اقبال نے کیا خوب کہا تھا:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں۔
بلاشبہ عورت اس تصویر کائنات کی رنگینی ہے۔ اسی کے دم سے کاروانِ زیست میں دل فریبی اور سکون ہے۔ عورت ماں، بیوی، بیٹی، بہن ہر رُوپ میں مرد کے لیے دوست، غم خوار، مددگاراور راحت کا سامان ہے۔ پھر خالقِ کائنات نے مرد کے دل میں عورت کی محبت کو شامل کرکے خاندان کے وجود اور نسل انسانی کی بقا کو بھی یقینی بنا دیا ہے۔ گویا محبت کا یہ رُوپ انسانی معاشرے کی بُنت میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
لیکن اس چیز میں بھی کوئی شک نہیں کہ عورت کی حیثیت، مقام، حقوق اور فرائض کا معاملہ انسانی معاشرت کے ان معدودے چند سوالوں میں سے ایک ہے جسے انسان اپنی عقل سے حل کرنے میں بالکل ناکام رہا ہے۔ قبل از مسیح سے لے کر اسلام کے ظہور تک، دنیا کی ہر تہذیب اور مذہب میں، عورت کی حیثیت پاؤں کی جوتی سے زیادہ نہیں رہی۔ کہیں اسے موت کا دوسرا نام دیا گیا تو کہیں اسے غلاموں سے بدتر سمجھا گیا، کہیں اسے شیطان کا رُوپ قرار دیا گیا تو کہیں اسے انسانی مسائل کی جڑ یا وجہ قرار دیا گیا، کہیں اس کی پیدائیش پر منہ چھپانے کی رسم عام ہوئی تو اسے زندہ درگور کرنے کی ظالمانہ طریقے اپنائے گئے تو کہیں اسے خاوند کے مرتے ہی ”ستی“ کرنے کا حکم ہوا، کہیں اسے بیوگی کی زندگی گھٹ گھٹ کر گزارنے پر مجبور کیا گیا تو کہیں ہر جائز حق سے بھی محروم رکھا گیا۔ الغرض عورت جو سامانِ راحتِ جاں تھی اسے جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا۔
ایسے میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر رحم فرمایا اوراسلام کی صورت ایک ایسا دین نازل فرمایا جو صرف قولا ہی مکمل ضابطہ حیات نہیں تھا بلکہ عملا بھی زندگی کے تمام مسائل کا حل پیش کرنے والا تھا۔ اسلام نے عورت کی حیثیت، دائرہ کار، مقام، حقوق اور فرائض کا ایسا مکمل اور جامع نقشہ کھینچا کہ انسانی تہذیب آج بھی اس کا کماحقہ ادراک کرنے سے قاصر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اپنے گھر کی سربراہی کے ساتھ ساتھ مسلم خواتین نے زندگی کے ہرہر شعبے میں ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیے کہ انسان انگشتِ بدنداں رہ جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر انسانی معاشرت میں اپنے کردار کو اللہ کے احکامات کی روشنی میں اس طرح نبھایا کہ جہاں مسلمان ایک ہزار سال تک دنیا کی سپرپاور رہے، وہیں انسانی تاریخ میں معاشرتی زندگی کا ایک ایسا روشن باب وجود میں آیا کہ جس کی نظیر دنیا کا کوئی بھی معاشرہ دینے سے قاصر ہے۔ جس میں مضبوط خاندانی نظام کی بنیاد پر ایک صالح اور انسان دوست معاشرے نے جنم لیا۔
اٹھارویں صدی میں جب اسلامی ریاست کو زوال شروع ہوا تو اگلی تین صدیوں میں اسلامی معاشرے کو بھی زوال آگیا۔ وہ معاشرہ جو اسلام کے احکامات، تصورات اور جذبات کی بنیاد پر تشکیل پایا تھا، اسلامی ریاست کو زوال آتے ہی، مغربی احکامات، تصورات اور جذبات سے آلودہ ہونے لگا۔ خصوصا بیسویں صدی کے دوسری نصف صدی میں جہاں مغرب کو دنیا میں سیاسی اور تہذیبی برتری حاصل ہوگئی اور میڈیا کی صورت میں تیز ترین اور موثر ذرائع ابلاغ بھی میسر آگئے، وہیں مغربی تہذیبی تصورات کو اسلامی معاشرے میں دخیل ہونے کے بھرپور مواقع مل گئے۔
