ایک دوست نے سوال کیا کہ،
’’ایک جگہ پڑھا تھا کہ علامہ اقبال حیات بعد الممات میں جنت یا دوزخ کے قائل نہیں تھے۔ وہ اِسے رُوحانی معنوں میں لیتے ہیں۔ مجھے اِس کا تسلی بخش جواب چاہیے، حوالوں کے ساتھ‘‘
میں نے اُنہیں جواب دینے کے لیے لکھنا شروع کیا تو لکھتا ہی چلا گیا۔ جب جواب ختم ہوا تو اندازہ ہوا کہ میں قاری کی برداشت سے کہیں آگے تک لکھتا چلا گیا ہوں۔ خیر! مضمون کچھ یوں شروع کیا تھا کہ،
اس سے پہلے کہ ہم اقبال کے اسلامی عقائد پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالیں، یہ جان لینا زیادہ ضروری ہے کہ اقبال خود ’’عقیدہ‘‘ کو سمجھتے کیا ہیں؟ کیا وہ کسی عقیدہ کے قائل ہیں؟ وہ عقیدہ کو مذہبی زندگی کا کونسا درجہ قرار دیتے ہیں؟ کیا اُن کے نزدیک عقیدہ ہونا ضروری ہے؟ اور یہ بھی کہ فی الواقعہ عقیدہ ہوتا کیا ہے؟
سید کرامت حسین جعفری کے بقول،
’’اقبال کے نزدیک مذہبی زندگی کے تین ادوار ہیں،
اعتقادی
اجتہادی
استشہادی
یہ فقط اعتقادی دور ہی ہے جس کا تعلق عقیدہ کے ساتھ ہے۔ اقبال نے خود اس بات کو اپنے خطبات میں ایمان، فکر اور معرفت کا نام اور ترتیب دی ہے۔کرامت حسین جعفری نے اس کی تشریح یوں کی ہے،
’’اپنی ابتدائی صورت میں مذہب عقیدہ کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے جب کہ دوسرے دور میں مذہب کی تاسیس اور تشکیل، مابعد الطبیعیات کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے۔ اس مقام پر صرف مذہبی عقیدے کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا بلکہ عقلی طور پر اس کی حقانیت کو بھی مانا جاتا ہے، اس کے بعد مذہب ذاتی استشہاد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ یہ مذہبی زندگی کا تیسرا اور آخری درجہ ہے، انسان اس منزل پر اپنے تمام فکری ، جذباتی اور ارادی پہلوئوں کی ترتیب و تعدیل کے بعد اپنے اندر ایک خاص قسم کی زندگی اور قوت پاتا ہے۔ اسے آزاد شخصیت کا تجربہ حاصل ہوتا ہے، یہ آزادی کسی قسم کے قوانین سے ماورائیت کی غماز نہیں ہوتی، بلکہ یہاں آزادی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی خودی کی وسعتوں اور گہرائیوں میں اصل اصول کا مشاہدہ کرتا ہے، یہ مشاہدہ ایک مکاشفائی رویے کو جنم دیتا ہے۔ اس منزل پر مذہب زندگی اور تجربہ کی نفی کا قائل نہیں بلکہ اثبات کا داعی ہے‘‘۔
اقبال کی ترتیب برائے مذہبی زندگی، ایمان، فکر اور معرفت ہے۔ ایمان عقائد اختیار کرنے کا مقام ہے۔ فکر اُن عقائد کی اصل رُوح تک پہنچنے اور ان پر غور کرنے کا دور ہے اور معرفت حواس اور عقل سے حاصل ہونے والے مذہب کو اس طرح اپنے اندر جذب کرلینے کا نام ہے کہ ظاہری و باطنی زندگی خودکار طریقے سے حسن ِ عمل کا شاہکار نظرآئے۔ اسی ترتیب سے انسانوں کی بھی قسمیں ہیں۔
۱۔ وہ لوگ جو مقامِ اوّل یعنی ایمان اور عقیدہ کے مقام پر ہی مذہبی زندگی کے ساتھ بلاتردد وابستہ ہوگئے۔ ان کا دوسرا دوریعنی جب وہ اپنے ہی عقائد پر غوروفکر کے عمل سے گزرتے اگرچہ اپنی پوری قوت سے جاری رہا لیکن انہوں نے ہرطرح کی فکر کو ملعون قرار دیا اور تادم ِ مرگ ایمان کے سہارے ہی مذہبی زندگی اختیار کیے رکھی۔
۲۔ وہ لوگ جو ایمان اور عقیدہ کے مقام سے آگے بڑھے اور مذہبی زندگی کے اگلے درجہ یعنی فکر اور تدبر کے مرحلہ میں داخل ہوگئے اور وہیں رہ گئے۔ یعنی غوروفکر کے عمل میں ان کےلیے اتنا سامان تھا کہ مذہبی زندگی کو بطور عقیدہ اختیار کرنے اور پھر اس پر غوروفکر کرنے پر ہی اکتفا کرلیا۔ یہ لوگ نور بشر اور شریعت و الٰہیات کے مباحث میں عمر بسرکرسکتے ہیں۔ ان میں اعلیٰ فکر کے حامل لوگ متکلمین بن کر مذہب کا، فلسفہ و منطق کے طور طریقوں پر دفاع کرتے ہیں اور اسی میں عمر گزار سکتے ہیں۔
