شیعہ سنی کے مابین جھگڑا کس بات کا ہے؟ بلاوجہ کی بدگمانیاں اور دوریاں ہیں۔ سینئر صحافی آصف محمود صاحب نے اس اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ دلیل پر شائع ہونے والے اپنے مضمون میں انھون نے فریقین کو باہمی رنجشیں بھلا کر اخوت اور روداری سے رہنے کی تلقین کی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک عمدہ کاوش ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
آصف محمود صاحب نے اہل بیت اطہار کے ساتھ اپنی محبت و نسبت کو بیان کیا اور اس کی چند عام فہم مثالیں بھی پیش کیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اہل سنت بھی اہل بیت سے گہری محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔
جناب آصف محمود صاحب! جھگڑے کی وجہ محض بدگمانی ہےتو لیجیے اس کا ازالہ میں کیے دیتا ہوں، میرا تعلق اہل سنت سے ہے جبکہ میرا سلسلہ نسب عم رسول سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے جو اہل تشیع کے ہاں غازی عباس علمدار کے نام سے معروف ہیں۔ اہل بیت سے محبت و عقیدت میرا ایمان ہے اور جو ان سے دشمنی رکھے، وہ اللہ و رسول کا دشمن ہے۔ ان سے محبت وعقیدت کی بنا پر بچوں کے نام انھی سے موسوم کیے ہیں چنانچہ بھانجے اور بھتیجے کے نام حسن و حسین اور بھتیجی فاطمہ ہے جبکہ دوستوں میں قاسم، عقیل، شبیر اور تقی سب پائے جاتے ہیں۔
محرم کے پہلے دس دن عشرۂ فاروق و حسین رضی اللہ عنہم کے طور پر مناتا ہوں اور ان کے نام پر منعقد کردہ مجالس میں جا کر ان کی عظمت و شان کو سننا اور بیان کرنا باعث فخر و سعادت اور ذریعہ نجات سمجھتا ہوں۔
جہاں تک آپ کی اس بات کا تعلق ہے کہ ہمیں بھی امام زین العابدین رح اور امام جعفر صادق رح کے علم و فضل سے مستفید ہونا چاہیے تو اس بارے میں عرض ہے کہ یہ دونوں ائمہ کرام امام ابوحنیفہ رح کے بالواسطہ اور بلاواسطہ اساتذہ میں شامل ہیں تو اس طرح اہل سنت نہ صرف ان کے علم و فضل اور تقوی و ورع کے قائل ہیں بلکہ ان سے علمی و روحانی استفادہ اور کسب فیض بھی کرنے والے ہیں۔
اب آنجناب سے عرض ہے کہ ہماری غلط فہمی کو بھی دور کیجیے تاکہ بدگمانی نہ ہو، اہل تشیع کا کوئی ایسا خاندان بتا دیجیے جہاں بچوں کے نام ابوبکر، عمر، عثمان اور بچیوں کے نام عائشہ اور حفصہ ہوں حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرزندان کے نام ابوبکر، عمر اور عثمان تھے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔
کیا خلفائے ثلاثہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو امام اور خلیفہ تسلیم کیا جائے گا جنہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا امام تسلیم کیا اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے۔ کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیادت قبول کی جائے گی کہ جن کے ہاتھ پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے بیعت کی اور انہیں اپنا امام بنایا۔
چلیے نام نہ رکھیں اور برحق کا معاملہ بھی چھوڑ دیں، کم از کم یہ یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ خلفائے راشدین، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام کا احترام ہو، برسرعام گالی دے کر ان کی توہین نہ کی جائے، اور جو شخص ان میں سے کسی کی توہین کرے، اسے اہل تشیع احباب خود ہی روک دیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کسی مصالحت کی ضرورت نہ پڑے گی، معاملہ خود بخود حل ہو جائے گا، اور پھر وحدت و یکجہتی میں جو روڑے اٹکائے گا، اس سے اہل سنت خود نپٹ لیں گے۔
تبصرہ لکھیے