اسلامی ریاست کا وجود پہلے ہی مٹایا جاچکا تھا۔ اب جدیدت پسندی کے نام پر مسلم تہذیب کو نشانہ بنایا گیا۔ تہذیبوں کے تصادم جیسے تصورات کے تحت مسلم تہذیب کو اس کی اصل شناخت سے ہٹا کر مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگنے کی بہت سی کوششوں کا آغاز ہوا۔ جہاں سول ڈیموکریٹک اسلام کے تصورات کے تحت سیاسی اسلام کے غلبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں وہیں کلچرل اسلام کے تحت اسے ایک نئی شناخت دینے کے لیے جدیدت پسند علما اور دانشوروں کو آگے بڑھایا گیا۔ جنھوں نے اسلامی احکامات کو آوٹ آف فیشن قرار دیتے ہوئے، مغربی تصورات کو اسلامی رنگ دینے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ غامدی سکول آف تھاٹ انھیں کوششوں کی ایک مثال ہے۔ پھر ایک طرف مسلم ممالک میں اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے لبرل اور سیکولر آزادیوں کو یقینی بنایا گیا تو دوسری طرف نصاب، تعلیم اور میڈیا کے ذریعے ان آزادیوں کا پرچار بھی زوروشور سے کیا گیا۔ جس کا لامحالہ نتیجہ یہ نکلا کہ عورتوں کی آزادی، حقوقِ نسواں اور مادر پدر آزادی کے تصورات نے مسلم خواتین کو بھی اپنی طرف مائل اور متاثر کرنا شروع کردیا۔
اس کی بنیادی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ان تصورات کے مقابلے میں اسلامی احکامات صرف کتابوں تک محدود تھے۔ یعنی عملی طور پر مغربی تصورات ہی ان کے سامنے تھے۔ لیکن الحمداللہ ! اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی وہ مسلم معاشروں کی بہت قلیل تعداد کو متاثر کرسکے۔ جس کا ایک ثبوت وہ سروے ہیں جو پچھلے دس سالوں سے ان کے موثر ترین تھنک ٹینک مسلسل مسلم ممالک کے اندر کررہے ہیں۔ اس حوالے سے پیو تھنک ٹینک، رینڈ اے کارپوریشن، بی بی سی اور ہیرلڈ کے سروے بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ جن کے مطابق مسلم ممالک کی اکثریت اسلامی احکامات، شعار اور تصورات کے تحت زندگی گزارنا پسند کرتی ہے یا انھیں عملا ایک اسلامی ریاست کی صورت میں نافذ ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔
لیکن چونکہ ان کی کوششیں جاری ہیں۔ خصوصا عورتوں کے حقوق اور آزادی کے حوالے سے بہت کچھ کیا جارہا ہے اور مغربی عورت کو بطور ایک مثال کے پیش کیا جارہا ہے۔ تو ضروری ہوجاتا ہے کہ اگر ہم مغربی عورت کی حالت زار پر بھی ایک نظر دیکھ لیں تاکہ ہمیں سچ اور جھوٹ کا وہ فرق نظر آسکے جو ٹی وی سکرین پر نظر نہیں آتا۔
میرا مغرب کی بے چاری عورت کی حالت دکھانے کا مقصد ہرگز یہ ثابت کرنا نہیں ہے کہ ہمارے ہاں مسلم ممالک میں خصوصا پاک وہند میں عورتوں کی حالت مثالی ہے۔ ہرگز نہیں! یہاں بھی بے حد مسائل ہیں، وراثت میں حصہ دینے، تعلیم دلوانے اور جنسی استحصال کے حوالے سے ہمارے ہاں بھی بےشمار مسائل موجود ہیں۔ لیکن ان مسائل کی اصل وجہ بھی دین سے دوری اور مغربی طرزِ حیات، ہندوانہ اور قبائلی رسم و رواج کی اندھی تقلید ہے۔
تو مغربی عورت جسے ہماری این جی اوز اور لبرل آنٹیاں دن رات مثالی بنا کر پیش کرتی ہیں۔ ایک نظر اس کی حالتِ زار پر بھی ڈال لیجیے۔
