ہوم << اخلاص نیت، راستیِ فکر وعمل - مفتی منیب الرحمن

اخلاص نیت، راستیِ فکر وعمل - مفتی منیب الرحمن

مفتی منیب الرحمن انسان کی کامیابی کا مدار تین چیزوں پر ہے: اخلاصِ نیت، جُہد و عمل اور مقاصد و اہداف کا خیر پر مبنی ہونا، یعنی راستیِ فکر و عمل۔ اگر نیت میں فتور ہے تو ساری کاوش عبث ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال پر جزاء کا مدار (حُسنِ) نیت پر ہے اور آدمی کو اپنی نیت ہی کا پھل ملے گا، سو جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کے لیے ہے، تو اس کی ہجرت (یا ترکِ وطن) عند اللہ اسی کے لیے محسوب ہوگی، (صحیح البخاری:1)‘‘۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’حقیقی مہاجر وہ ہے جس نے اللہ کے ممنوعات کو ترک کر دیا ہو، (مسند احمد:6814)‘‘۔
پس اصل انقلاب ذہنی اور فکری انقلاب ہے، ورنہ اخلاصِ نیت، مقصد کی درستی اور فکر کی راستی کے بغیر کوئی تبدیلی انقلاب نہیں ہے، بلکہ فساد ہے اور فساد کے بطن سے فساد ہی جنم لیتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں یعنی نیتوں اور تمہارے اعمال (کی راستی)کو دیکھتا ہے، (صحیح مسلم:2564)‘‘۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فکر کی کجی کو زیغ سے تعبیر فرمایا ہے اور اہلِ ایمان کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی:
’’اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں میں کجی نہ ڈال اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بے شک تو بہت عطا فرمانے والا ہے، (آل عمران:8)‘‘۔
قومِ موسیٰ کی اذیت رسانی پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’جب انہوں نے کَج روی اختیار کی ،تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل ٹیڑھے کردیے اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا، (الصف:5)‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ کبھی انسان کی بدنیتی اُس کے اعمال پر اثر انداز ہوتی ہے اور کبھی انسان کے برے اعمال اُس کے دل کو داغ دار کر دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’سو جن کے دلوں میں کجی ہے، وہ فتنہ جوئی کے لیے آیاتِ متشابہات اور اُن کی (باطل )تاویلات کے درپے رہتے ہیں، (آل عمران:7)‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں!بلکہ اُن کے (برے) کرتوتوں نے اُن کے دلوں کو زنگ آلود کردیا ہے، (المطففین:14)‘‘۔
ہمارے ہاں ایک ہنگامہ ہاؤہو جاری ہے، ہر سو شور بپا ہے، سفر جاری ہے مگر سَمت اور منزل کا پتا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
(1): ’’کیا وہ شخص جو منہ کے بل اوندھا چلا جا رہا ہے، وہ زیادہ راست رو ہے یا وہ شخص جو راہِ راست پر درست (سمت میں) جا رہا ہے، (الملک:22)‘‘۔
(2):’’بے شک تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے اُسے جو راہِ (راست) سے بھٹکا ہوا ہے اور وہی ان کو بھی بہتر جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں، (النحل:87)‘‘۔
اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ راست رو لوگوں کو اپنا مُقتدیٰ اور رہنما بنانا چاہیے، جو بھٹکے ہوؤں کو رہنما بنائے گا، وہ بھٹکتا ہی رہے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’جو کوئی راہِ حق پر چلائے ،کیاوہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جسے خود (راہِ)راست سجھائی ہی نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ اسے راہِ (راست) بتادیا جائے، سو تمہاری عقل کو کیا ہوگیا ہے، تم کیسے (ناروا) فیصلے کرتے ہو، (یونس:35)‘‘۔
بعض اوقات پِندارِنفس اور عُجب و اِستِکبار ہدایت کے لیے حجاب بن جاتا ہے۔ یہ برخود راستی ( Self Righteousness) کی نفسانی بیماری ہوتی ہے، جو بعض اوقات مُزمِن (Chronic) مرض کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور لا علاج ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور جب اسے کہاجاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو ،تو پندارِ نفس اسے گناہ پر اکساتا ہے ،(بقرہ:206)‘‘۔
