چاچا سرور بیری کے درخت کی سب سے اوپر والی شاخ پہ بیٹھا ہوا اپنی کلہاڑی سے بیری کی ٹہنیاں کاٹ رہا تھا اور نیچے اس کی بکریاں اور بھیڑیں گری ہوئی ٹہنیوں سے بیری کے پتے اور بیر کھانے میں لگی ہوئی تھیں. میں کھیت کی منڈیر پہ بیری کے سائے کے نیچے زمین پہ بیٹھا ہوا تھا۔
چاچا سرا! میں نے چاچا کو مخاطب کیا (ہم چاچا سرور کو چاچا سرا ہی کہتے تھے)، میں اس بیری کے تنے کے اوپر تک بھی نہیں چڑھ سکتا اور تم نوے سال کی عمر میں بیری کی سب سے اونچی شاخ پہ کیسے چڑھ جاتے ہو؟ ا چھی خاصی ٹہنیوں کو کاٹنے کے بعد چاچا سرور اپنے تہمد کو سنبھالتا نیچے اتر آیا تھا، اس نے دایاں نحیف پاؤں کھسے کے اندر ڈالا ، بائیں طرف کی تیسری پسلی پہ فخر سے ہاتھ مار کر کہا، پتر یہ ایسے نہیں ہوا، تمہارے چاچا نے بہت زیادہ میلے دیکھے ہوئے ہیں۔
چاچا کے جواب بھی ایسے ہی ہوتے تھے، سوال گندم جواب چنا۔ مجھے آج پھر اْس کی بات سمجھ نہیں آئی تھی۔
چاچا تم اس بیری کی سب سے اونچی شاخ پہ اس عمر میں اس لیے چڑھ سکتے ہو کہ تم نے بہت زیادہ میلے دیکھے ہوئے ہیں؟
ہوں۔۔۔۔ اس دفعہ چاچا کی ہوں بہت لمبی تھی۔
پتر! میں نے بڑے بڑے میلے دیکھے ہیں، میں نے سخی سرور لالاں والے پیر کی دیگ کا سالن کھایا ہے، پیدل چل کے شہباز قلندر کے میلے پہ گیا ہوں، داتا کے مزار پہ جھل چڑھائی ہے، اوچ شریف کے مزاروں کی دیواروں پر ٹیک لگا کہ چلا ہوں اور منت کے دھاگے بھی باندھے ہیں، پیر پٹھان کے مزار کے پچھلی طرف قبرستان میں لڑھکا ہوں، سلطان باہو کے مزار پہ میٹھی ٹانگریاں بانٹی ہیں۔ پاک پتن کی شکر کی مٹھاس کا ذائقہ تو ابھی تک منہ میں ہے اور میں نے مادھو لال کے ڈیوے بھی جلائے ہیں۔
لیکن چاچا، ان سب واقعات کا بیری پہ چڑھنے سے کیا تعلق؟
پتر بات یہ ہے کہ، یہ جو میلہ ہوتا ہے نا یہ زندگی ہے۔ میلہ جندڑی کا دوجا نام ہے، جو میلہ دیکھے وہ ہمیشہ جوان رہے، مگر چاچا شکسپیئر کہتا ہے کہ یہ زندگی ایک سٹیج ہے اور ہرفرد اپنے حصے کا۔
چاچا نے میری بات پوری سنی ہی نہیں اور الٹا مجھ سے سوال کر دیا تو نے کبھی میلے کا جوبن دیکھا ہے؟
بالکل بالی عمریا کی طرح! اور پھر میلے کا آخر آ جاتاہے، پہلا تمبو گرتا ہے اس کے بعد بہت سارے تمبو گرنے لگتے ہیں، میلہ ٹوٹتا ہے، تب زندگی ختم ہوتی ہے! میلہ کا ٹوٹنا ”وڈی ایمرجنسی“ ہوتی ہے، پتر!