جہاں تک جنسی زیادتی کا معاملہ ہے تو دنیا میں سب سے زیادہ عورتوں کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات امریکہ میں پیش آتے ہیں۔ بدقسمتی سے ریپ کے ان واقعات میں سے زیادہ تر واقعات گھروں کے اندر پیش آتے ہیں۔ جن میں اپنے ہی محرم رشتوں کی کثیر تعداد اس گھناؤنے فعل کو سرانجام دیتی ہے۔ امریکہ میں ہر چار میں سے دو عورتیں بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے پہلے جنسی زیادتی یا اس کی کوشش کا نشانہ بنتی ہیں۔ جنسی زیادتی کے حوالے سے دوسرے نمبرپر ساوتھ افریقہ، تیسرے پر سویڈن، چوتھے پر برطانیہ، پانچویں پر انڈیا، چھٹے پر نیوزی لینڈ، ساتویں پر کینڈا، آٹھویں پر زمبابوے، نویں پر آسٹریلیا، دسویں نمبر پر ڈنمارک اور فن لینڈ شامل ہیں۔ مختلف تحقیقی اداروں کی رپورٹوں میں فرق ہوسکتا ہے لیکن زیادہ تر رپورٹوں میں یہی ممالک سرفہرست نظر آئیں گے۔
پھر عورت کے استحصال کی سب سے بدترین صورت جسم فروشی ہے۔ ایک طرف مغربی تہذیب اپنے مادر پدر آزادی کے تصورات کے ذریعے ہر انسان کو من پسند زندگی گزرانے کی آزادی دیتی ہے دوسری طرف منفعت کے تصور کے تحت جسم فروشی کو جائز بھی قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جن ممالک میں جسم فروشی جائز ہے ان میں سے ترکی، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا جیسے مسلم ممالک کو چھوڑ کر باقی سب مغربی ممالک ہیں۔ ان میں نیوزی لینڈ، بیلجیم، آسٹریلیا، آسٹریا، کینڈا، ڈینمارک، فرانس، جرمنی، یونان اور ہالینڈ سرفہرست ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 42 ملین جسم فروش عورتیں موجود ہیں۔ جن میں سے پانچ ملین چین میں، تین ملین انڈیا میں اور ایک سے دو ملین امریکہ میں موجود ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو آن ریکارڈ موجود ہیں ورنہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں عورت کے لیے اس سے زیادہ بدتر اور گھٹیا زندگی کا تصور ممکن نہیں کہ وہ ایک سیکس ورکر ہو لیکن مغرب میں یہ جائز بھی ہے اور عام بھی۔
پھر عورتوں پر تشدد کے حوالے سے بھی امریکہ سرفہرست ہے۔ جہاں عورتیں اپنے بوائے فرینڈز اور شوہروں کے ہاتھوں بدترین تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ وہاں رپورٹ کرنے کی شرح زیادہ ہونے کے باوجود، ایسے کیسز کی کثیر تعداد موجود ہے جہاں عورت تشدد کا نشانہ بننے کے بعد بھی اسے رپورٹ نہیں کرتی ہیں۔
پھرایک طرف شخصی آزادی کے تصور کے تحت آزاد زندگی کا تصور دیا جاتا ہے تو دوسری طرف عورت کو ایک سستی سی شے بنا دیا گیا ہے۔ جسے نیم برہنہ یا برہنہ کرکے اپنی پروڈکٹ کو زیادہ سے زیادہ بیچا جاسکتا ہے۔ گویا مغرب کی سرمایہ دارانہ معشیت کے لیے عورت ایک ایسا ذریعہ (Tool) ہے جسے وہ مارکیٹنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ میں نے ایک سٹور میں ایک سیلز گرل کو نامناسب لباس پہنے دیکھا تو سخت افسردہ ہوا۔ ایک بڑی عمر کی خاتون کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ کمپنی ہمیں یہی کپڑے پہننے پر مجبور کرتی ہے۔ افسوس! سرمایہ دارانہ کمپنیاں مال کے ساتھ ساتھ عورت کی عزت بھی بیچتے ہیں۔
گویا عورت جو گھر کا چراغ اور زینت تھی۔ اسے مغربی تہذیب نے منفعت کے تصور کے تحت جسم فروش اور پروڈکٹ بیچنے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو اپنے گھر میں موجود ٹی وی، سڑکوں پر موجود بل بورڈز اور اخبار رسالوں میں چھپنے والے اشتہارات کو ایک نظر دیکھ لیجیے۔ کیا یہ عورت کی تذلیل نہیں؟ کیا یہ عورت کی سستی شے بنانا نہیں؟ مگر افسوس ہمارے سیکولر اور لبرل دانشور اسے عورت کی آزادی کے دلفریب منظر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن بنظر غور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت کا بدترین استحصال ہے جو مغربی تہذیب کی پیروی میں ہمارے ہاں بھی جاری ہے۔
