میاں محمد نوازشریف نے اپنی تقریر میں اپنی کارکردگی اور منصوبوں پر زیادہ بات کرنے کے بجائے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کی تقریر میں پیپلز پارٹی سمیت کسی کو دوسری اپوزیشن پارٹی کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔ اس کا سیدھا مطلب اندر سے ایک ہونا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت میں بجلی کے منصوبے، میٹروز، سی پیک اور موٹر ویز وغیرہ پر تیز رفتاری سے کام ہو رہا ہے۔ سڑکوں کے لیے ایک ہزار ارب روپے مختص کیے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جناب وزیر اعظم صاحب! کسی بھی ملک کی تعمیر میں انفراسٹرکچر کی ثانوی حیثیت ہوتی ہے۔ سب سے پہلے ریاست کے باسیوں کو صحت، تعلیم اور روزگار جیسی سہولیات کی فراہمی، باقی ترجیحات بعد میں، لیکن یہاں تو ہر چیز الٹ کر دی گئی ہے۔ کیا سڑکوں پر بیماروں کا علاج کریں گے ، یا پھر غیر تعلیم یافتہ بندہ جب سڑک پر چلے گا تو وہ سکالر بن جائے گا۔ کیا آپ کے کارپٹ روڈ بھوکے کی بھوک مٹا سکتے ہیں؟
یہ ایک ہزار ارب روپے تعلیم پر لگائے جاتے تو آئندہ دس سالوں میں ایک ہزار ماہرین تیار ہو کر ملتے جو ملک کی ترقی میں اہم کردار کرتے اور قوم کا سر فخر سے بلند ہوتا۔ وزیراعظم نے آلو کی موجودہ قیمتوں کو بڑے فخر سے بیان کیا لیکن کیا انھیں معلوم ہے کہ آلو کی قیمتوں میں گراوٹ سے اس کا کسان خودکشی پر مجبور ہے۔ بجلی کے نرخوں میں کمی کا دعوی بھی درست نہیں۔ تین ہزار کی بجلی اور تین ہزار ٹیکس، یہ کون سا ریلیف ہے؟ اس وقت نوجوان بیروزگار ہے، ڈگریاں ہاتھ میں ہیں اور نوکری موجود نہیں ہے۔ اس ملک کی صنعت بند ہوچکی ہے، قرض پر قرض لیکن پھر بھی ملک ترقی کر رہا ہے۔ مانا کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومتوں سے بہتر ہے لیکن ترجیحات اس کی بھی درست نہیں ہیں۔
ن لیگ کا الیکشن اور نوازشریف کے دعوے - محمود شفیع بھٹی

تبصرہ لکھیے