ہوم << تم نے کلاس کا وقت ضائع کیا ہے - ادریس آزاد

تم نے کلاس کا وقت ضائع کیا ہے - ادریس آزاد

ادریس آزاد چند دن پہلے کی بات ہے۔ میں نے اپنے چھوٹے بیٹے کی ایک ویڈیو فیس بک وال پر شیئر کی جس میں بچوں کو فٹبال کھیلنے کے ساتھ ساتھ سائنسی تجربات کرنے کی انسپائریشن دی گئی تھی۔ ویڈیو میں ساتویں جماعت کا طالب علم حسان احمد ایک برقی مقناطیس بنانے کا طریقہ بتا رہا ہے۔ویڈیو کو دوستوں نے پسند کیا اور بچے کو شاباش دی تو بچے میں جوش و خروش بھر گیا۔ مجھ سے کہنے لگا، ’’ابوجی! میں سکول جاکر اپنی کلاس کے سامنے بھی یہ تجربہ پرفارم کروں گا‘‘۔ میں نے بھی اُسی جوش و جذبے کے ساتھ کہا، ’’ہاں! ضرور کرنا‘‘۔
کل جب حسان سکول گیا تو وہ اپنے ساتھ اُس تجربے کا سارا سامان بھی لے کر گیا۔ کلاس میں سائنس ٹیچر حلیم صاحب (جامعہ سکول راولپنڈی) تشریف لائے تو حسان نے اُن سے درخواست کی کہ وہ کلاس کے سامنے ایک تجربہ پرفارم کرنا چاہتا ہے۔ حلیم صاحب نے بادِل نخواستہ اجازت دے دی۔ حسان نے پورے جوش و خروش سے ساری کلاس کے سامنے وہی تجربہ دہرایا۔ جب تجربہ مکمل ہوگیا تو سائنس ٹیچر حلیم صاحب نے بچے کو ڈانٹتے ہوئے کہا، ’’تم نے بلاوجہ کلاس کا وقت ضائع کیا ہے۔ یہ تجربہ تو کتاب میں بھی لکھاہوا ہے اور تصویروں کے ساتھ سمجھایا گیا ہے۔ لہذا کلاس میں اسے پرفارم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ یکایک کلاس میں قہقہہ بلند ہوا اور حسان احمد شدید خجالت کی وجہ سے اتنا دُکھی ہوا کہ وہیں رو پڑا۔ گھر آ کر اُس نے مجھ سے یہ بات چھپا لی۔ اس کا خیال تھا کہ ’’ابو تو اخبار میں کالم لکھ دیں گے جبکہ سکول میں ٹیچر کی دشمنی مجھے بھگتنا ہوگی‘‘۔
آج جب اس کی ماں نے مجھے یہ واقعہ سنایا تو میں ششدر رہ گیا۔ میں نے حسان سے پوچھا، ’’بیٹا! آپ نے مجھے کیوں نہ بتایا؟‘‘ تو حسان نے کہا، ’’ابوجی! آپ ہر بات فیس بک پر لکھ دیتے ہیں یا اخبار میں کالم بنا کر بھیج دیتے ہیں۔ سکول میں ٹیچرز ہمارے ساتھ پکا پکا بَیر پال لیتے ہیں اور پھر ہمیں پورا سال اُن کی نفرت کا سامنا کرنا ہوتا ہے، یہی آپ نے اب تک ہمارے ساتھ کیا ہے۔ میں نے تو اس ڈر سے نہیں بتایا۔ ابوجی! آپ پلیز کالم نہ لکھیےگا‘‘۔ میں نے حسان کی بات سنی تو اور بھی حیرت اور افسوس میں مبتلا ہوگیا۔ کچھ دیر میں خاموش رہا۔ پھر میں نے اپنےسارے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’تم لوگ اگر اس طرح ڈروگے تو بغاوت کب سیکھوگے؟ اگر ٹیچر تمہارے ساتھ دشمنی پالتا ہے تو وہ ٹیچر نہیں ہے۔ تمہارا فرض ہے کہ مجھے برابر بتاتے رہو اور جتنے بھی مضمرات ہیں سب بھگتو! اگر ٹیچر فیل کرتا ہے، مارتا ہے، دشمنی کرتا ہے، وہ اپنے ظرف کے مطابق جو کرتا ہے، تم سہتے جاؤ، ٹیچر کے ساتھ بدتمیزی نہ کرو، نافرمانی اور بےادبی بھی نہ کرو، لیکن کم از کم مجھے تو ایسے ٹیچرز کے خلاف رپورٹ کرنے دو، میں والد ہوں، جو میرا فرض ہے وہ مجھے پورا کرنے دو، جو تمہارا فرض ہے تم پوراکرو.‘‘
