(1) شکوہ
حسب معمول جب میں گھر سے یونیورسٹی کے لیے نکلا تو گلی میں کھڑے چند پولیس اہلکاروں کو دیکھ کر گمان ہوا کہ شاید آج پھر کسی معصوم شہری کی شامت آئی ہے؛ جیسا کہ گزشتہ دنوں سے یہ روایت چل پڑی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار، اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کےلیے کسی بھی بےگناہ شہری ’’تھمبو‘‘ کرلیتے ہیں اور پھر بیس ہزار سے تیس ہزار روپے لے کر اس کی جان بخشی کرتے ہیں۔ خیر! جب قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان پولیس اہلکاروں کے ساتھ کچھ خواتین و حضرات بھی کھڑے ہیں۔ ان میں سے ایک خاتون اپنے کندھوں پر آئس باکس لٹکائے ایک دروازے پر دستک دے رہی تھیں۔ پتا چلا کہ یہ ’’پولیو ورکرز‘‘ ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے پولیس اہلکار انہیں تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ میں نے مزید وہاں رکنا وقت کا زیاں سمجھا اور موٹرسائیکل کی رفتار بڑھا دی۔ میں وہاں سے روانہ تو ہوچکا تھا، مگر میرا ذہن بار بار ایک ہی سوال کیے جا رہا تھا: آخر انہیں پولیو کے چند قطرے پلانے میں پولیس پروٹیکشن کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟ اور ان قطروں میں ایسا کیا ہے جو یہ اپنی جان پرکھیل کر، گھر گھر جاکر یہ قطرے پلا رہے ہیں؟ کیا بچوں کو یہ قطرے ہسپتالوں میں نہیں پلائے جاسکتے؟ جیسا کہ دوسری بیماریوں کے لیے ویکسی نیشن کی جاتی ہے۔ کیا ہمارے ملک میں پولیو ایک وباء کی طرح پھیل رہا ہے جسے ختم کرنے کے لیے یہ لوگ سروں پر کفن باندھ کر نکل پڑے ہیں؟ کیا ہمارے ملک سے دوسری مہلک بیماریاں ختم ہوگئی ہیں جنہیں سرے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے؟ آخر پولیو ہی کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے؟
غرض میں اسی بارے میں سوچتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ اپنے ریسرچ سینٹر جا پہنچا؛ اور خیالوں کا تسلسل بھی ٹوٹ گیا۔ کام سے فراغت کے بعد ان سوالوں کے جوابات پر چھان بین کی تو حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ چاہتا ہوں کہ اپنی اس یافت میں آپ کو بھی شریک کروں۔
سب سے پہلے ایک نظر ہم اپنے ملک میں موجود دوسری بیماریوں پر ڈالتے ہیں؛ اور یہ تجزیہ آپ خود کرسکتے ہیں کہ ان بیماریوں کے خلاف ہماری حکومت اور ’’محب وطن‘‘ این جی اوز، جو اپنے آپ کو اس ملک کی سب سے بڑی خیرخواہ بنی پھرتی ہیں، کیا کارنامے انجام دے رہی ہیں؟
عالمی ادارہ صحت (WHO) کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں سب سے زیادہ پائی جانے والی بیماریوں میں سرفہرست سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریاں ہیں جن کا تناسب 51فیصد ہے۔ 2006ء میں ان بیماریوں کے ایک کروڑ 60 لاکھ 56 ہزار کیس رپورٹ ہوئے؛ جن میں سے 25.6 فیصد، پانچ سال سے کم عمر بچوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان بچوں کی مجموعی تعداد 40 لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سب سے زیادہ اموات نمونیہ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں، جو بیماریاں پاکستان میں زیادہ ہیں ان میں ملیریا بھی شامل ہے؛ جس سے سالانہ کم از کم 40 لاکھ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ڈائریا (ہیضہ) ہے جس کے سالانہ 45 لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثرہ، ایک کروڑ 20 لاکھ افراد اس ملک میں موجود ہیں، جن میں سے سالانہ 60 لاکھ لوگ ان ہی موذی بیماریوں کے باعث اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق، 50 سے 60 فیصد پاکستانی خواتین، خون کی کمی کا شکار ہیں۔ یعنی اگر اس تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے محتاط تخمینہ بھی لگایا جائے، تو یہ تعداد کسی بھی طرح پانچ کروڑ خواتین سے کم نہیں بنتی۔ دوسری بیماریوں میں ٹی بی، انفلوئنزا (زکام)، شوگر (ذیابیطس)، کینسر (سرطان) اور غذائیت کی کمی (malnutrition) کے باعث ہونے والی متعدد طبّی پیچیدگیاں اور دماغی و اعصابی امراض شامل ہیں۔