۳۔ اگر مذہبی زندگی کے مراحل بخیریت طے ہوتے رہیں تو تیسرا اور آخری دور شروع ہوتاہے۔ یہ دور نہ اعتقادی ہے اور نہ اجتہادی۔ اس دور میں ایمان اور فکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے دونوں درجات سے گزرمکمل ہوجاتاہے۔ اس دور میں عقیدہ جیسی سطحی اور فکر جیسی فقط عقلی زندگی بتدریج معرفت میں داخل ہوتی ہے۔ یہاں جن حقائق کا ادراک تھا ان کی بھی تصدیق کا سامان موجود ہے اور ان جن کا ادراک نہیں تھا ان کے اسرار کھل جانے کا بھی سارا سامان موجود ہے۔
اب جب ہم بات کرتے ہیں کہ علامہ اقبال کے اسلامی عقائد کیا تھے؟ تو ہم اُس درجہ کی بات کرتے ہیں جو مذہبی زندگی کا پہلا درجہ ہے۔ یعنی ایمان۔ نہ کہ اس سے اگلے مدارج یعنی فکر اور معرفت(یعنی وجدانی طور پر سرزد ہونےوالا حسنِ عمل) کی۔
نقوی صاحب! آپ نے فقط جنت اور جہنم یا حیات بعدالموت کے حوالے سے سوال کیا ہے۔
عام عقیدہ کے مطابق جنت میں حوریں ہوں گی، شراباً طہورا ہوگی، ہرقسم کے کھانے ہوں گے، دودھ کی نہریں بہتی ہوں گی۔ یا جہنم میں آگ ہوگی، آگ والے کوڑا بردار فرشتے ہوں گے، ہزاروں سال اُس آگ میں جلنا ہوگا، یا قبر میں عذاب ہوگا، سانپ اور بچھو ہوں گے، [pullquote]مَنْ رَبُّکَ ، مَنْ نَبِیُّکَ، مَنْ دِیْنُکَ[/pullquote]
جیسے سوالات ہوں گے۔
یہ ہے مذہبی زندگی کا وہ درجہ جو اقبال کے نزدیک عقائد تک محدود ہے۔ پھر اس سے اگلا درجہ ہے جب انہی عقائد پر ہم غوروفکر کرنے لگ جاتے ہیں۔ ہرکوئی کرتا ہے۔ ازخود ہوتا ہے۔ اوپر میں وضاحت کرچکا ہوں کہ کون کون کس درجہ کی مذہبی زندگی میں پھنس کر رُک جاتاہے ۔
اب یہ درست ہے کہ ’’علامہ اقبال نے اسلامی عقائد کو ایک نئے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ علامہ اقبال کی اس کاوش کا تنقیدی جائزہ لینا بہرحال ضروری ہے‘‘۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اسلامی عقائد میں اجماع ِ اُمت کے اُصول کو جو بنیادی حیثیت حاصل ہے اُس کے ہوتے ہوئے کیا ہم کسی فردِ واحد کی کوئی کاوش قابل ِ اعتنأ سمجھ سکتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ، فردِ واحد کی کاوش کی اپنی اہمیت ہے اور جب کبھی بھی اُمت کو اجماع کی ضرورت پیش آتی ہے تو ہمیشہ افراد کی انہی کاوشوں کی طرف رجوع کیا جاتاہے جو اپنے اپنے زمانوں میں تقریباً انفرادی سطح کی کوششیں ہی رہی ہوتی ہیں۔
خیر! تو اِس مضمون میں ہم علامہ اقبال کے اسلامی عقائد پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کے لیے صرف میسم نقوی کے سوال یعنی جنت جہنم تک ہی محدود نہیں رہینگے بلکہ مجموعی طور پر تمام بڑے بڑے عقائد پر علامہ اقبال کی گفتگو ملاحظہ کرنے کی کوشش کرینگے جو مذہبی زندگی کے ابتدائی درجہ میں اپنی نہایت سادہ سطح پر موجود ہیں اور اقبال (اپنے ہی بقول مذہبی زندگی کے دوسرے درجہ میں) ان میں اپنی فکر کے ذریعے کیا رنگ بھردیتے ہیں۔ اس مقام تک ہرکاوش کو ’’ علم کلام‘‘ کہا جاتاہے۔
ہمارے بنیادی سورسز میں سب سے اہم خطبات ِ اقبال ہے۔کیونکہ ایک تو یہ نثر ہے اور شعر کے مقابلے میں اِس میں براہِ راست یعنی ڈائریکٹ بات ہوتی ہے نہ کہ استعاروں اور اشاروں کنایوں میں۔ دوسرا یہ کہ یہی کتاب علامہ اقبال کی آخری عمر کی مفصل تحریر ہےاور اس لحاظ اقبال کے عقائد کا یہ وہ ورژن ہے جسے علامہ اقبال کے کسی سابقہ بیان یا تحریر سے رد نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ہم اقبال کے ہر سورس سے بھرپور مدد لینے کی کوشش کرینگے۔ تاکہ پوری طرح جان سکیں کہ اقبال کے عقائد کیا ہیں؟