اور فرمایا:
’’پس اپنی پارسائی نہ جتائو، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، (النجم:32)‘‘۔
برخود راستی کی اس نفسانی بیماری کا نقصان یہ ہے کہ انسان اصلاح اور خیر کی کسی آواز پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور کسی مخلصانہ مشورے کو سننے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، بلکہ اُسے اپنی انا کی توہین سمجھتا ہے اور اُس کے اَڑیَل پَن (Stubbornness) میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اِسی کو عربی میں ’’عِنَاد‘‘ کہتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اِسے ان کلمات میں بیان فرمایا:
’’اُن کے دلوں میں بیماری ہے ،سو اللہ نے (اس کے وبال کے طور پر )ان کے مرض میں اضافہ فرمادیا، (البقرہ: 10)‘‘۔
بعض اوقات ایک عمل ظاہری صورت میں بہت اچھا ہے، لیکن اس کے لیے پس پردہ جو نیت کارفرما ہے، وہ بری ہے تو سارا عمل برباد ہوجاتا ہے۔ مسجد بنانے سے زیادہ نیک کام اور کیا ہوسکتا ہے، لیکن منافقینِ مدینہ نے سازشوں کا گڑھ بنانے کے لیے یعنی باطل مقصد کے لیے مسجد بنائی اور رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ اس کا افتتاح فرما دیں تاکہ برکت ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مکرم ﷺ کو اُن کے باطل عزائم سے مطلع فرمایا اور اس مسجد کو جلانے کا حکم دیا، فرمایا:
’’اور وہ لوگ جنہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے، اہل ایمان میں تَفْرِقَہ پیدا کرنے اور جو پہلے ہی اللہ اور اس کے رسول سے مصروفِ جنگ ہیں، اُن کے لیے (سازشوں کا) گڑھ بنانے کی خاطر مسجد بنائی، وہ (یقین دلانے کے لیے) ضرور بالضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا ارادہ نیکی کا تھا اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقینا جھوٹے ہیں، آپ اُس (مسجد) میں بالکل قیام نہ فرمائیں، البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن ہی سے تقوے پر رکھی گئی ہے، اِس بات کی سب سے زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس میں قیام فرمائیں، (کیونکہ) اُس میں ایسے مردانِ (باوفا) ہیں جو نہایت پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ طہارت شِعار لوگوں کو پسند فرماتا ہے، جس شخص نے اپنی عمارت (مسجد) کی بنیاد اللہ کے تقوے اور (اُس کی) رِضا پر رکھی ہے، آیا وہ بہتر ہے یا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایسے گڑھے کے کنارے پر رکھی ہے جو گرا چاہتا ہے، سو وہ اُس سمیت جہنم کی آگ میں گر پڑا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا، (التوبہ:107-110)‘‘۔
وطن عزیز کو بھی کئی مسائل کا سامنا ہے، قیادت کے منصب پر فائز سب عناصر کو برخود راستی کا نفسانی مرض لاحق ہے، اسی کو عُجبِ نفس اور انا پرستی کہتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا بصیرت اور سَمت سے عاری نوآموز اور ناپختہ عناصر کے تجربات اور نمود کی آماجگاہ بن چکا ہے، اس کے نتیجے میں معاشرے میں مناصب کا احترام باقی رہا نہ شخصیات کا، خواہ وہ کتنے ہی صاحبِ کردار اور صاحبِ علم و فضل کیوں نہ ہوں۔
ہمارے ہاں آئین و قانون کی پاس داری کا حلف تو اٹھایا جاتا ہے، لیکن اس حلف کی پاس داری نہیں کی جاتی۔ کرپشن کی مذمت تو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کی جاتی ہے، لیکن اس کے سدِّباب کے لیے جامع قانون سازی نہیں کی جاتی، جو سب پر یکساں طور پر (Accross the Board) نافذ ہو اور قانون میں جو چور دروازے رکھے جاتے ہیں، انہیں بند کیا جاسکے۔ قانون پارلیمنٹ کی توثیق سے پاس ہوتا ہے، لیکن سارے معاملات پارلیمنٹ سے ماورا طے پاتے ہیں۔ آئین میں ہیئتِ حاکمہ (Establishment) کے ہر ستون کی حدود متعین ہیں، لیکن یہ محض ’’صحیفۂ دستور‘‘ کے صفحات کی زینت کے لیے ہیں، نظام میں برتنے کے لیے نہیں ہیں۔ لہٰذا ان تضادات نے ہمیں اپنوں اور غیروں کی نظر میں بےتوقیر کر دیا ہے۔ سرکاری اراضی میں تجاوُز (Encroachment) تو ہمیشہ سے ہماراطرۂ امتیاز رہا ہے، مگر اداروں کے دائرہ اختیار میں تجاوز کی روایت بھی اتنی ہی قدیم ہے۔