پاکستان میں مختلف امراض پر طائرانہ نظر ڈالنے کے بعد، اب ہم یہاں پولیو کی موجودہ صورتِ حال بھی دیکھ لیتے ہیں۔
پولیو ایک ایسی بیماری ہے جو صرف پانچ سال سے کم عمر بچوں میں پائی جاتی ہے۔ 200 کیسز میں سے صرف ایک کا نتیجہ فالج کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے؛ جس کا علاج اب تک دریافت نہیں ہوسکا۔ جبکہ ان میں سے بھی 5 تا 10 فیصد مریض، موت کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی بات آسان الفاظ میں سمجھائی جائے، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک میں پولیو کے دو ہزار کیسز ہیں تو اُن میں سے صرف 10 کو فالج کا خطرہ ہوسکتا ہے؛ اور ان دس افراد میں سے صرف ایک، اپنی جان سے بازی ہار سکتا ہے۔ پاکستان کے انگریزی اخبار ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 2014ء میں پولیو کے 200 سے زائد کیسز سامنے آئے۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس رپورٹ کا ماخذ کیا تھا۔ مزید چھان بین سے معلوم ہوا کہ زیادہ تر کیسز خیبر پختونخوا میں، اور اس کے بعد کوئٹہ، چمن اور کراچی میں رپورٹ ہوئے۔ یہ تھی ہمارے ملک میں پولیو کی صورت حال!
ہمارے معاشرے میں پولیو ویکسین کے قطروں سے متعلق ایک عمومی خیال یہ پایا جاتا ہے کہ یہ قطرے، تولیدی نظام کو متاثر کرنے کا باعث بنتے ہیں اور مغربی ممالک، مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے ان قطروں کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مفروضے میں کتنی سچائی ہے؟
آیا پولیو ویکسین کے قطرے واقعتا پولیوکے انسداد میں استعمال کیے جا رہے ہیں یا اس کے پس پردہ کچھ اور مقاصد بھی ہیں؟ میں نے اس مفروضے کو غیر جانبدار ہو کر پرکھنے کی کوشش کی؛ اور مندرجہ ذیل ابتدائی معلومات میرے مشاہدے میں آئیں:
1۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی ایک رپورٹ کے مطابق، فی الحال تین ممالک پولیو کی زد میں ہیں جن میں پاکستان، افغانستان اور شمالی نائیجریا شامل ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے علاوہ نائیجریا کی تقریباً50 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، جو شمالی نائیجریا میں آباد ہیں۔
2۔ پوری دنیا میں 2014ء کے دوران پولیو کے 416 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 160 کیسز ان تین ممالک (پاکستان، افغانستان، شمالی نائجیریا) سے رپورٹ ہوئے۔ باقی کے 256 کیسز کن ممالک سے رپورٹ ہوئے؟ اس کا ذکر عالمی ادارۂ صحت کی ویب سائٹ پر موجود ہی نہیں؛ جو اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان ہے۔ (اسی تسلسل میں یہ موازنہ بھی مفید رہے گا کہ ایکسپریس ٹریبیون میں 2014ء کے دوران پاکستان میں 200 پولیو کیسز کا ذکر ہے جبکہ عالمی ادارۂ صحت کی ویب سائٹ، اسی عرصے کے دوران، تین ملکوں سے مجموعی طور پر 160 پولیو کیسز رپورٹ ہونے کا تذکرہ کررہی ہے۔ یہ فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ کس رپورٹ کو درست، اور کسے غلط مانتے ہیں۔)
3۔کئی تحقیقی اداروں نے پولیو ویکسین میں موجود ایک کیمیکل Tween-80 شامل ہونے کی نشاندہی بھی کی ہے۔ ٹوین-80 ایک شیرہ ساز (Emulsifier) کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے مضر اثرات تلاش کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ مرکب (کیمیکل) الرجی، زود حسی ردِعمل (Anaphylactic Reaction) اور بانجھ پن (sterility) کا باعث بھی بن رہا ہے۔