میرے سمیت تمام پاکستانی والدین اس المیے سے واقف ہیں اِلّا ایلیٹ کلاس، لیکن پھر ایلیٹ کلاس کی تعلیم تو میرے حساب سے ویسے بھی تعلیم نہیں کچھ اور ہے۔ جس معاشرے کے ساتھ ہمارا واسطہ ہے، وہاں سرکاری اور پرائیویٹ دونوں طرح کے سکولوں میں وہ اندھیر مچا ہوا ہے کہ بقول اکبرالہ آبادی،
یوں قتل میں بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سُوجھی
اقبال کا شعر بھی کسی حد تک اسی نوعیت کا ہی ہے،
گلہ تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا للہ
ہم پہلے بھی یہ باتیں کرتے رہتے ہیں کہ ہرطرف رٹا سسٹم ہے اور ایسا رٹا سسٹم ہے کہ تاریخ ِ انسانی میں موجودہ پاکستانی رٹّے کے مقابلے کا رٹّہ، گزشتہ ستر ہزار سال میں آج تک نہیں گزرا۔ یونیورسٹی کے زینوں پر بیٹھی آخری سال کی طالبات یوں ہِل ہِل کر سبق یاد کرتی نظرآتی ہیں جیسے مسجدوں میں تحفیظ القران کے طلبہ اپنی منزل سنا رہے ہوں یا دیوارِ گریہ کے سامنے یہودی عبادت گزار تلاوت کر رہے ہوں۔ میٹرک میں ہزار سے اُوپر نمبر لینا اب خالہ جی کے گھر جانے سے بھی زیادہ آسان ہو چکا ہے۔ جتنا ڈفر بچہ اُتنا اچھا رٹّہ، جتنا اچھا رٹّہ، اُتنے زیادہ نمبر۔ دراصل موجودہ جنریشن کے تمام تر اساتذہ خود رٹّا مار کر یہاں تک پہنچے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بچے کو کچھ سمجھانے کے اہل ہی نہیں ہیں۔ جب خود کو کچھ نہ آتاہو تو کسی کو کیا سمجھایا جاسکتا ہے۔ اور خود کو کچھ اس لیے نہیں آتا کہ اپنے وقت میں یہ اساتذۂ کرام بھی خوب رٹّہ ماسٹر رہے ہیں۔
بچے رٹّہ کیوں نہ لگائیں؟ سکولوں میں اساتذہ حرف بحرف وہی چیک کرتے ہیں جو کتاب میں لکھا ہوا ہو۔ اگر ذرا سی زیر زبر اِدھر اُدھر ہوگئی تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ آپ کو مناسب مارکس ملیں۔ میرا سب سے بڑا بیٹا جو اب ہمارے پاس نہیں ہے۔ اللہ کے پاس ہے ،
زمیں پر تھا تو وہ تھا باپ کا چاند
وہاں جاکر ستارہ بن گیا ہے
