آج کل کوئی بھی پاکستانی ایف ایم ریڈیو آن کریں تو اس کی آواز کانوں میں پڑتے ہی ایک خوشگوارسی حیرت ہوتی ہے، کیوں کہ وہاں پر گھٹیا قسم کے (جنسی اور ذو معنی) ساؤتھ انڈیا گانے نہیں بلکہ پاکستانی گانے اور میوزک چل رہا ہوتا ہے۔ چوں کہ ہم بھارت کی نقل (یا مقابلہ) کی رو میں بہتے ہوئے اب مقامی طور پر اسی طرح کے گانے ہی پروڈیوس کر رہے ہیں، اس لیے آج کل ریڈیو پر ہمیں گذشتہ صدی کی اسی اور نوے کے دہائی کے گانے ہی سننے کو ملتے ہیں جبکہ موجودہ صدی کے گانے توخال ہی ملتے ہیں۔ ہم یہ قطعاً نہیں کہہ رہے کہ پاکستانی گانے سے مراد یہ ہے کہ آپ استاد امانت علی خان، فتح علی خان کی ٹھمریاں یا غزلیں لگائیں یا پھر اقبال بانو یا آئرین پروین یا نسیم بیگم کے نغمات چلائیں، لیکن کیا اس صدی کے ان پہلے سولہ سالوں میں پاکستانی میوزک انڈسٹری میں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہوا؟ کیا شازیہ منظور، فریحہ پرویز، صنم ماروی، حمیرا ارشد، سارہ رضا اور سب سے بڑھ کر نصیبو لال نے کوئی کام نہیں کیا؟ کیا راحت فتح علی خان، سجاد علی، شہزاد رائے اور عاطف اسلم، علی ظفر نے کوئی کام نہیں کیا ہوگا؟ لگتا ہے کہ گذشتہ صدی کے پرانے پاکستانی گانے نئی نسل کے لیے چلاکر ہمارے ریڈیو پروڈیوسر پیمرا کے خلاف ایک خاموش احتجاج کر رہے ہیں۔
لیکن اس سب کام کے لیے ہمیں بھارتی وزیر اعظم جناب نریندر مودی صاحب کا شکر گذار ہونا چاہیے جن کی سربراہی میں سیکولر اور لبرل بھارت میں حکمران ہندو ’’جہادی‘‘ گروہ ’جن سنگھ ‘ کے سنگھ پریوار کی سیاسی شاخ ’بھارتیہ جتنا پارٹی‘ نے پورے بھارت میں پاکستانی فنکاروں کی بھارتی فلموں کی نمائش پر عوام کی پرزور فرمائش پر پابندی لگوائی، اور یوں ہماری سرکار کو موقع ملا کہ وہ پاکستانی میڈیا پر اندھا دھند چلنے والے بھارتی گانوں، ڈراموں اور فلموں کے بارے میں کچھ سوچ سکے۔ یاد رہے کہ پاکستانی میڈیا پر بھارتی فلموں، گانوں اور ڈراموں کی یہ مادر پدر آزادی بہادر کمانڈو جناب جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں دی گئی تھی۔ کچھ ستم ظریفوں کی اطلاع کے مطابق آئی ایس پی آر کے زیر انتظام پیمرا کے لائسنس کے بغیر چلنے والا سب سے بڑا ریڈیو نیٹ ورک ابھی تک بھارتی نغمے چلا رہا ہے۔ لیکن جب ہم نے چیک کیا تو پتہ چلا کہ وہاں پر ایسے پروگرام تو ضرور چل رہے ہیں جو یورپ میں بھی رات بارہ بجے کے بعد چلائے جاتے ہیں لیکن بھارتی نغمات نہیں تھے۔