4۔ ایک انگریز صحافی، کرسٹینا انگلینڈ نے ویکسین سے متاثرہ بہت سے لوگوں کا تفصیلی مطالعہ کیا؛ جس سے ثابت ہوا کہ یہ ویکسین بذات خود متعدد بیماریوں کا باعث بن رہی ہیں، اس کی تفصیل مندرجہ ذیل لنک سے پڑھی جاسکتی ہے۔
http://vactruth.com/2013/07/20/vaccines-can-cause-infertility/
(واضح رہے کہ کرسٹینا انگلینڈ کا براہِ راست سائنسی تحقیق سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کی مذکورہ رپورٹ کو دیگر سائنسی ذرائع سے درستگی کی سند حاصل ہے۔ یہاں اس حوالے کا مقصد مختلف مواد دستیاب کا تذکرہ ہے۔)
5۔ کئی ویب سائٹس، جن پر پولیو ویکسین کے خلا ف مواد شائع کیا گیا تھا، وہ بلاک کردی گئیں۔ آخر ایسا کیوں کیا گیا؟
6۔ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (DUHS)، کراچی میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، خسرے کی ویکسی نیشن کے بعد 30 فیصد بچوں کے خون میں خسرے کے خلاف قوت مدافعت پائی گئی جبکہ 70 فیصد بچوں میں اس مرض سے لڑنے کی طاقت نہیں تھی۔ اسی تناظر میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو ویکسین پاکستان میں پولیو کے خاتمے کیلئے پلائی جاتی ہے، وہ پولیو کے خلاف کس حد تک مؤثر ہے؟ اور یہ سوال ان تمام ویکسینز سے متعلق ہے جو ہمارے ملک میں استعمال کرائی جاتی ہیں۔ اس پہلو پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
مجھے ایک نامور انگریز ی اخبار میں یہ خبر پڑھ کر بھی حیرت ہوئی کہ ہمارے ملک کے ایک ممتاز عالم دین نے یہ فتویٰ جاری کیا ہے کہ پولیو ویکسین میں ایسے اجزاء شامل ’’نہیں‘‘ جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوں۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کے پیٹ میں درد ہو تو آپ کسی ڈاکٹر سے علاج کرائیں گے یا کسی انجینئر کے پاس جا کر فریاد کریں گے کہ میرے پیٹ میں بہت درد ہورہا ہے؛ شاید کوئی’’ نٹ بولٹ‘‘ ڈھیلا ہوگیا ہوگا۔ بالکل اسی طرح جب ہمیں کوئی سائنسی یاطبی مسئلہ درپیش ہو تو بجائے تحقیقی اداروں کے ہم کسی عالم دین یا مفتی سے کیوں فتویٰ لیتے ہیں؟ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ نکلتا ہے کہ ’’محب وطن‘‘ این جی اوز کو کسی اور ہی بات کا خطرہ لاحق ہے؛ جس کی وجہ سے وہ تحقیقی اداروں کی مدد لینے کے بجائے اپنی من پسند بات منوانے کے لیے ایسے افراد سے رجوع کرتی ہیں جو سائنس اور طب کی الف ب سے بھی ناواقف ہیں۔ معذرت کے ساتھ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان تمام اعتراضات کا طبی بنیادوں پر حل تلاش کریں، نہ کہ فتووں کا سہارا لیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کا المیہ یہی ہے کہ وہ بیماریاں جن سے سالانہ لاکھوں لوگ جان کی بازی ہار رہے ہیں، اور جن سے کروڑوں لوگ بے انتہاء درد اور تکالیف میں زندگیاں گزاررہے ہیں، ان کی ہمیں کوئی فکر نہیں۔ ہم اپنا سرمایہ، اپنی قوت اور اپنی کوششیں ایسی بیماریوں پر لگا رہے ہیں جو ہمارے ملک کا مسئلہ ہی نہیں۔۔۔ اور اگر ہیں بھی تو غیرمعمولی طور پر سنگین نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارے ملک کو کینسر کا مرض لاحق ہو اور ہم نزلہ، کھانسی اور بخار کی فکر میں مبتلا ہیں۔ اگر پولیو کے چار کیسز سامنے آتے ہیں تو ہمارے ملک کا میڈیا انہیں اپنی شہ سرخیوں میں جگہ دیتا ہے؛ جبکہ دوسری جان لیوا بیماریوں سے ہر روز سینکڑوں لوگوںکے مرنے کی خبریں، میڈیا کے قبرستان میں دفن ہوجاتی ہیں۔
