بات کا آغاز اس سوال سے کرتے ہیں کہ ایک فوجی آمر اور ایک جمہوری رہنما میں اساسی فرق کیا ہے؟
اس کا فوری جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ ایک غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر آتا ہے جبکہ دوسرا آئین کے بتائےگئے طریق کار سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتا ہے، ایک کی قوت کا منبع بندوق ہے جبکہ دوسرا ووٹ کی طاقت سے حکمرانی کا جواز حاصل کرتا ہے، اور یہی ان دونوں میں اساسی فرق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مفروضہ معاملات کی سطحی تفہیم کا نتیجہ ہے۔ جب کسی بڑے مسئلے کا ایک جزو الگ کر کے دیکھا جائے تو ذہن غلط نتائج اخذ کرتا ہے۔
فوجی حکمران اپنے اقتدار کا آغاز بندوق کی نوک پر کرتا ہے لیکن جلد ہی اس کے اقدام کو عدالتیں جواز بخش دیتی ہیں۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عدالتوں کے جج اس کے اپنے منتخب کردہ لوگ ہوتے ہیں تو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ کچھ عرصہ بعد اس کے تمام تر اقدامات پر پارلیمنٹ بھی مہر تصدیق ثبت کر کے انہیں قانونی جواز فراہم کر دیتی ہے۔
پوری دنیا میں ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جن کا اطلاق ماضی پر ہوتا ہو۔ اسی روایت کے مطابق ہماری منتخب شدہ اسمبلیاں ہر فوجی حکمران کے غیر آئینی اقدام کو قانونی جواز بخشتی رہی ہیں۔ اب انہیں جعلی قرار مت دیجیے کیونکہ جن افراد پر مشتمل قومی اسمبلی نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کو قانونی جواز فراہم کیا تھا، کم و بیش وہی لوگ آج کی پارلیمنٹ کا بھی حصہ ہیں۔ اسی طرح سیاسی جماعتیں آج بھی وہی ہیں جو پرویز مشرف کے دور کی پارلیمنٹ میں موجود تھیں۔
ہو سکتا ہے کہ آپ فوجی حکمرانوں کے دور میں منعقد ہونے والے انتخابات کو مشکوک قرار دے دیں۔ ٹھیک بات ہے۔ مجھے اتفاق ہے مگر پھر جمہوری حکمرانوں کے دور میں ہونے والے انتخابات بھی اسی طرح ہی مشکوک ہیں۔ 2013ء میں ہونے والے انتخابات میں جن حلقوں کے تھیلے کھولے گئے ہیں وہاں سے بدترین گھپلوں کی دیمک ہی باہر نکلی ہے۔ اس لیے پرویز مشرف کے دور والی پارلیمنٹ ہو یا نواز شریف کو منتخب کرنے والی اسمبلی، دونوں کا قانونی جواز ایک ہی جیسا مشکوک یا مضبوط ہے۔
ہم اپنے سوال کی طرف واپس آتے ہیں کہ سویلین اور فوجی حکمرانوں میں اساسی فرق کیا ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں میں ایک ہی فرق ہے اور وہ ہے فوج کے ادارے پر اختیار کا ہونا یا نہ ہونا۔ فوجی حکمران ایک ایسا سیاست دان ہے جسے فوج کے ادارے پر مکمل اختیار حاصل ہو جبکہ ایک سویلین حکمران ایک ایسا سیاست دان ہے جو فوج کے منہ زور گھوڑے پر کاٹھی نہیں ڈال سکتا۔
فوجی حکمران اس طاقتور ادارے پر گرفت کی وجہ سے اپنے عرصہ اقتدار کو طول دینے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے وہ ریاست کے تمام اداروں کو اپنی آہنی گرفت میں لے کر بےبس کر دیتا ہے۔ وہ سپریم کورٹ سے بھی اپنی بات منوا لیتا ہے کیونکہ اس کے پاس بندوق کی طاقت ہے۔ وہ تمام ریاستی اداروں کو اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے استعمال کرتا ہے۔ وہ جب چاہے میڈیا کا گلہ گھونٹ دیتا ہے، بیوروکریسی کو بھی اپنے اشاروں پر نچاتا ہے۔ گویا تمام ادارے ریاست کے بجائے اس کی خدمت پر معمور ہوتے ہیں۔
