ناریٹا سے ہیروشیما بلٹ ٹرین پرجاتے ہوئے میرے اعصاب پر وحشت سی طاری ہو نے لگی۔ ٹرینوں کا سفر جاپان میں بہت عام ہے۔ بلٹ ٹرین دیکھتے ہی شہباز شریف کا خیال آیا، وہ یہ بھی کر گزرے گا مگر یہ قوم جو اتنی بڑی تباہی کے بعد ایک سبق سیکھے کھڑی ہے اور جن کے چہروں سے اور چال ڈھال سے 6اگست 1945ء کے خون کے قطرے اور راکھ ٹپک رہی ہے، اور جن کے چہروں پر 8:15 A.M کی کا وقت تھم گیا ہے، اتنی بڑی قربانی دیے بغیر بھی قومیں عاجزی اور ترقی کا سبق سیکھ سکتی ہیں؟ مجھے نوجوان بچے بچیاں بھی قہقے اورچھلانگیں مارتے نظر نہیں آئے۔ میرا وہم بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بچپن میں پڑھی جانے والی ہیروشیما کی تباہی کی کہانی ہی میرے لیے پورا جاپان اور اس کی نفسیات ہے ۔
سورج کی سرزمین اور چاروں طرف سے پانیوں میں گھرا یہ ملک، پہلے سے ہی تکبر اور تنہائی کا شکار تھا، پھر 1929ء میں دنیا جب بدترین معاشی ڈپریشن کا شکار ہوئی تو جاپان بھی اس آفت سے بچ نہ پایا، نتیجہ یہ نکلا کہ حکمرانوں نے عوام میں بےجا قوم پرستی ٹھونسنی شروع کر دی۔ میجی دور سے جاپان کو اردگرد کے علاقے ہڑپ کرنے کا خبط بھی سوار ہوگیا تھا ۔ SINO-JAPNESE 1894-95 جنگ کے نتیجے میں جاپان نے تائیوان پر قبضہ کر لیا تھا۔ پھر 1904-05 میں Russo-japnese کے نتیجے میں کوریا کو کالونی بنا لیا۔1931ء میں چین کا شمال مشرقی علاقہ نگل لیا اور واں ایک puppet سلطنت کھڑی کر دی ۔1937ء میں پھر چین کے خلاف ایک مکمل جنگ کا آغاز کیا۔
بلٹ ٹرین 320km/hr کی رفتار سے بھاگ رہی تھی، اور میں اس میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ قوموں میں ایک دفعہ دنیا فتح کرنے کا جذبہ آجائے تو وہ کسی نہ کسی طریقے اپنے آپ کو منوانے کا کام جاری رکھتی ہیں۔ جاپان پہلے طاقت کے نشے میں دھت للکارتا تھا اور آج وہ خاموشی سے محنت میں ڈوبا ہوا ہے۔
دوسری جنگ ِعظیم جرمنی کے پولینڈ پر حملے کے بعد 1939ء میں چھڑ چکی تھی۔ جرمنی فاشسٹ بن کر ابھر چکا تھا اور اس کے توڑ کے لیے برطانیہ، امریکہ اور روس آپس میں ہاتھ ملا چکے تھے۔ جاپان نے اٹلی اور جرمنی کا ہاتھ تھام لیا۔ مغربی طاقتوں نے جاپان کی منہ زوریوں کو دیکھتے ہوئے، اس پر معاشی پابندیاں لگا دیں جس سے چڑ کر 8 دسمبر1941ء کو جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کر کے دنیا کو حیران کیا اور اس کے بعد پیسفک وار کا آغاز ہوا اور جاپان نے جنوب مشرقی ایشاء کے ممالک پر بھی حملے شروع کر دیے۔ اور پھرجاپان کی بربادی کا آغاز midway 1942 جنگ میں شکست کے ساتھ شروع ہوا۔