تلخ نوائی پر معذرت، ہمارے ملک میں سائنس دانوں کا حال بھی کچھ مختلف نظر نہیں آتا۔ ان کی تحقیق کا مرکز و محور صرف وہی مسائل ہوتے ہیں جن کی ہمیں ضرورت نہیں۔ اگر کسی محب وطن سائنس دان کے دل میں ان دکھی لوگوں کا خیال پیدا بھی ہوتا ہے تو ہمارا تجارتی طبقہ اس کے راستے میں ایسی ایسی رکاوٹیں کھڑی کردیتا ہے جن سے اس کی ساری کاوشوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ مرکز فضیلت برائے سالماتی حیاتیات (CEMB)، لاہور کے سابق سربراہ، پروفیسر ڈاکٹر ریاض کی مثال ہمارے سامنے نشانِ عبرت کے طور پر موجود ہے۔ انہوں نے ہیپاٹائٹس سی کی ویکسین تیار کرلی تھی۔ مگر فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے ان کے راستے میں اتنی زیادہ قانونی اور انتظامی رکاوٹیں کھڑی کردیں کہ یہ کم خرچ ویکسین، استفادۂ عام کیلئے دستیاب ہی نہ ہوسکی۔
اس تمام صورتِ حال کے برعکس، مجھے اس کی بھی خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں چند ادارے اور سائنس دان بھی ہیں -- جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمرمبارک مند، ڈاکٹر عطاء الرحمن، ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری و دیگر شامل ہیں -- جو ملک کی ضروریات سمجھتے ہوئے، محدود وسائل کے باجود، اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کررہے ہیں۔ لیکن وہ ایک ایسے چراغوں کی مانند ہیں جن کی روشنی پورے ملک کو منور کرنے کیلئے ناکافی ہے۔ مگر
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
(2) جوابِ شکوہ
سب سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ میں نے اپنی تحریر کے پہلے حصے میں ایسا کوئی مفروضہ یا بیان پیش نہیں کیا جس میں یہ کہا گیا ہو کہ پولیو ویکسین کے قطرے ’’نہیں‘‘ پلانے چاہییں۔ میں نے تو صرف وہ سوالات اٹھائے ہیں جو میرے کم فہم ذہن میں پیدا ہوئے؛ جبکہ پولیو سے متعلق مفروضوں کا تجزیہ، سائنسی بنیادوں پر کیا ہے۔ مزید براں، اس تجزیے میں حوالہ بھی ایسے لوگوں کا دیا ہے جن کا اسلام اور پاکستان سے کوئی تعلق نہیں، تاکہ میری باتوں پر جانبداری کی تہمت عائد نہ کی جاسکے۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ پولیو ویکسین کا زیر نظر معاملہ ایک علمی و سائنسی بحث ہے، لہٰذا اسے انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔
جب میری تحریر کا پہلا حصہ ایک بلاگ کی صورت میں ’’دی نیوز ٹرائب‘‘ نامی ویب سائٹ پر ’’ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا، تو اس کے بعد مجھے بہت سے لوگوں کی جانب تعریفی ای میلز موصول ہوئیں۔ تاہم، میرے مذکورہ بلاگ میں بہت سی خامیاں بھی تھیں، جن کی جانب بلاگ پڑھنے والوں میں سے کسی نے اشارہ نہیں کیا۔ بلکہ قارئین کے تعریفی کلمات مجھے غلط سمت میں دھکیلنے لگے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ میرے محترم اساتذہ کرام نے بھی یہ بلاگ پڑھا اور ہمیشہ کی طرح میری خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے، درست سمت میں میری رہنمائی بھی فرمائی۔
اس حقیر فقیر پُر تقصیر، بندۂ ناچیز کا مختصر تعارف یہ ہے کہ میں نے حنیفیہ پبلک اسکول سے میٹرک، اور بعد ازاں گورنمنٹ دہلی کالج سے انٹرمیڈیٹ (پری میڈیکل) کی تعلیم حاصل کی۔ پھر ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے پہلی پوزیشن لیتے ہوئے، بی ایس (میڈیکل ٹیکنالوجی) کیا۔ گزشتہ چار سال سے ’’ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ/ انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بایولاجیکل سائنسز (سابقہ ’’ایچ ای جے‘‘)، جامعہ کراچی میں پی ایچ ڈی کا طالب علم ہوں۔ میری نظر میں اپنی مادرِ علمی کی اہمیت ایم آئی ٹی سے کہیں زیادہ ہے، اور یہ صرف کہنے کی بات نہیں، بلکہ اس میں مکمل سچائی ہے۔ سائنس کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں ہر بات کو سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں؛ چاہے وہ سیاست ہو، معاشرت ہو، یا زندگی کا کوئی اور پہلو۔ خردبینی مطالعہ (Microscopy) میرا خصوصی شعبہ ہے۔ اگر ہر بات کو گہرائی میں دیکھنا میری فطرت میں شامل ہوگیا ہے، تو اس میں میرا اپنا کوئی کمال نہیں۔ بلکہ یہ تو صرف میرے محترم اساتذہ کرام کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
