انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پچھلے اکتالیس برس سے دنیا میں بھوک اور غربت کی رپورٹنگ کر رہا ہے اور اس بابت ماہرین کے تجویز کردہ حل بھی پیش کرتا ہے۔انسٹی ٹیوٹ ہر سال گلوبل ہنگر انڈیکس ( بھوک کا عالمی اشاریہ ) بھی جاری کرتا ہے۔گذشتہ ہفتے جاری کی گئی سالانہ بھوک رپورٹ کے مطابق اگرچہ سن دو ہزار سے اب تک بھوک کی شرح میں انتیس فیصد کمی آئی ہے مگر آج بھی اس کرہِ ارض پر اسی کروڑ انسان رات کو بھوکے سوتے ہیں۔حالانکہ ان سب کا پیٹ بھرنے کے لیے اناج بھی ہے ، وسائل بھی ہیں ، ٹیکنالوجی بھی ہے۔ سیاسی ارادے کی کمی ، نیت کے کھوٹ اور بدانتظامی پر قابو پا لیا جائے تو کل رات سے اس کرے پر کوئی بھی بھوکا نہ سوئے۔
یہ سن کے دکھ اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ ہماری زمین جو خوراک پیدا کرتی ہے اس کا ایک تہائی یعنی تیرہ لاکھ ٹن کھیت سے پیٹ تک نہیں پہنچ پاتا۔کہیں راستے میں ہی کسی نہ کسی مرحلے پر ضایع ہوجاتا ہے۔اس ایک تہائی خوراک کو پیدا کرنے میں جو سرمایہ ، محنت ، پانی ، بیج ، کھاد ، زرعی ادویات استعمال ہوتی ہیں ان کا زیاں الگ۔مگر وہ جو کہتے ہیں کہ خواہشوں کے پر ہوتے تو سور بھی پرواز کر رہے ہوتے۔
گذشتہ برس پیرس میں عالمی سربراہوں نے عہد کیا کہ دو ہزار تیس تک دنیا سے غربت اور بھوک کا خاتمہ کردیا جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ دو ہزار تیس کے بعد خطِ غربت کی تعریف بھی بدل جائے گی جو اس وقت یہ ہے کہ اگر کسی شحض کی روزانہ آمدنی دو ڈالر ہے تو وہ غریب ہے اور ایک ڈالر ہے تو نہائیت غریب۔اور اگر کسی مرد کو روزانہ اٹھارہ سو کیلوریز سے کم اور عورت کو بارہ سو کیلوریز سے کم غذائیت مل رہی ہے تو وہ ناکافی غذائیت اور بھوک کے گرداب میں ہے۔بچوں کو بڑھوتری کے زمانے میں معیاری غذا نہ ملے تو اثرات زندگی بھر محسوس ہوتے رہتے ہیں۔بالخصوص پندرہ برس کی عمر تک کے ناکافی غذائیت کے شکار بچے کا وزن اور قد نارمل سے کم رہ جاتا ہے اور ذہنی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔جسمانی مدافعتی نظام بیماریوں کا پوری طرح مقابلہ نہیں کر سکتا۔ناکافی غذائیت کی شکار بچیاں صحت مند مائیں نہیں بن پاتیں۔ یوں ایک نسل کی کمی اگلی نسل میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔
جس دنیا میں آج رات اسی کروڑ لوگ بھوکے سوئیں گے اسی دنیا میں آج رات پکے ہوئے کھانے کی چالیس فیصد مقدار بھی ضایع ہو جائے گی۔( اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل آج بھی نو سو کلو گرام کے لگ بھگ کھانا ضایع کرے گا۔اس سے آپ پورے ملک کے حال کا اپنے کچن سمیت اندازہ لگا سکتے ہیں )۔
دنیا کے دو علاقے اس وقت بھوک سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔صحارا پار سیاہ فام افریقہ اور جنوبی ایشیا۔انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی بھوک رپورٹ میں ملکوں کی ہنگر گریڈنگ کرتے ہوئے چار عناصر کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔یعنی شرحِ غربت ، بے روزگاری کا تناسب ، صاف پانی تک رسائی اور صحتِ عامہ کی سہولیات۔اس اعتبار سے ایک سو اٹھارہ ممالک کی فہرست میں سب سے نیچے سینٹرل افریقن ری پبلک ، چاڈ اور زمبیا ہیں جہاں لگ بھگ پینتالیس فیصد آبادی بھوک اور ناکافی غذائیت کے بقائی مسئلے سے دوچار ہے۔مگر اچھی خبر یہ ہے کہ روانڈا ، کمبوڈیا اور برما میں گذشتہ پندرہ برس کے دوران بھوک اور غذائیت کی کمی میں پچاس فیصد تک پیش رفت ہوئی ہے۔
ایک سو اٹھارہ ممالک کے احوال پر مشتمل بھوک انڈیکس کے مطابق جنوبی ایشیا اور قرب و جوار کی رینکنگ کچھ اس طرح ہے۔چین انتیسویں نمبر پر ( یعنی سب سے بہتر ) ، نیپال بہترویں ، برما پچہترویں ، سری لنکا چوراسیویں ، بنگلہ دیش نوے ، بھارت ستانوے ، پاکستان ایک سو سات ویں اور افغانستان ایک سو گیارہویں نمبر پر ہے۔