پھر عورت جسے اسلام نے گھر کی زینت قرار دیتے ہوئے، اس کے دائرہ کار کا تعین کیا تھا۔ گھربار اور بچوں کی ذمہ داری کو اس کی اولین ترجیح قرار دیا تھا (اگرچہ اسلام کو رُو سے عورت جائز حدود میں رہتے ہوئے کاروبار اور ملازمت بھی کرسکتی ہے لیکن اس کی اولین ترجیح گھر ہے)۔ اور معاش کی ذمہ داری مرد کے مضبوط کندھوں پر ڈالی تھی کہ اس کی فطرت اور ساخت اس کے لیے نہایت موزوں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیٹی کے رُوپ میں عورت باپ کی، بیوی کے رُوپ میں شوہر کی اور ماں کے رُوپ میں بیٹوں کی ذمہ داری ہے۔ اسے معاشی فکر کے لحاظ سے آزاد رکھا گیا ہے۔ لیکن مغرب میں آزادی، حقوقِ نسواں اور برابری کے تصور کی بنیاد پر عورت پر معاشی ذمہ داریاں بھی اس کے نازک اور ناتواں کاندھوں پر ڈال دی گئی ہیں۔ اس لیے اسے مرد کے ساتھ ساتھ برابر معاش کمانا پڑتا ہے۔
اور بعض معاملات میں تو مغرب کی یہ بے چاری عورت دہری ذمہ داریاں نبھانے پر مجبور ہے۔ ایک طرف اسے ان بچوں کی پرورش کرنی ہے جنھیں ان کے مرد پیچھے چھوڑ گئے ہیں اور دوسری طرف وہ ان کی معاشی ضروریات کی بھی واحد کفیل ہیں۔ یہ عورت کے ساتھ ہونے والی وہ ناانصافی ہے جو اس کی فطرت، جسمانی ساخت اور جذبات سے میل نہیں کھاتی۔
گویا سرمایہ دارانہ مغربی تہذیب نے عورت کو اس کی فطرت کے خلاف، اپنی انڈسٹری کو چلانے والا ایک کل پرزہ بنا دیا ہے۔ وہ ماں، بیوی، بیٹی یا بہن جیسے مقدس رشتوں سے نہیں پہچانی جاتی بلکہ اس کی حیثیت کا تعین اپنی پیداواری صلاحیت (Productivity) کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ آج ہمارے ہاں بھی اگرچہ ہندوانہ، قبائلی اور مردانہ رسم و رواج کے تحت عورتوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔ اسے وراثت، تعلیم، جائز تفریح میں اس کا حق نہیں دیا جارہا لیکن پھر بھی ہماری عورت مغرب کی عورت سے لاکھ ہا درجے بہتر حالت میں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے، بجائے اسلام کی طرف رجوع کرنے کے، اسے مغربی تہذیب کی اندھی کھائی میں گرایا جارہا ہے۔ جہاں عورت محض ایک سستی سی شے بن کررہ جائے گی اور اس کی اپنی اصل شخصیت کہیں معدوم ہوجائے گی۔
ہمیں اصل میں اپنے تمام مسائل خصوصا عورتوں سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے اسلام کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے حقوق، مقام اور حیثیت کا تعین اسلام کے نقطہ نظر کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔ جو بلاشبہ عورت کے لیے اس کے خالق کی طرف سے بہترین لائحہ عمل ہے۔ لیکن یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب ریاست سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تصورات کی بجائے اسلام کے ذریں اصولوں پر قائم ہوگی۔ ورنہ ہم سب آدھے تیتر آدھے بٹیر کی مانند زندگی گزارتے رہیں گے۔ ہر روز ایک نئی قندیل بلوچ پیدا ہوتی رہے گی اور ہر روز اسے قتل کیا جاتا رہے گا۔
تبصرہ لکھیے