چلیں اسی بہانے ہماری نئی نسل کو یہ پتہ چلنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں کہ وہ جان سکیں کہ اہلِ پاکستان کے پاس بھی ساز و آواز کی دنیا کی کچھ نامور اور تابندہ آوازیں ہوا کرتی تھیں۔گذشتہ چھ سال کے عرصے کے دوران دو عدد ریڈیو سٹیشن لگوانے اور چلوانے کے تجرنے سےگزرنے کے دوران سب سے زیادہ نازک اور قابلِ رحم مرحلہ وہ ہوا کرتا تھا جب کوئی بھی نو آموز گلوکار آ کر منت سماجت کرتا کہ اُس کا نیا گانا ہم کسی پروگرام میں چلا دیں اور کوئی بھی ریڈیو میزبان اس امر کے لیے تیار نہ ہوا کرتا کہ اس نو آموز پاکستانی گلوکار کو چلانے سے اس کے پروگرام کی مقبولیت کم ہو جائے گی۔
ویسے ریڈیو میزبان (جوکیز) کی شکل میں ہم نے ایک عجیب و غریب نسل بھی دیکھی جن کی ’’انگریزی کمزور تھی اور اردو نہیں آتی تھی‘‘ اور وہ پھر بھی پاکستان کے ایف ایم ریڈیوز پر پروگرام کرنے پر مُصر ہوتے تھے۔ اور نہ صرف پروگرام کرتے بلکہ بڑے ہٹ ہوتے اور یہاں سے وہ کسی ٹی وی پروگرام کی میزبانی بھی پکڑ لیتے۔ سٹوڈیو میں بیٹھتے ہی گوگل کر کے دنیا بھر کی معلومات کو چبانے پر آمادہ۔ چونکہ پاکستانی معاشرے کی بنیادی اور مثبت معلومات آن لائن ہیں نہیں اور ہمارے ملک کے بارے میں جو کچھ آن لائن دستیاب ہے، وہ گل مکئی (ملالہ)، مختاراں مائی اور متیرا کی داستانیں ہی ہیں، تو ان کو چبا چبا کر ان ریڈیو جوکیز نے ایک پوری نسل تیار کر دی ہے جنہیں پاکستانی ہونے پر بہت پچھتاوا ہے۔ ان جاہل ریڈیو میزبانوں کا بہت بڑا حصہ تھا جو بھارتی سازوں، سازندوں اور گلوکاروں کی پرستش کرتے ہیں اور ایسا نہ کرنے والے کو ’پینڈو‘ خیال کرتے ہیں۔
خاکسار کو اس محاذ پر اپنی شکست تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ میں ان دو درجن سے زائد مخلوق کے اذہان سے شکست خوردی اور احساسِ کمتری کو ختم نہ کر سکا جنہیں کوک سٹوڈیو والی ’مومنہ مستحسن ‘ بھی اس لیے اچھی لگتی ہے کہ بھارت سے اس بچی کے بارے میں ’شبھ شبھ‘ کمنٹس آتے ہیں۔ یہ کیسے اذہان ہم نے بنا ڈالے ہیں۔ لیکن اپنی کیبلز پر دن رات بھارتی فلمیں اور گانے سن کر جوان ہونے والے نسل کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ چلتے چلتے بات اب یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ پنجاب حکومت کے زیراہتمام چلنے والے ریڈیو پر بھارتی پنجاب کے گلوکاروں کے گانوں کے پروگرام نشر ہونے لگ گئے جبکہ قومی ادارہ ریڈیو پاکستان بھی اس سے اپنا دامن نہ بچا سکا۔
ان سب ’ٹرولز‘ کے سامنے ہم نے ایک دوسری انتہا کا تجربہ کیا کہ ایک ایسا ریڈیو پروگرام کیا جائے کہ جس میں اس معاشرے، اس کی معاشرت، معیشت اور اقدار کی باتیں ہوں۔ یقین کریں کہ ناقابلِ یقین مقبولیت ملی۔ ہمارا پروگرام ’دادا پوتا شو‘ سنے بغیر اب بھی ہزاروں لوگوں کا دن نہیں گزرتا، لیکن اس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ منہ اٹھا کر گھر سے آئے، سٹوڈیو میں بیٹھ کر کسی ’بھٹکے‘ ہوئے بزرگ کو فون کیا کہ ’سر آج کا موضوع کیا رکھیں؟‘ اور اس نے جو بتایا تو انتہائی لجاجت سے کہا کہ ’’سر اس پر کچھ فرما دیں‘‘۔ بس اس کے بعد اللہ دے اور بندہ لے، ہر کال کرنے والا اپنی طرف سے ’حسن نثار‘ ہی بنا ہوتا ہے اور حتمی نکتہ یہ کہ ’یہ جو کچھ ہورہا ہے اس کا ذمہ دار سیاستدان ہیں‘۔
