ایٹمی دہشت گردی کو روکنے اور جوہری مواد کو محفوظ بنانے کیلئے ہالینڈ کے دارالحکومت ہیگ میں پاکستان کی سربراہی میں دو روزہ کانفرنس مارچ 2014ء میں کا انعقاد ہوا تھا، کانفرنس کی صدارت پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے کی۔ اس کانفرنس میں53 ممالک کے صدور اور وفود نے شرکت کی تھی۔ کانفرنس کے دوران بارہ ممالک نے اعلان کیا کہ وہ سب سے زیادہ افزودہ یورنیم کو اپنی سرحدوں کے اندر ہی ختم کردیں گے، جبکہ جاپان نے اعلان کیا کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے میں استعمال ہونے والا پلوٹونیم امریکہ کو فروخت کرے گا۔ اس وقت دنیا میں 9 ایسے ممالک ہیں جن کے پاس چھوٹے یا بڑے پیمانے پر ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ یہ ممالک امریکہ، روس، چین، فرانس، اسرائیل، پاکستان، ہندوستان، ایران اور کوریا ہیں۔ صرف 2011ء میں ان ممالک نے ایٹمی پروگراموں پر ایک سو پانچ ارب ڈالر صرف کیے جو تقریبا ایک کروڑ 20لاکھ ڈالر فی گھنٹہ بنتے ہیں۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق اس کے ذریعے پوری دنیا سے غربت کا 2بار خاتمہ کیا جاسکتا ہے ۔ہندوستان میں اس وقت 86 کروڑ انسان 25 روپے یومیہ کی آمدن پر زندہ ہیں۔ برصغیر جنوب ایشیا کی آبادی ، دنیا کل آبادی کا بائیس فیصد ہے جبکہ اس خطے میں دنیا کی اکتالیس فیصد غربت میں پلتی ہے ۔
2016 میں امریکہ میں ہونے والی جوہری سلامتی کانفرنس میں وزیر اعظم پاکستان نے سانحہ لاہور میں بم دھماکوں میں ہلاکتوں کے سبب اپنے دورہ منسوخ کرکے طارق فاطمی کو پاکستان کی نمائندگی بھیج دیا تھا۔دو روزہ اشنگٹن میں دو روزہ جوہری سلامتی کانفرنس میں امریکی صدر باراک اوباما نے عالمی رہنمائوں پر زور دیا کہ جوہری ہتھیار اور تابکار مواد کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے روکنے کے لیے تمام ممالک کو مشترکہ اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ کانفرنس کے موقع پر سکھ برادری نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف مظاہرہ بھی کیا۔جوہری سلامتی کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب میں صدر اوباما نے کہا کہ دہشت گردوں کو ایٹمی مواد کے حصول سے روکنے کے لیے مزید عالمی اقدامات کی ضرورت ہے۔ صدر باراک اوباما نے عالمی رہنمائوں پر زور دیا کہ وہ جوہری ہتھیاروں یا تابکار مواد داعش جیسے ’ پاگل گروپ‘ کے ہاتھوں جوہری تنصیبات کے حفاطتی انتظامات میں اضافہ کریں۔ذرائع کے مطابقپاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں اس وقت 30ہزار سے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں ۔ خان ریسرچ لیبارٹرز سمیت ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے دوسرے کئی ادارے اس کے علاوہ ہیںجبکہ پاکستان میں صرف دو فیصد بجلی ایٹمی توانائی سے حاصل کی جارہی ہے مختلف محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان اب تک90 سے110 ایٹمی ہتھیار تیار کرچکا ہے جبکہ بھارت کے پاس 80سے 100ایٹم بم موجود ہیں۔ اگر دونوںممالک کے ایٹمی پروگراموں کی بڑھوتی کا جائزہ لیا جائے تو 2021ء تک پاکستان کے پاس 200جبکہ ہندوستان کے پاس150ایٹم بم ہونگے۔ 1940ء کے پہلے نصف حصے میں امریکہ نے دو ارب ڈالرکی لاگت سے ایٹم بم تیار کیا تھا ،۔دنیا کے پہلے ایٹم بم کے لئے یو رنیم کی افزودگی پر امریکہ میں بجلی کی کل پیداوار کا دس فیصد صرف ہوا تھا ۔