اب بات کرتے ہیں ان نکات پر، جن کی نشاندہی میرے محترم اساتذہ نے کی۔ میری کوشش رہے گی کہ ان باتوں کا سائنسی اور اسلامی، دونوں نقطہ ہائے نظر سے تجزیہ کرتے دوران اپنے اساتذہ کی رائے کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔
مذکورہ تحریر شائع ہونے کے بعد، سب سے پہلے ڈاکٹر کامران عظیم نے مجھے بطورِ خاص اس بارے میں بات کرنے کے لیے بلایا۔ بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر کامران عظیم، آئی سی سی بی ایس کے تحت حال ہی میں قائم ہونے والے ادارے ’’جمیل الرحمن سینٹر فار جینوم ریسرچ‘‘ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ نے گزشتہ دنوں پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمن کے جینوم کی سلسلہ بندی (سیکوئنسنگ) کی خبریں پڑھی ہوں گی۔ یہ کارنامہ ڈاکٹر کامران عظیم اور ان کی ٹیم نے، چینی تعاون و اشتراک سے انجام دیا تھا۔ علاوہ ازیں وہ آموں کی مختلف اقسام کی سالماتی و جینیاتی خصوصیات پر بھی کام کرچکے ہیں۔ خیر! میرے بلاگ کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے جس کیمیکل (Tween-80) کی بات کی ہے، وہ لیباریٹری میں بہت زیادہ استعمال ہونے والا کیمیکل ہے؛ اور ان کا خیال تھا کہ Tween-80 کا صرف ایک قطرہ، انسانی صحت کے لیے کسی بھی طور پر مضر نہیں ہوسکتا۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ عالمی ادارہ صحت نے پولیو کی بیماری کو دنیا بھر سے ختم کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے جبکہ پاکستان میں پولیو کے کیسز مسلسل سامنے آتے جا رہے ہیں۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ پولیو کا وائرس، پاکستان سے دوسرے ممالک میں پھیل کر وبائی صورت اختیار نہ کرلے۔ انہوں نے مصر کی مثال دیتے ہوئے مجھے سمجھایا کہ وہاں پولیو کا ایک کیس سامنے آیا۔ جب تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ یہ پولیو وائرس، پاکستان سے مصر منتقل ہوا تھا۔ میں نے اپنے بلاگ میں پاکستان کے حوالے سے جن دوسری بیماریوں کا تذکرہ کیا تھا، ان کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ امراض ہمارا اپنا، مقامی مسئلہ ہیں؛ اور ان کا سدباب ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان بیماریوں کا قلع قمع کرنے کیلئے کام کی رفتار بڑھائیں۔ خوش قسمتی سے پاکستانی اداروں میں ان تمام امراض کے خلاف -- تشخیص سے لے کر علاج تک کے ذیل میں، تحقیقی کام جاری ہے۔ لیکن چونکہ میڈیا نے اس طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، اس لیے عام تاثر یہی پروان چڑھ رہا ہے کہ ہمارے ہاں مفادِ عامہ کی مناسبت سے کوئی سائنسی تحقیق نہیں ہو رہی۔
ایک اور پاکستانی سائنسدان نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر مجھے بتایا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے انہیں پولیو ویکسین کے نمونے بھجوائے تھے۔ جب ان نمونوں کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا گیا تو اس میں ایسی کوئی چیز سامنے نہیں آئی جو انسانی صحت کے لیے مضر ہو۔ اسی رپورٹ کی بنیاد پر ہمارے ملک کے علمائے کرام نے پولیو ویکسین کے حق میں فتویٰ جاری کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں پولیو ویکسی نیشن کا عمل بہتر بنانا ہوگا، کیونکہ زیادہ درجہ حرارت سے ویکسین خراب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے؛ اور ویکسین غیر مؤثر ہو جاتی ہے۔