کئی جاپانیوں سے ہیروشیما کے بارے میں بات کر نے کی کوشش کی، سپاٹ سی نظروں سے مجھے دیکھتے، یا بات کرنا نہیں چاہتے، یا بھول جانا چاہتے ہیں یا سٹیٹ پالیسی ہے یا انگریزی سے نا آشنائی ہے۔ کیا ہے، مجھے الجھن ہو نے لگی۔ کتابوں میں تاریخ کو جتنا بھی کنگھال لو، اس زمانے میں رہنے والوں کا سچ ہی سب سے بڑی تاریخ ہو تا ہے۔ ورنہ تو تاریخ فاتح کی منشا سے لکھوائی گئی ایک دستاویز سے زیادہ کچھ نہیں۔ تاریخ کا سچ وہ ہوتا ہے جو ان لوگوں کے دلوں میں بستا ہے جن کی تقدیر کے فیصلے کچھ اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہو تے ہیں۔
جاپانیوں کو جنگی جنون میں مبتلا کر کے، حکمرانوں نے اپنی طاقت اور انا کو سکون پہنچایا۔ جو شخص جنگ کے خلاف بولتا اسے غدار قرار دے دیا جاتا۔ امریکہ اور انگریزی زبان سے نفرت کا پرچار ہو نے لگا۔ سمجھدار لوگوں نے کہا کہ انگریزی ختم کردی تو امریکہ کو شکست کیسے دو گے، جنگی قیدیوں کو ذلیل کیسے کیا کرو گے؟ مگر یہ دلیل بھی کام نہ آئی اور سکولوں میں انگریزی پڑھائی جانی بند ہو گئی اور اس کے استعمال پر پابندی لگ گئی۔ اسی لیے آج بھی آپ جاپان جائیں تو انتہائی محبت اور تعاون کے باوجود جاپانی آپ کو بات نہیں سمجھا پاتے۔ اگر اپنی زبان والے وہاں واقف نہ ہوں تو ٹورسٹ وہاں جا کر نیم پاگل ہو جائیں۔ مہاجرین کو اور وہاں کام کر نے والوں کو جاپانی سیکھنی لازمی ہے ۔
جنگی جنون میں مبتلا ملٹری نے جاپان کو ایک ایسا مقدس اور معجزاتی ملک ثابت کرنا شروع کر دیا جس نے ماضی میں ہمیشہ دشمن کوشکست دی ہو۔ کبھی منگولوں سے ٹائیفون جیسی قدرتی آفت نے بروقت مداخلت کر کے بچایا تو کبھی اپنے سے دس گنا بڑے روس سے معجزاتی طور پر فتح دلوائی۔ سو عوام کو یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ جاپان کے ساتھ ایک غیر مرئی طاقت ہے اس لیے اسے کھبی شکست نہیں ہو سکتی۔ ستم یہ کہ امن کے پر چارک بدھا کے مندر کی گھنٹییاں بھی جنگ کے لیے اسلحہ میں استعمال ہو نے لگی تھیں،
دوسری طرف امریکہ سارے شہروں میں بمباری کر کے انہیں تباہ کر رہا تھا، ہیروشیما ابھی تک بچا ہوا تھا۔
دوسری جنگ ِعظیم کے دوران مین ہٹن پر وجیکٹ (A BOMB) کا آغاز بھی ہو چکا تھا اور ہیری ٹرومین امریکہ کا صدر بن گیا تھا۔ potsdam کانفرنس (جس میں سٹالن، ونسٹن چرچل اور ہیر ی ٹرومین۔ تین بڑوں نے جنگ کو ختم کرنے کے لیے کچھ اعلانات اور فیصلے لیے جیسے کہ جرمنی کے ساتھ کیا کرنا ہے، جنگ کے بعد کیا کرنا ہے، پیسفک وار کے لیے روس جاپان پر حملہ کرے گا، اور امریکہ نے اپنے پہلے ایٹمی بم کی تکمیل کا بھی اعلان کیا)۔