لیکن ایک منٹ کے لیے ٹھہریے۔ کیا ہمارے دانشور دن رات یہ واویلا نہیں مچائے رکھتے کہ سویلین حکمرانوں کو فوج پر مکمل اختیار حاصل ہونا چاہیے؟ اگر ان کی یہ تمنا پوری ہو جائے اور ایک فوجی اور سویلین حکمران میں موجود بنیادی فرق مٹ جائے تو کیا ہم اپنی تاریخ کا پہلا سویلین ڈکٹیٹر نہیں دیکھیں گے؟
تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ نواز شریف کو فوج پر وہی اختیار حاصل ہو جاتا ہے جو پرویز مشرف کو حاصل تھا تو اس کا کیا نتیجہ نکلےگا؟ یقین کریں کہ حسنی مبارک سے بھی زیادہ بڑا ڈکٹیٹر نمودار ہوگا۔ جن پرائیویٹ چینلز کو مشرف دور میں لائسنس ملے تھے، وہ نواز شریف صاحب کے دور میں یا تو حکومت کے قصیدے پڑھتے نظر آئیں گے یا پھر ان کا لائسنس ختم کر دیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کا جج کوئی گلو بٹ ہوگا اور بیوروکریسی مکمل طور پر اپنی آزادی و خودمختار کھو بیٹھے گی۔ امیرالمؤمنین بننے کا شوق چوکڑیاں بھرتے ان کے دل کی چراگاہ سے نمودار ہوگا اور اس دفعہ اسے روکنے والا کوئی نہیں ہو گا۔
حکمران ملکی سطح پر رسہ گیری کریں گے اور پولیس کا محکمہ ان کے پالتو غنڈوں کا کردار ادا کرے گا۔ فوج کا ادارہ ایسے تباہ ہوگا کہ ملک کو شام اور لیبیا جیسے حالات سے بچانے کے قابل ہی نہیں رہےگا۔ حکمرانوں اور ان کے کاسہ لیسوں کے کاروبار پوری دنیا میں پھیل جائیں گے اور سب سے بڑا لمیہ یہ ہو گا کہ یہاں انتخابات اسی طرح منعقد ہوں گے جس طرح ضیاءالحق اور پرویز مشرف کے ریفرنڈم ہوئے تھے۔ ہر دفعہ حکمران 99 فی صد ووٹ لے کر منتخب ہوگا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری گتھی کا کیا حل ہے؟ اصل میں خرابی کی جڑیں اس سوچ میں پیوستہ ہیں کہ جس قسم کی جمہوریت الیکشن کی صبح جنم لے، اگلے پانچ سال پوری قوم اس کی تمام تر من مانیاں برداشت کرے۔ حکمرانی کے قانونی جواز کا ڈھنڈورا اس قدر شدت سے پیٹا جاتا ہے کہ جمہوریت کے دیگر لوازمات نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انتخابات جمہوریت کا صرف ایک پہلو ہیں۔ اداروں کی خودمختاری اس سے زیادہ اہم ہے۔ اصولی طور پر اداروں کو ریاست کے لیے کام کرنا چاہیے نہ کہ حکومت کے لیے۔ سٹیٹ بنک ہو یا بیوروکریسی، عدلیہ ہو یا احتساب کے ادارے، ان تمام کو حکمرانوں کے دست برد سے محفوظ رہنا چاہیے۔ جو سویلین حکومت اداروں کی مضبوطی کو اپنا مشن بنا لے گی، جس کے دور میں میرٹ پر لوگوں کی تقرریاں ہوں گی، وزیراعظم پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوگا اور اس بات کو یقینی بنائےگا کہ سیاست دان کسی افسر کا تبادلہ نہ کرا سکیں اور عدلیہ مکمل طور پر خود مختار ہوگی، ایسی حکومت ہی اس بات کی حقدار ہو گی کہ فوج کا ادارہ اس کی بالادستی قبول کر لے۔ چونکہ یہ بات یقینی ہوگی کہ وزیر اعظم میرٹ کا قتل عام نہیں کرے گا، اس لیے فوج سمیت تمام اداروں کو سویلین حکومت کی بالادستی قبول کرنا پڑے گی۔
جو لوگ دن رات فوج پر سویلین بالادستی کا راگ الاپتے رہتے ہیں، انہیں اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے۔
تبصرہ لکھیے