مجھے یاد آیا چاچا سرور! ہمیں بچپن میں امیر شاہ بخاری کے عرس پہ لے جاتا تھا، بچپن میں امیر شاہ بخاری کا عرس نہیں میلہ ہوتا تھا، اب پتہ نہیں کیوں عرس ہوگیا ہے؟
چاچا کا اصرار ہوتا تھا کہ پیدل چلیں گے، پانچ کوس پر تو اپنے امیر شاہ کی پہاڑی کھڑی ہے۔ لیکن سلسلہ کوہ سلمان کی پہلی پہاڑی تک پیدل جانے سے میری جان جاتی تھی، تب چاچا اور میں شادی خیل بس کی چھت پہ بیٹھ جایا کرتے تھے۔
چاچا بس کی خالی سیٹوں پر نہیں بیٹھنے دیتا تھا۔ پتر! ضروری نہیں کہ ہر خالی سیٹ پر آپ ہی بیٹھو، اور یہ بھی ضروری نہیں جو جگہ خالی پڑی ہو وہ تمھارے لیے ہی ہو، پانچ کوہ کا سفر ہے، بندہ ویسے بھی توکاٹ سکتا ہے کسی کو اپنی جگہ دے کے، کسی سیٹ پر قبضہ نہ کر کے۔ چاچا کی منطق اس وقت ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی۔
امیر شاہ بخاری کا دربار کیا تھا، سبز جھنڈے کے نیچے سبز چادر سے ڈھکی کچی قبر، کچا دروازہ، کچی بہشتی موری اور پکے پہاڑ۔
چاچا سرور امیر شاہ کی کچی قبر کو چھوتا اور خالی نظروں سے فضامیں دیکھ کر زور سے اللہ پکارتا، چاچا کی تقلید میں میں ہلکا سا اللہ کہہ دیتا۔ شاید اتنا آہستہ سے اللہ کہنا، میری زندگی کی پہلی محبت تھی۔ ایک دفعہ میں نے کہا تھا کہ آپ دربار پر آہستہ سے اللہ کہو، تب بھی تو اللہ سن لیتا ہے، چاچا نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا، لیکن بعد کے آنے والے سالوں میں بھی یہ معمول برقرار رہا۔
پہاڑی کے اوپر سے نیچے میلے کا منظر آج تک آنکھوں میں کْھبا ہوا ہے، وہ جھولا جسے دوگونگے بھائی اپنے ہاتھ سے چلاتے تھے، موت کا کنواں اور وہ سارے تمبو جن میں بہت سی مٹھائی کی اور کھلونوں کی دکانیں ہوتی تھیں،
ایک پکوڑے بنانے والا لہک لہک کے گا رہا ہوتا تھا، ”کھا، لونگ، لائچی والے کھا، سبز مرچاں والے کھا، مشہور پکوڑے!“
حالانکہ اس کے پکوڑوں میں نہ لونگ ہوتے تھے اور نہ الائچی مگر گیت اتنا اچھا تھا کہ اس میں لونگ اور الائچی سب کا مزہ آجاتا تھا، ہماری زندگی کی یہ پہلی Advertisement تھی جس سے ہم آج تک متاثر ہیں. اور مداری کا تماشا جس میں دیکھنے والوں کی جیب سے پیسے غائب ہو جایا کرتے تھے۔
چاچا سرور میلہ پہ ہمیں قصائی کی جلیبی کھلایا کرتے تھے، قصائی کی جلیبی واقعی لذیذ ہوتی تھی، قصائی اور جلیبی کا کیا تعلق؟ یہ ہماری زندگی کا پہلا Contrast تھا۔ ایک رنگی برنگی چھتری کے نیچے گھنگرو کی آواز کے ساتھ کوئی باداموں والی سردائی گھوٹ رہا ہوتا تھا، گھنگرو کی چھن چھن کے ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی سردائی، ہم کئی گلاس پی جایا کرتے تھے مگر سکرین ملی سردائی سے پیاس ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی، یہ سکرین ملا شربت شاید ہماری زندگی کا پہلا دھوکہ تھا مگر ابھی تک ہم دھوکہ اور گھنگرو کا تعلق سمجھ نہیں سکے۔