26جولائی کو جب potsdam declaration کے اعلانات کیے جا رہے تھے، دو ایٹم بم پہلے ہی tinian پہنچ چکے تھے۔ امریکی صدر 25 جولائی کو یہ فیصلہ سنا چکے تھے کہ بم آبادی پر گرا دیا جائے۔ جیمز بارڈ نیوی کا انڈر سیکرٹری اس بم کو استعمال کر نے کے خلاف استعفی دے چکا تھا مگر ہیرو شیما اور ناگاساکی کے لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ جاپانی شہنشاہ کے ہاتھوں سے نکل کر سپر پاور کے ہاتھ آچکا تھا۔ قوم پرستی کا وہ سبق جو جاپانی شہنشایت جاپانیوں کو پڑھا چکی تھی، ان کے دل و دماغ سے یہ سبق بھلانے کے لیے A BOMB سے زیادہ کس پر بھروسہ کیا جا سکتا تھا ؟
میں، پیس میموریل عجائب گھر میں ایسی کھوپڑیوں پر لگے جلے ہو ئے بال، ناخن، جلد کے حصے دیکھ کر سمجھ گئی کہ لوگ اس سانحے پر خاموش رہنا کیوں پسند کرتے ہیں۔امریکہ نے بم مار کر اس لڑاکا اور متکبر قوم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عاجزی اور امن کا سبق پڑھا دیا ہے۔ میموریل پارک میں جگہ جگہ کہانیاں سنانے والے اس تباہی کی کہانیاں تو لوگوں کوسنا رہے تھے مگر ان کہانیوں کا انجام امن کی خواہش پر آکر رک جاتا۔ مرے ہوئوں کے دکھ سے زیادہ امن کی بات پر زور دیا جا رہا ہے۔ بھیانک ٹریجڈی بھول کر اس سے نکلے سبق کو یاد کر لیا گیا ہے۔ امریکہ کا مقصد پورا ہوا۔ سوموار کی اس صبح، آگ سے ان کے جسم جھلس گئے تھے، ہڈیوں سے گوشت اتر گیا تھا، آنکھوں کے ڈیلے ہاتھوں میں لئے گھوم رہے تھے، اپنی آنکھوں کے سامنے ملبے تلے دبے بیوی بچے یا ماں باپ آگ سے جلتے دیکھ رہے تھے۔ بم کی تباہی، آگ کی عفریت اور تیز آندھی نے جیسے جسم ہی نہیں روح بھی کھا لی تھی، امن کی خواہش خوف بن کر ان کی آنکھوں میں تیرتی ہے۔ زیادہ تر ہاتھوں میں پتلے پتلے دستانے اور منہ پر نقاب اوڑھے پھرتے ہیں۔ قوم پرستی کا کیڑا ایسا نکلا ہے کہ زیادہ ترامریکہ کو نہیں اس وقت کی جاپانی حکومتی پالیسی کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں ۔
ہیروشیما پر گرائے جانے والے پہلے بم کے carrierجہاز کا نام ENOLA GAY تھا، پائلٹ نے اپنی ماں کے نام پر یہ نام رکھا تھا، پیس میموریل میں ایک جلا ہوا لنچ ، لنچ باکس کے اندر اور ایک بچی کا جلا ہوا یو نیفارم پڑا ہے، ستم ظریفی یہ کہ جس نے اپنے بچے کو وہ لنچ دیا تھا اور وہ یونیفارم پہنا کے سکول بھیجاتھا، وہ بھی ایک ماں تھی۔ ایک طرح کی مائیں اور ایک طرح کے بچے مگر حکمرانوں کے فیصلوں سے ماں ہی ماں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے۔ ہیروشیما کے کرب نے انسانیت کو شرمندہ نہیں کیا بلکہ پورا شہر تباہ کرنے کے بعد ، امریکہ نے تباہی کی نوعیت اور وسعت کا اندازہ لگانے کے لیے ریسرچ ٹیم بھیجی، کیونکہ امریکہ کو انسانی گوشت کھا کے امن کا ڈکار مارنا خوب آتا ہے۔
ایک PIKA-DON یعنی falsh bang یعنی ٹھاہ ٹھاہ۔ قوم پرستی بھی ٹھاہ اورامن کی آگ کی چار سُو flashing۔
تبصرہ لکھیے