خیر! تو کاشی جب میٹرک میں پہنچا تو مسئلہ پیدا ہوگیا۔ میں اسے خود پڑھاتا تھا اور ایک ایک کنسیپٹ کلیئر کر دیتا تھا سو وہ میرے کہے بغیر ہی ہمیشہ ٹیسٹ میں اپنے فہم کے مطابق لکھ آتا تھا۔ ہر بار اس کو زیرو بٹہ دس یا زیرو بٹہ بیس ملتے تھے اور ہر بار وہ ویسا ہی کرتا تھا جیسا اُسے ٹھیک لگتا تھا۔ کافی عرصہ جب اِسی طرح گزر گیا تو ایک دن سکول کے پرنسپل نے مجھے بلوا بھیجا۔ میں گیا۔ فرمانے لگے،’’آپ کا بیٹا مسلسل زیرو مارکس لے رہاہے۔ یہ ایک لائق بچہ تھا۔ اسے کیا ہوگیا ہے؟‘‘۔ میں چونکہ پل پل کی خبر رکھتا تھا اور وہ میری ہی آشیر واد سے ’’اپنےفہم‘‘ والا سبق لکھ آتا تھا چنانچہ میں نے پرنسپل صاحب سے عرض کی، ’’سر! آپ بچے کے ٹیسٹس دوبارہ چیک کروائیں۔ لیکن کسی ایسے بندے سے چیک کروائیں جو تھوڑی بہت سائنس جانتاہو‘‘۔ وہ میری بات سے حیران ہوئے اور قدرے خفا بھی۔ معاً انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ ادریس کو شرمندہ کیا جائے؟ چنانچہ انہوں نے، کسی سرکاری سکول کے ایک ماہر سائنس ٹیچر کو بلوا لیا۔ میں نے نئے ٹیچر سے عرض کی، ’’سر! میرا شک ہے کہ میرے بیٹے نے اپنی سمجھ کے مطابق کانسیپٹس کو اپنی انگلش میں لکھا ہے۔ اگر آپ اس نکتہ سے چیک کریں تو آسانی رہے گی‘‘۔ انہوں نے مجھے پُرشوق نظروں سے مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا، ’’اچھا؟؟؟ پھر تو ضرور توجہ سے دیکھتا ہوں‘‘ قصہ مختصر، انہوں نے کاشی کےگزشتہ تمام ٹیسٹس کے مارکس زیرو سے ہٹا کر دس بٹہ دس اور بیس بٹہ بیس کردیے اور بچے کو بےپناہ شاباش دی‘‘۔ کاشی ایک سائنس دان بچہ تھا۔ اس کی لوحِ مزار پر بھی،’’ نوعمر شاعر اور سائنس دان قاسم رضا‘‘کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔
میری بچی بھی جامعہ سکول کی طالبہ ہے اور اب اس کے ساتھ یہی کاشی والا معاملہ چل رہا ہے۔ پہلے میٹرک کے دو سال اس نے مسلسل وہی لکھا جو اس کو سمجھ آیا اور مسلسل زیرو بٹہ دس اور زیرو بٹہ بیس لیے۔ لیکن میری ہدایت پر ہالہ نے ایک بار بھی رٹہ نہ مارا۔ یہاں تک کہ اس کی کلاس ٹیچر بچی کو پہچان گئی۔ کلاس ٹیچر کے پاس آرٹس کا مضمون تھا سو کلاس ٹیچر نے پیار سے سمجھایا،’’بیٹا! گھبراؤ مت! مجھے یقین ہے تم اچھے مارکس لوگی۔ سائنس ٹیچرز کو کرنے دو جو وہ چاہتے ہیں، تم اپنے طریقے پر پڑھائی جاری رکھو! پوری کلاس میں صرف یہی ایک بچی تھی جو سب سے کم مارکس لیتی تھی، ہرٹیسٹس میں۔ ایک لحاظ سے گویا میری بیٹی کلاس کی نالائق ترین اور آخری نمبر کی بچی تھی۔ لیکن میٹرک کے رزلٹ میں ہالہ نے 929 مارکس لیے اور واللہ میں دل سے چاہتا تھا کہ وہ ہزار سے زیادہ نمبر نہ لے، کیونکہ ہزار سے اُوپر نمبروں والے بچوں کے ساتھ میرا روز کا واسطہ ہے، اور میں اب اس پوری کمیونٹی کو ہی کسی اور نظر سے، کسی اور نوع کے طور پر دیکھنے لگ گیا ہوں۔ اب ہالہ فرسٹ ائیر میں آئی ہے تو پہلے سے بھی برا حال ہے۔ فزکس حرف بحرف رٹہ، کیمسٹری حرف بحرف رٹہ، یہاں تک کہ میتھ حرف بحرف رٹہ۔ خدا کی پناہ۔ لیکن الحمدللہ ہالہ اب بھی زیرو بٹہ دس اور زیرو بٹہ بیس ہی لے رہی ہے اور یہی حال رہا تو ان شااللہ آگے بھی لیتی رہے گی۔
