اور ہلکی سی اڑان بھرکر دوسری ٹہنی پر جانا چاہا مگر اندازہ غلط ہو گیا۔ وہ گھونسلے سے نیچے والی شاخ پر جا کر گرا۔ اس نے نیچے جھانکا۔ اسے زمین بہت دور لگی ۔ اوپر دیکھا۔ اپنا گھونسلہ بھی اونچا لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اندھیرا بڑھنے لگا۔ پرندے واپس آنے لگے۔ شور بڑھنے لگا۔ ننھے بچے کو اب ڈر لگنے لگا۔ اس کے بہن بھائی اسے آوازیں دے رہے تھے مگر اسے اوپر اڑنا نہیں آتا تھا۔ وہ رونے لگا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ امی کی بات نہیں مانی۔ گرنے سے اسے چوٹ بھی لگی تھی ۔اب اس میں درد ہو رہا تھا اور اسے بھوک بھی لگ رہی تھی۔وہ رونے لگا۔ اس کے رونے کی آواز گھر جاتے بلبل نے سنی تو اس کے پاس آگیا۔ دیکھا کہ ننھا بچہ خوف سے کانپ رہا ہے۔ اس نے اسے چونچ اور پنجے میں دبا کرگھونسلے میں چھوڑدیا۔ بچے نے اس کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ کے لیے توبہ کی کہ امی کی بات مانوں گا اور گھر سے پوچھے بغیر نہیں نکلوں گا۔
تو پیارے پیارے بچو! اپنی امی کی بات ماناکرو۔
تبصرہ لکھیے