ہوم << مثبت سوچ اور کامیابی - عثمان عابد

مثبت سوچ اور کامیابی - عثمان عابد

عثمان عابد زندگی کو پر مسرت اور خوشگوار بنانے کا فن صدیوں سے موجود ہے ۔ ہر مذہب نے زندہ رہنے کے اصول سکھائے ہیں ۔ خواہ دانشور ہوں یا ماہرین نفسیات، سب نے اس کی اہمیت کا پرچار کیا ہے۔ Psycology کے ماہرین کے مطابق انسان کی شخصیت اُس کی سوچ کا عکس ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسان اپنے ذہنی نقوش کی زندہ تصویر ہوتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے خیالات اور اپنے ارادوں کا عکس ہوتے ہیں۔ ہمارے خیالات ہمارے کردار کی تعمیر کرتے ہیں۔ ہم ارادی طور پر یا غیرارادی طور پر جو کچھ سوچتے ہیں، وہ ہماری شخصیت اور زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اگر ہمارے خیالات منفی نوعیت کے ہیں تو ہماری زندگی منفی اثرات کا عکس ہو گی اور ہمارے ہر عمل سے Negativity جھلکے گی۔ اس کے بر عکس اگر ہمارے خیالات مثبت نوعیت کے ہوں گے تو ہماری زندگی مثبت اثرات کا عکس ہو گی اور ہمارے ہر عمل سے Positivity جھلکے گی۔
آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں انسان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے انسان تو میری بنائی ہوئی چیزوں پر غور کیوں نہیں کرتا؟ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات پر غور کریں تو ہمیں آفاقی قوانین دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے انھی آفاقی قوانین کے مطابق چل رہی ہے۔ جو انسان اللہ کی دی ہوئی عقل کو استعمال میں لاتے ہوئے ان قوانین کو تلاش کرتا ہے اور تلاش کرنے کے بعد ان پر عمل کرتا ہے تو وہ کامیاب کہلاتا ہے۔
یہاں ہم صرف ایک قانون پر بات کریں گے اور وہ ہے ’’قانون ثبات‘‘۔ اسے انگریزی میں Law of Consistency کہتے ہیں ۔ قانون ثبات کے اور بھی کئی نام ہیں جیسا کہ قانون مکافات ِ عمل یا قانونِ استحکام، یہ ناقابل تغیر آفاقی قانون ہے۔ جب سے یہ دنیا معرض و جود میں آئی ہے تب سے یہ آفاقی قانون لاگو ہے اور انشا ء اللہ قیامت تک رہے گا۔ ہم جتنی مرضی کوشش کرلیں، اسے تبدیل نہیں کر سکتے یہ قانون فطرت ہے ۔ اس کا بنانے والا قادر مطلق ہے ۔ Law of Consistency اپنی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ اس کائنات میں وقوع پزیر ہو رہا ہے۔ ثبوت چاہیے تو اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیے۔۔۔ثبوت ہر جگہ موجود ہے صرف تلاش کرنے والی آنکھ کی ضرورت ہے۔
قانون ثبات ہے کیا؟ ’’جو بوؤگے وہی کاٹو گے‘‘۔ یہ ہے قانون ثبات! اگر آپ گندم کو زمین میں بوئیں گے تو گندم ہی کاٹیں گے۔ گندم کی جگہ مکئی نہیں اُگے گی۔ اس لیے کہ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے۔ Law of Consistency ہماری زندگی کے ہر شعبے میں کارفرما ہے۔ آئیے اس قانون کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔
اگر آپ اپنے ذہن میں ناکامی کے بیج بوئیں گے تو ناکامی کی فصل اُگے گی ۔ ناکامی کا تصور کبھی بھی کامیابی میں نہیں بدل سکتا ۔ کیونکہ یہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ لیکن اس کے بر عکس اگر آپ کامیابی کا بیج بوئیں گے تو کامیابی کی فصل اُگے گی۔
انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے۔ ہم جس چیز پر اپنی توجہ مرکوز کر تے ہیں۔ وہی چیز ہمارا مقدر بن جاتی ہے۔ آپ نے اپنے ذہن کو ناکامی کے تصور پر مرکوز رکھا اور اس کا عمل یا نتیجہ ناکامی ہی کی شکل میں نکلا۔ اس میں قصور حالات کا نہیں اور نہ ہی آپ کے مقدر کا ہے۔ آپ نے جو کچھ سو چا وہ پورا ہوگیا ۔ قانون ثبات ناکامی کے تصور کو کامیابی کی شکل میں نہیں بدل سکتا ۔ اگر آپ کامیابی کا سوچیں گے تو کامیابی آپ کا مقدر ہوگی۔ اگر آپ دوسروں کی بھلائی کے متعلق سوچیں گے تو دوسرے بھی آپ کا بھلاسوچیں گے ۔ اگر آپ محبت کریں گے تو آپ سے محبت کی جائے گی ۔ یہی Law of Consistency ہے۔ ہماری شخصیت ، ہماری زندگی دراصل ہمارے تصورات کا عکس ہوتی ہے۔ ہماری کامیابیوں یا ناکامیوں کا دارو مدار ہمارے تصورات ، ہمارے خیالات اور ہماری سوچ پر ہوتا ہے۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ:۔
’’ہمارے اعمال کا دارومدار ہماری نیتوں (سوچ) پر ہے‘‘۔
میرا خیال ہے کہ اب آپ اس اصول کو بخوبی سمجھ گئے ہوںگے ۔ لہذا آپ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کا پختہ ارادہ کرلیں ۔ آپ کا Sub-Concious mind (تحت الشعور ) آپ کیلئے اسباب مہیا کرئے گا۔ اور آپ کامیاب ہو جائیں گے ۔ Sub-Concious mind ہے کیا اور یہ ہماری زندگی کو کیسے کنٹرول کرتا ہے؟ ان شاء اللہ یہ کسی اورتحریر میں گوش گزار کروں گا۔
اللہ مجھے اور آپ کو دوسروں کی زندگی میں آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)

Comments

Click here to post a comment