جب میرے بچے سکول میں خفت کا شکار ہوتے ہیں اور مجھے آکر کہتے ہیں کہ ’’ابوجی! اگر رٹہ لگا کر لکھ آئیں تو کم ازکم کلاس میں عزت تو بن جائے گی۔ اب تو ہم نالائق بچے ہیں۔‘‘ تو میں جواب میں انہیں نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کا ایک واقعہ سناتا ہوں،
کہتے ہیں کہ امیرمحمد خان جب آکسفورڈ یونیورسٹی گئے، اعلیٰ تعلیم کے لیے تو انہوں نے اپنا مخصوصی ثقافتی لباس یعنی اُونچے شملے والی پگڑی اور شلوار قمیص پہننا نہ چھوڑا۔ کلاس میں ایسا لباس پہننے پر انہیں ہربار جرمانہ ہوتا رہا اور وہ مسلسل دوتین سال جرمانہ بھرتے رہے لیکن اپنی پسند کا لباس پہننا ترک نہ کیا۔ اس واقعہ پر بہت سے لوگوں کو اعتراض ہو سکتا ہے لیکن میں اس میں امیر محمد خان کا فقط استقلال بچوں کے سامنے رکھنا چاہ رہا ہوتا ہوں۔ جبکہ میرا مدعا اور ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ ’’تم مسلسل وہی لکھو، جو ہم گھر میں سمجھتے ہیں‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں سے میری مراد ہے اُن کے ساتھ مل کر جب میں بھی وہی چیزیں پڑھنے اور سمجھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ ہم یوٹیوب استعمال کر لیتے ہیں۔ ویڈیوز سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، غرض اپنا دماغ لڑا کر جب کتاب میں بتائی گئی باتوں کو ہم باپ بیٹے/بیٹی مل کر سیکھتے ہیں تو بچوں کو اصل بات کا پتہ چل جاتا ہے کہ فرض کریں، مومینٹیم ہوتا کیا ہے؟ یہ ہے کیا بلا؟ وغیرہ وغیرہ
میں بہت شرمندہ ہوں کہ میں ایسی قوم کا فرد ہوں جہاں سب سے برا حال تعلیم اور صحت کا ہے اور میں کچھ بھی نہیں کر پا رہا۔ ماسوائے اس کے کہ جب اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو ذاتی قسم کا فیس بک سٹیٹس لگا دیتا ہوں یا اپنے پیارے بھائی جناب علی اصغرعباس کی وساطت سےروزنامہ دن کا کالم بنا دیتا ہوں۔
کاش اس قوم کو کوئی ایسا لیڈر میسر آئے جو سب سے پہلے تعلیم کی طرف توجہ دے اور کماحقہُ توجہ دے۔ جس قوم کے بچے کوئی ایک بات بھی سمجھے بغیر بڑے بڑے عہدوں تک رسائی حاصل کرتے جا رہے ہیں، وہ قوم آنے والے عشروں میں مزید بگڑنے والی ہے نہ کہ بننے والی۔ صدیاں ہوگئیں پاکستان سے کوئی ایک تھیسز نہیں آیا کام کا۔ جب پنجاب یونیورسٹی شعبہ فلسفہ کے سابق چیئرمین جناب حفیظ فاضلی صاحب کے اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسز کا عنوان مجھے معلوم ہوا تھا تو میرے منہ سے بےساختہ نکلا تھا،