بعد میں چاچا سرا ہمیں پہاڑوں کے اس پار کھجورں کے جھنڈ میں لے جاتا تھا جہاں لوگوں کا بہت رش ہوتا تھا، لوگوں نے مختلف چادروں پہ بہت سے پیسے اور تاش کے پتے پھینکے ہوئے تھے۔ چاچا تاش والوں سے ہٹ کے کوڈیوں والے کی طرف چلا جاتا، پانچ چھ لوگوں کےگروپ میں بیٹھ کر سولہ کوڈیاں جو خشک ہڈیوں کی طرح ہوتیں، اپنے ہاتھ سے ٖفضا میں پھینکتا اور فورا کوئی نہ کوئی عدد بتا دیتا۔ کبھی بتائے گئے عدد کی کوڈیاں الٹی گرتیں اور کبھی سیدھی، روپے چاچے کے ہاتھ میں آتے اور جاتے رہتے، کوڈیاں چاچے کے ہاتھ سے فضا میں اور فضا سے زمیں پر پھسلتی رہتیں۔ اور ہم لڑکے بالے چٹان میں بنے شیر کے جالے میں بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہتے۔
چاچا کے ہاتھ میں جب پیسے کم ہونے لگے تو کوئی آواز دیتا، چاچا آپ ہار رہے ہو۔ چاچا پھر خالی خالی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتا اور ایک انگلی کا اشارہ کرکے زور سے کہتا نہیں ــ ”اللہ مالک ہے.“
ہم کچھ بڑے ہوئے تو چاچا کوسمجھانا چاہا کہ کوڈیاں کھیلنا بھی جوئے کی ایک شکل ہے، آپ اس میں بھی کہتے ہو کہ اللہ مالک ہے؟ چاچا جواب دیتا، ہاں سچ ہی تو کہتاہوں! مگر سچ کہنے اور اللہ کو یاد کرنے کے مواقع اور مقام بھی تو ہوتے ہیں، ہم اْسے سمجھاتے. سب چیزوں کے مقام اور مواقع تو تم لوگوں نے بنا لیے ہیں لیکن اپنے اللہ کو تو کہیں بھی یاد کیا جا سکتا ہے، چاچا انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتا۔
دیکھو چاچا! اگر تم نے جوا ہی کھیلنا ہے تو تاش پکڑ لیا کرو، سنا ہے دنیا کا سب سے بڑا جوا تاش کے پتوں پر کھیلا جاتا ہے۔
نہ نہ پتر! یہ جو تاش کا بْت ہے یہ آدمی کو بھی مجسمہ بنادیتا ہے، ایک دم بےحرکت۔ تاش کا جوا تو بندے کا دل بھی بند کر کے رکھ دیتا ہے۔ تاش ہوٹل کے کھانے کی طرح بےمزہ ہے اور کوڈی پکھی کو فضا میں تیر مارنے جیسا کھیل ہے۔ کوڈی انگلیوں کی پوروں سے کھیلتے ہیں، اس میں ہاتھ ناچتا ہے، من ناچتا ہے، آنکھ ناچتی ہے اور پلکیں بھی ساتھ، کوڈی کو فضامیں آنکھ سے پکڑنا پڑتا ہے، ایک لمحہ اور بس۔
چاچا تم جیسے لوگوں کے پاس کوئی اور فورم ہے نہیں اور خون گرم رکھنے کے بہانے کو تم کوڈی کے جوئے میں تلاش کر رہے ہو، میری اس بات پر چاچا ہنس پڑتا اور کہتا پتر تم نے کبھی نہ کبھی زندگی میں کہیں نہ کہیں جوا کھیلنا تو ہے، امیر شاہ کے پہاڑیوں پہ نہ سہی کہیں اور سہی ۔
شام ڈھلے میں چاچا کے ساتھ قناتوں کے درمیاں میں ان سینکڑوں بلوچوں کے ساتھ بیٹھ جاتا تھا جو بلوچی نڑ الاپتے تھے، ڈوبتا سورج اور بلوچی نڑ کی دھنیں، تاریکی میں ڈوبے بےجان کالے پہاڑوں کا سلسلہ ایسے محسوس ہوتا تھا، جیسے زمیں پہ لکھی کوئی آیت۔
اب ان تمام واقعات کو برسوں گزر گئے، چاچا سرور بھی نہیں رہا، آج امیر شاہ بخاری کے عرس کا آخری دن ہے اور میں دن کی ڈھلتی شام میں کجھوروں والے جھنڈ کے پچھلی طرف چاچا کی قبر پہ میں بیٹھا ہوا ہوں۔ فضا بوجھل ہے، چھوٹی پہاڑی کے اس پار سورج ڈوب چکا ہے۔ ہوا کی لہروں پر تیرتے ہوئے کبھی کبھی کان میں بلوچی نڑ کی لے آجاتی ہے اور پھر کہیں معدوم ہوجاتی ہے، ہلکی تاریکی میں قدرے زور سے دھک کی آواز آئی، میں نے پہاڑی کے نیچے دیکھا، پہلا تمبو گرا دیا گیا تھا، میلہ ٹوٹ چکا تھا۔
زندگی کے میلے - آصف جاوید قیصرانی

تبصرہ لکھیے