نیتوں کا فیصلہ تو آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہوگا، لیکن ناقابل تردید قرائن و شواہد نیت کی چغلی ضرور کھاتے ہیں۔ ہم اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو ملک و قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے ماسوا سب کا احتساب چاہتے ہیں، جیسے ہم ہی پاک باز وپاک دامن ہیں، باقی سب چور اُچَکّے، لٹیرے اور اُٹھائی گیر ہیں، یہی ہماری سیاست اور یہی ہمارا قومی شعار ہے۔
ابن شماسہ بیان کرتے ہیں: حضرت عمرو بن عاص اپنے مرضِ وفات میں تھے کہ ہم اُن کے پاس حاضر ہوئے، وہ دیر تک روتے رہے اور کہا: جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی رغبت پیدا کی، تو میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا: میں نے عرض کی: اپنا دستِ مبارک بڑھائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں، آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا، تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔آپ ﷺ نے فرمایا: عمرو! کیا ہوا؟، وہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کی: میں قبولِ اسلام کے لیے شرط رکھنا چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: بولو! کیا شرط ہے؟، انہوں نے عرض کی: مجھے (اپنے ماضی پر) بخشش کی ضمانت دی جائے، آپ ﷺ نے فرمایا: عمرو! تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ماضی کے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت پچھلے گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حجِ (مقبول) پچھلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، (صحیح ابن خزیمہ: 2515)‘۔
صحابۂ کرام اخلاصِ نیت اور راستیِ فکر و عمل کے آئینہ دار تھے، اس لیے وہ رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے جو بات سنتے، وہ عین الیقین کے درجے میں اُن کے دل میں جگہ پالیتی اور اُن کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوجاتا، وہ ہماری طرح تشکیک واوہام میں مبتلا نہیں ہوتے تھے۔حضرت حنظلہ تمیمی اُسیدی بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھے، پس آپ نے ہمارے سامنے جنت اور جہنم کا ذکر فرمایا تو ہمیں ایسا لگا کہ جنت اور جہنم ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔ میں وہاں سے اٹھ کر اپنے بیوی بچوں کے پاس گیا اور اُن کے ساتھ ہنسی خوشی میں مشغول ہوگیا ۔پھر اچانک مجھے حضورﷺ کی مجلس کا منظر یاد آیا، میں فوراً نکلا اور حضرت ابوبکر سے ملا۔ میں نے (اپنی کیفیت بیان کر کے) اُن سے عرض کی: میں تو منافق ہوگیا، حضرت ابوبکر نے فرمایا: یہ کیفیت تو ہم پر بھی طاری ہوجاتی ہے۔ وہاں سے حضرت حنظلہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور صورتِ حال بیان کی (یعنی انہیں اس پر اضطراب تھا کہ بارگاہِ نبوت کی کیفیات مستقل کیوں طاری نہیں رہتیں ؟)، رسول اللہ ﷺ نے (انہیں تسلی دیتے ہوئے) فرمایا:حنظلہ ! جو کیفیت تم پر میری مجلس میں طاری ہوتی ہے، اگر یہ مسلسل رہے تو (تمہارا مقام یہ ہوجائے کہ) فرشتے تمہارے بچھونوں پر اور تمہاری راہوں میں تم سے مصافحہ کرنے کے لیے حاضر رہیں، اے حنظلہ!وقت وقت کی بات ہوتی ہے، (سنن ابن ماجہ:4239)‘‘۔
پس اخلاصِ نیت اور صفائے قلب اِسے کہتے ہیں کہ مؤمن کے دل میں صدق و صَفا اور نمود و ریاجمع نہیں ہوتے اور اِسی سے فکر و عمل کی راستی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