’’جو قوم قرآن کی آیات اب تک نہیں گن پائی، وہ قرآن کو سمجھ کیسے سکتی ہے؟‘‘
کیونکہ فاضلی صاحب کا پی ایچ ڈی کا تھیسز اور وہ بھی فلسفہ میں، یہ ہے کہ،
قران ِ پاک کی آیات کی تعداد چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ نہیں بلکہ چھ ہزار دو سو چھبیس ہے۔ بس بات ختم۔گویا گنتی پر تھیسز۔ ایک دو تین چار پانچ چھ سات آٹھ نو دس گیارہ بارہ۔۔۔ اور آخر میں جب آپ مطلوبہ چیز گن لیں تو ایچ ای سی کی طرف سے آپ کو پہلے پی ایچ ڈی کی ڈگری مل جائے گی اور پھر آپ ایک بڑی یونیورسٹی کے ایک بڑے شعبہ کے سربراہ بھی بن جائیں گے۔ علامہ اقبال یونیورسٹی کی ایم فل اردو کی ایک کلاس دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ نناوے فیصد طلبہ کا علمی معیار پرائمری سطح کی تعلیم سے کہیں نیچے تھا۔ میں لِٹْرَلی کلاس سے باہر آ کر روپڑا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے گزشتہ چالیس سالوں میں لاکھوں ٹیچرز تیار کیے ہیں جو سب کے سب کلیۃً ڈفر اور نہایت نالائق کمیونٹی ہے۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ جب سے’’ ٹیچر‘‘ کو ’’سرمایہ دارانہ نظام کے مارے‘‘ مغرب نے ایک پیشہ بنایا، انسانیت کا یہ عظیم ادارہ تباہ ہوگیا۔ ارسطو جب ٹیچر تھا تو سلطنت کے سب سے بڑے عہدے یعنی سربراہِ مملکت سے بھی بڑے عہدے پر ٹیچر فائز ہوا کرتا تھا ۔ جب ایسا ہوتا تھا تو سربراہِ مملکت بھی سکندرِ اعظم کہلاتا تھا۔ لیکن جب سے ٹیچر کو گھٹیا اور بازاری کام پہ لگا دیا گیا ہے یعنی ٹیچر کی روٹی کو تدریس کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے تب سے لے کر آج تک روئے زمین پر ایک بہت بڑا ہیومین رائٹ وائیلیشن ہو رہا ہے۔ اور وہ وائیلیشن ہے سکولوں کا وجود، کالجوں کا وجود اور یونیورسٹیوں کا وجود۔ مغربی ممالک کی رپورٹس بھی کچھ زیادہ خوش کن نہیں ہیں۔ نیوٹن کی میکانیکس جب تک مشینیں چلا رہی ہے، سرمایہ دار کو کسی اور طرح کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا بھر کی تعلیم کا واحد مقصد گزشتہ تین چار صدیوں سے فقط سامراج کی سیوا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ باقی باتیں کچھ دیر بعد۔
بہرحال۔ پاکستانی وزراتِ تعلیم زندہ باد، شہباز شریف زندہ باد، ایچ ای سی زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد
حسان احمد جو جامعہ سکول میں سیونتھ کلاس کا سٹوڈنٹ ہے اور ’’گلیڈی ایٹرز فٹبال کلب‘‘ (GFC) کا رائٹ فارورڈ پوزیشن پر کھیلنے والا کھلاڑی ہے، خاصا سائنس پسند بچہ واقع ہوا ہے۔ اُس کے تجربے کی ویڈیو جس کا اوپر تحریر میں ذکر ہوا ہے.