چین کی ایک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر رحیم اللہ نے، جو ریپروڈکٹیو نیورو اینڈوکرائنولوجی کے ماہر ہیں، کہا کہ تحقیق کار ہونے کے ناطے ہم کسی بات کے ٹھوس ثبوت فراہم کیے بغیر صحیح یا غلط کا فیصلہ نہیں کرسکتے اور ’’اب تک مجھے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔‘‘ انہوں نے بہت ہی دھیمے اور سلجھے ہوئے انداز میں مجھ سے کہا کہ اگر ’’آپ کے پاس کوئی سائنٹفک پیپر (سائنسی تحقیقی مقالہ) ہے تو مجھے ای میل کردیجیے۔‘‘ میں نے بہت کوشش کی لیکن مجھے ایسا کوئی سنجیدہ، سائنسی تحقیقی مقالہ نہیں مل سکا۔
میں اپنے قارئین سے بھی یہی کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ کے پاس کوئی واضح ثبوت ہو تو مجھے ضرور ای میل کیجیے گا۔ ہم سب مل کر، سائنسی بنیادوں پر اس کا حل تلاش کریں گے۔ اور اگر اس ویکسین میں کوئی خامی ہے، تو اسے درست کیا جائے گا؛ نہ کہ ہم ایک دوسرے کو قتل کریں۔ اور یوں بھی بلا وجہ کسی کو قتل کرنا، چاہے وہ کسی بھی فرقے یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو، ہمارے پیارے نبیﷺ کی سنت کے خلاف ہے۔
کومسیٹس (COMSATS) انسٹی ٹیوٹ، اسلام آباد میں بایولوجیکل سائنسز کے ڈاکٹر محمد ذیشان حیدر نے مجھے بذریعہ ای میل یہ بتایا کہ میں نے اپنے بلاگ میں پولیو سے متعلق ایک بہت اہم نکتہ نظر انداز کردیا تھا؛ اور اسی وجہ سے پاکستان میں اب تک پولیو کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ ’’آپ کی پولیو سے متعلق تحریر لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں پاکستان میں موجود بیماریوں کے خلاف ایسے ہی کام کرنا ہوگا جیسے ہم پولیو کے خلاف کررہے ہیں۔
آخر میں ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کی رائے جاننے کے لیے میں ان کے آفس گیا۔ انہوں نے بہت دکھ بھرے انداز میں مجھ سے کہا، ’’آپ نے بہت طریقے سے لوگوں کو کنفیوز کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ پولیو کا مرض ایسا ہے کہ انسان کو موت نہیں آتی؛ وہ ساری زندگی کرب اور تکلیف میں گزارتا ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری، ’’مریض ایک ہو یا ایک لاکھ، ہمیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے مجھے وہ سبق دیا، جو میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ وہ میرے عظیم اساتذہ کرام میں سے ایک ہیں۔ ان کے ایک جملے ’’آپ نے بہت طریقے سے لوگوں کو کنفیوز کرنے کی کوشش کی ہے،‘‘ کو میں نے ہر پہلو سے پرکھنے کی کوشش کی؛ اور بالآخر تھک ہار کر اسلامی پہلو پر غور کرنے لگا تو مجھے نبی مہربانﷺ کی وہ حدیث یاد آ گئی جس میں کہا گیا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ چاہے وہ عیسائی ہو، ہندو ہو یا کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اس کی جان اتنی ہی قیمتی ہے جتنی ایک مسلمان کی۔
قصہ کوتاہ یہ کہ ہمیں اپنی سوچ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے، پولیو کے علاج پر کام کرنا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ قدرت کے کارخانے میں کوئی تو ایسی چیز ضرور ہے جس میں پولیو کے مریضوں کی تکلیف ختم کرنے کا جوہر موجود ہے۔ ہمارا عزم ہے کہ ہم اس پہلو پر کام کا آغاز کریں گے۔ کیا آپ ہمارے ساتھ ہیں؟
(ریحان احمد صدیقی، پی ایچ ڈی اسکالر، مالیکیولر میڈیسن)
تبصرہ لکھیے