15مئی 2011ء کو جنرل (ر) پرویز مشرف نے نیوز ویک کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ" پاکستان کے18000فوجی اہلکار صرف ایٹمی تنصیبات کی حفاظت پر معمور ہیں"۔ اگر صرف حفاظتی انتظامات کے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ چھ کروڑ ڈالرسالانہ بنتے ہیں ۔ گلوبل سیکورٹی نیوز وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق" پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اب تک دو سو ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ ہوچکی ہے ، جبکہ سالانہ2.5ارب ڈالر مزید خرچ کئے جا رہے ہیں" ۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے پاکستان کا بیرونی قرضہ چار با اتارا جا سکتا تھا۔ایٹم بم جدید میزائل ٹیکنالوجی کے بغیر بے کار ہے لہذا دور مار بلیسٹک اور کروز میزائلوں کی تیاری پر بھی کھربوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں ۔ اور یہ سب دوسری جانب ہندوستانی ریاست کے جنون اور وحشت کی وجہ سے برابر بڑھ رہی ہے۔مئی 2013ء میں شائع ہونے والی ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطا بق پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی انتہائی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔2011ء میں آغا خان یونیورسٹی کے اشتراک سے اقوام متحدہ کے ادادرے یونیسف نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے ۔ جس کے مطابق غذائی قلت کی وجہ سے پاکستان کے چوالیس فیصد بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما نامکمل ) Stunted Growth (ہے۔آنے والے پندرہ سالوں میں ان بچوں کا قد نارمل بچوں سے چھوٹا ہوگا۔سوال یہ ہے کہ ہم سب کیا کر رہے ہیں۔
پاکستان و بھارت کا ایٹمی پروگرام عوام کو بھوک اور محرومی سے نجات نہیں دلا سکتا ۔ نہ ان کو علاج ، تعلیم ، روزگار، بجلی ، پانی اور دوسری بنیادی ضروریات فراہم کرسکتا ہے ۔کیا یہ حکمرانوں کیلئے پر منفعت پروجیکٹ ہے ؟۔ جس میں عوام کے تحفظ کے نام پر اربوں روپوں کا بوجھ غریب عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے اور حکمرانواں کی تجوریاں مزید برھتی چلی جاتیں ہیں۔ ہم اگر یہ فرض بھی کرلیں کہ اگر لاہور پر ایٹم بم گرے تو امرتسر اور دہلی بھی تباہ ہوجائیں گے، اگر ممبئی پر گرائے جائیگا تو کراچی اور حیدرآباد بھی اس کی زد میں آئیں گے، دونوں ممالک کی عوام تابکاری کے اثرات سے کئی نسلوں تک اپائج بچے پیداہوتے رہے گے ۔تابکاروں کے اثرات سے کئی نسلیں سوائے تباہی کے کچھ حاصل نہیں کرسکیں گی تو پھر ایسے ایٹم بموںکا کیا فائدہ ہے جیسے چلنا ہی نہیں ہے ، پھر ان کے بنانے کا مقصد کیا ہے ؟۔بظاہر مقصد صرف ایک ہی ہے کہ کاروبار تو آخر کاروبار ہے، چاہے سیاست ہو یا ایٹم بم کے نام پر۔ سرمایہ داری میں آزادی ، منڈی اور بیو پاری کی ہوتی ہے ۔ انسان کی نہیں۔ہمیں اس فریب نظر سے باہر نکل آنا چاہیے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے سبب کوئی ہماری جانب میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔ میلی آنکھ تو کیا ، دشمنان ِپاکستان نے تو مملکت کا وہ حال کردیا ہے کہ ایٹمی طاقت کہلانے میں بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ کشکول لئے "ایٹمی طاقت" بھیک مانگتی رہتی ہے۔ دفاعی اداروں میں چار افراد گھس جاتے ہیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچا جاتے ہیں۔ امریکی ہیلی کاپٹر پاکستان میں دندناتے پھرتے ہیں ریڈار ، ڈش انٹینا کی طرح گھومتے رہتے ہیں۔ڈرون حملے روکنے کیلئے اہلیت نہیں ، معمولی ، کیڑے مکوڑے ، نائن ایم ایم کی پستولیں لیکر دن دیہاڑے معصوم انسانوں کو بم دہماکوں سے اڑاتے ، ٹارگٹ کلنگ کرتے نظر آتے ہیں اور ایٹمی طاقت کی حامل مملکت ، بے بسی کی تصویر نظر آتی ہے۔افغانستان پر تسلط کیلئے بیرونی طاقتوں نے پاکستان میں سازشوں کا جال بُنا ہو اہے۔جدید تاریخ گریٹ گیمز کی خوں ریزی اور بربادیوں کی المناک داستان عبرت بنی ہوئی ہے۔سامراجی قوتیں پاکستان ، افغانستان کی معدنی دولت اور جغرافیائی اہمیت کے مد نظر اپنا غلبہ بر قرار رکھنے کی تگ و دو میں خون کی کھیل اور کھلوار رہی ہیں۔
برطانوی جارح ٹی ای لارنس کے ایک مرتبہ لکھا تھا م"سرکشیوں کے خلاف جنگ ۔ چاقو سے شوربا پینے جا نا گھمبیر اور سست رفتار عمل ہوتا ہے "ْپاکستان میں بنیاد پرست اور سفاک آمریت اور کرپٹ جمہوریت نے اپنے امریکی اور بیرونی آقائوں کا نمک خوب حلال کیا اور مذہبی جنونیت کو پروان چڑھایا اور یہی حال بھارت میں ہے جہاں ہندو ازم میں تشدد اور جارحیت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ علیحدگی پسند تحریکیوں کا سر کچلنے کیلئے معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔یہ سب عوام کی محنت و مشقت سے کمائی جانے والی دولت کو ایسے پروگراموں میں وقف کرنے کے سبب ہوا جس سے انسانیت کو سوائے تباہی کے کچھ نہیں مل رہا ۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی کے اربوں ڈالر ، ہاتھی کو گنے کھلانا جیسے ہیں ،جس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ بھارت کی جنگی عزائم نے جہاں اپنی عوام کے لئے عبرت ناک منصوبے پیدا کئے تو پاکستان نے بھی دفاع کے نام پر مفلسی کے کچکول میں چند سکے پانے کیلئے اپنی چادر سے پائوں آگے بڑھائے ،اور عوام سوکھے ہونٹوں پر مسکرانے کے کچھ نہ کرسکی۔کیونکہ اس کے علاوہ وہ اور کچھ کر بھی نہیں کرسکتی ، کولہو کی بیل کی طرح کنوئیں کے گرد آنکھوں پر کپڑا ڈال کر خوش ہوتے رہو کہ منزل قریب آرہی ہے۔طاقت ور بننے کیلئے پہلے عوام کو طاقتور بنانا ضروری ہے ، اگر کمزور اور لاغر قوم کے ساتھ کسی جارح و طاقتور کا مقابلہ کیا جائے گا تو بھوک سے بلکتے بچوں کے ہاتھ ہتھیار نہیں بلکہ روٹی مانگیں گے اور افلاس کے ماری عوام گدھ کی طرح مردار کھانے کیلئے اپنے ہی بھائی کی موت کا انتظار کرے گی ، پاک ، ہند میں جنگیں صرف استعماری قوتوں کیلئے پر منعفت رہیں ، انھیں اسلحہ فروختگی سے کھربوں ڈالرز کی آمدنی ہوئی لیکن ان ممالک کی عوام کو کیا ملا ، بدا منی ، ڈر ، بھوک ، افلاس ، دہشت گردی ، بے یقینی اور ترقی کے پائیدار مستقبل سے محرومی ۔۔اس سے تو اچھا ہے کہ عوام کو سسک سسک کر مرتے ہوئے دن گننے پڑیں ،نامعلوم دشمن کے ان دیکھے خوف زدہ زندگی سے بہتر ہے کہ عوام کے ساتھ ایک بھلائی و نیکی کر دی جائے کہ ایٹم بم کو عوام پر ہی گرا دیا جائے کچھ تو غریب کم ہوں گے ۔۔
تبصرہ لکھیے