بنگلہ دیش کی رینکنگ سن دو ہزار کی انڈیکس میں چورانوے نمبر پر تھی تاہم اتنی بہتری ضرور ہوئی ہے کہ اب اس کی رینکنگ نوے تک آ گئی ہے۔بھارت میں اس وقت ناکافی غذائیت میں کمی کے لیے دنیا کے دو سب سے بڑے منصوبے جاری ہیں۔ایک منصوبہ چھ برس تک کی عمرکے بچوں کو توانا بنانے کے لیے اور دوسرے منصوبے کے تحت اسکولوں میں دوپہر کا کھانا دیا جا رہا ہے۔مگر کام اتنا آسان نہیں۔ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی میں سے لگ بھگ بیس کروڑ نفوس بھک مری اور ناکافی غذائیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں انتالیس فیصد کی عمر پندرہ برس تک ہے۔
پاکستان میں آخری مردم شماری اٹھارہ برس پہلے ہوئی تھی لہذا یہ اندازہ ٹھیک ٹھیک لگانا مشکل ہے کہ کتنی آبادی انتہائی غربت میں ہے۔اپریل میں وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے ایک سیمینار میں بتایا کہ پاکستان کی لگ بھگ چھ کروڑ آبادی ( تقریباً تیس فیصد ) خطِ غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے ( یعنی وہ لوگ جن کی ماہانہ آمدنی تین ہزار روپے سے کم ہے )۔
پاکستان میں دو ہزار ایک میں یہ کہا جاتا تھا کہ سو میں سے تریسٹھ فیصد لوگ غربت کی تعریف پہ پورا اترتے ہیں۔آج کہا جا رہا ہے کہ اب صرف تیس فیصد کے لگ بھگ غریب رہ گئے ہیں۔تو کیا یہ سمجھا جائے کہ گذشتہ پندرہ برس میں پاکستانی غریبوں کی تعداد میں تینتیس فیصد کمی ہو چکی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر باقی دنیا کو بھی پاکستان کی تقلید کرتے ہوئے سیکھنا چاہیے کہ غربت کیسے کم کی جاتی ہے ؟ اتنی جلد تو ڈبل شاہ رقم دوگنی نہیں کرتا تھا جتنی جلد پاکستان میں غریبوں کی تعداد آدھی رھ گئی۔
تعجب ہے کہ اس قدر انقلابی چھلانگ کے باوجود بین الاقوامی بھوک انڈیکس میں پاکستان نیپال سے پینتیس ، سری لنکا سے تئیس ، بنگلہ دیش سے سترہ اور بھارت سے دس درجے نیچے اور صرف افغانستان سے اوپر ہے۔اگر واقعی پاکستان میں پچھلے پندرہ برس میں شرحِ غربت کم ہوئی ہے تو اس عرصے میں بھوکوں کو کھانا کھلانے والے اداروں میں اضافہ کیوں ہوگیا ؟ اس وقت کم ازکم قانونی تنخواہ چودہ ہزار روپے ہے۔جو یقیناً پندرہ برس پہلے کی ماہانہ لازمی تنخواہ سے دوگنی ہے۔لیکن آج اگر احسن اقبال یا اسحاق ڈار چودہ ہزار روپے میں چار رکنی اوسط کنبے کا گھریلو بجٹ مکان کا کرایہ شامل کیے بغیر ہی بنا کے دکھا دیں تو میں زاتی غلام بننے پر آمادہ ہوں۔ہم تو اس پر ہی خوش ہونے کے لیے رھ گئے ہیں کہ آج پاکستان کے زرِ مبادلہ کے زخائر چوبیس ارب ڈالر کی ریکارڈ توڑ سطح تک پہنچ گئے۔
پاکستان نے اکیسویں صدی کے شروع میں انسانی ترقی کے لیے دو ہزار پندرہ تک جو ملینیم اہداف پورے کرنے کی حامی بھری تھی۔پندرہ برس بعد ان اہداف میں سے بمشکل بیس فیصد پورے ہوئے۔پھر بھی پاکستان نے پچھلے برس مروتاً یہ حامی بھر لی کہ دو ہزار تیس میں غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔شائد اس بار یہ آس باندھی گئی ہے کہ بابا سی پیک لائے گا غربت مٹائے گا۔
اچھا چھوڑئیے اس بک بک کو۔ایک کام کرتے ہیں۔کل سے گھر میں جتنے نفوس ہیں ان سے زیادہ کا کھانا نہیں پکے گا۔اگر پکے گا تو اگلے وقت وہی کھایا جائے گا یا کسی ضرورت مند کو دیا جائے گا۔اس طریقے سے پاکستان کی مڈل کلاس ، اشرافیہ اور ریستوراں روزانہ سب کی نہیں تو کم ازکم ایک ملین لوگوں کی بھوک مٹا سکتے ہیں۔جو ویہلے نوجوان ادھر ادھر بیٹھے ٹیم پاسی کرتے رہتے ہیں وہ مقامی سطح پر چھوٹی چھوٹی تنظیمیں تشکیل دے سکتے ہیں اور یہ تنظیمیں اضافی کھانا مقامی سطح پر ایک کے ہاں سے جمع کر کے دوسرے تک انفرادی یا اجتماعی انداز میں پہنچا سکتی ہیں۔
اب آپ کہیں گے کہ یہ تو قوم کو بھکاری اور ہڈ حرام بنانے کی تجویز ہے۔چلیے میں تجویز واپس لے لیتا ہوں۔آپ ذرا کھانے کا انتظام کر دیجیے۔یا پھر خود مہینہ بھر روزانہ ایک بار بھوکے رہنے کی مشق کر کے دیکھئے۔تاکہ ایک پلڑے میں جعلی انا اور دوسرے میں بھوک کا وزن ہو سکے ( میں ڈائیٹنگ کی بات نہیں کر رہا )۔
تبصرہ لکھیے