اس شکست خوردہ ذہنیت کا کوئی علاج نہیں، اس کا علاج یہی ہے کہ اس کو نظر انداز کیا جائے اور ان سے اگلی نسل میں کوئی مثبت سوچ ڈالنے کی کوشش کی جائے جو پچھلے بیس سالوں میں اس کے دماغوں میں انڈیل دی گئی ہے۔ اندازہ کریں کہ ریڈیو قائم کرنے کے بیس سال بعد ہمیں خیال آیا ہے کہ اس پر جو کچھ نشر ہوتا ہے اس کو کچھ ریگولیٹ کیا جائے۔ ان بیس سالوں میں، قانون کی صریحاً خلاف ورزی میں، ہمارے ملک میں چلنے والے ریڈیو چین، امریکہ ، بھارت اور دیگر ممالک سے چلائے جانے لگے ہیں۔
بیس سال قبل 1996ء میں جب پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے اس وقت کے مردِ اول جناب آصف علی زرداری کو ایک سادہ خط کے ذریعے اس ملک میں پہلا ایف ایم ریڈیو چلانے کا اجازت نامہ دیا اور ایف ایم 100 ہواؤں کے دوش پر گیا تو اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کوئی بھارتی گانا چلا سکے تا آن کہ لاہور سے ایک ٹیکسٹائل مل مالک نے ایف ایم 103 جاری کیا جو بھارتی میوزک کے حوالے سے تمام حدود و قیود پار کر گیا۔ ان صاحب نے ٹیکسٹائل مل بند کر دی اور سارا زور اس ریڈیو کو پھیلانے پر لگا دیا کیوں کہ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری والے ریڈیو میں ان کی اربوں روپے والی مل سے زیادہ منافع تھا۔ پھر اس سارے منظر نامے کی انتہا سونے کے تاجروں کا وہ ایف ایم 106.2 تھا جس کا مکمل کنٹرول دبئی میں ہے اور جو صرف میوزک ہی چلاتا تھا اور اس کی گانوں کی فہرستیں تک وہیں سے بن کر آن لائن ٹرانسفر ہوتی رہی ہیں۔
ہم نے پاکستانی ریڈیو کا یہ رونا ہر پلیٹ فارم پر رویا اور جب جناب ابصار عالم چئیرمین پیمرا بنے تو ان کے سامنے بھی یہی دکھڑا رویا۔ انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو اس عہدے پر لات مار دیں گے۔ لات تو انہوں نے اب بھی ماری ہے لیکن بالکل صحیح جگہوں پر اور اس کے نتیجے میں ان پر جو تبریٰ ہو رہا ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔
حکومتی اداروں سے ویسے تو کوئی اچھا کام ہوتا نہیں لیکن اگر ہو جائے تو ہم جیسے دانشور اپنی نام نہاد ’غیر جانبداری‘ کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے کسی اقدام کی تعریف یا حمایت کرنے سے احتراز کرتے ہیں کہ کوئی اعلیٰ عہدہ، مفاد یا لفافہ لیے بغیر حکومت کے کسی اچھے کام کی تعریف بھی گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔ لیکن اس ابتدائی کامیابی پر ’’شکریہ ابصارعالم‘‘ تو کہنا بنتا ہے۔ اللہ کرے اب وہ مؤقف پر قائم رہیں ۔
تبصرہ لکھیے