اقبال خطبات کے دیباچہ میں خود اس بات کا اظہار ہےکہ،
’’وما خلقکم وبعثکم الا کنفس واحدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس (آیت) کا اشارہ جس حیاتی وحدت کی طرف ہے اگر آج اسے تجربے میں لایا جائے تو کسی ایسے منہاج کی ضرورت ہوگی جو عضویاتی اعتبار سے تو زیادہ سخت یعنی شدید بدنی ریاضت کا طالب نہ ہو، مگر نفسیاتی اعتبار سے اُس ذہن کے قریب تر ہو جو گویا محسوس کا خُوگر ہوچکا ہے‘‘
اس اقتباس کے بعد اقبال دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ
’’چنانچہ یہی وہ مطالبہ ہے جسے اِن خطبات میں جو، ’مدراس مسلم ایسویسی ایشن‘ کی دعوت پر مرتب ہوئے اور مدراس، حیدرآباد اور علی گڑھ میں دیے گئے، مَیں نے اسلام کی روایاتِ فکر، علی ھذا ان ترقیات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو علم اِنسانی کے مختلف شعبوں میں حال میں رُونما ہوئیں، الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیل ِ جدید سے ایک حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔
پہلے اقتباس میں، آپ نے اس جملے پر غور کیا؟
’’جو زیادہ سخت یعنی شدید بدنی ریاضت کا طالب نہ ہو‘‘
اس سے ماسوائے اس کے اور کیا مراد ہوسکتی ہے کہ اب ایسے منہاج کی ضرورت ہے جو ’’صوم و صلاۃ‘‘ اور عباداتِ بدنی کی شدت میں کمی لائے؟ اس کے مقابلے میں ’’نفسیاتی اعتبار سے اُس ذہن کے قریب تر ہو جو گویا محسوس کا خُوگر ہوچکا ہے‘‘۔ یعنی موجودہ دور کا سائنسی اور مادی ذہن۔ چنانچہ اقبال کا مدعا دیباچے سے ہی معلوم ہوجاتاہے کہ اقبال کس نوعیت کی تشکیل ِ جدید کرنے جارہے ہیں۔
اقبال کے اسلامی عقائد پر تنقیدی نظر ڈالنے کے لیے ہم ترتیب وار چلتے ہیں۔
عام مسلمان کا عقیدۂ توحید
۔۔۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ اسلام توحید پرست مذہب ہے۔ لیکن جب ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ توحید کیا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔ہم الجھ جاتے ہیں۔ یہ مقامِ ’’فکر‘‘ کا آغاز ہے۔ آسان جواب تو یہ ہے کہ توحید کا مطلب ہے، ’’اللہ ایک ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں‘‘۔ اور اگر کوئی اللہ کے ساتھ اور طاقتوں کو شریک ٹھہرائے تو مشرک ہے اور ظلم عظیم کا مرتکب ہوتاہے۔ پھر جب اسی سادہ سے جواب پر ہم بارِ دگر غور کرتے ہیں کہ توحید کیا ہے تو ہمیں چونکنا پڑتاہے۔ ہمیں سوچنا پڑتاہے کہ’’شرک‘‘ میں کیا کیا آتاہے؟ وحدانیت پسندوں کے نزدیک بعض ایسی باتیں بھی شرک ہیں جو ہمارے نزدیک بالکل عام سی باتیں ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ، ’’میں مُولی نہیں کھاتا۔ اس سے میرے پیٹ میں درد ہوتاہے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ بھی شرک ہے کیونکہ توحید یہ ہےکہ،
’’اللہ تعالیٰ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے‘‘۔
اور دوسری طرف اگر یہ کہا جائے کہ، ’’نہیں جناب شرک اتنا سختی سے سوچنے کا نام نہیں۔کسی کے سامنے جھکنا تعظیم کے لیے بھی ہوسکتاہے۔ کسی شئے کو چومنا محبت کے لیے بھی ہوسکتاہے۔
اور اس طرح پہلی کڑی شرط ’’شرک نہ کرنا‘‘ کی بے شمار تاویلیں نکل سکتی ہیں اور ’نرم و سخت‘ ہردو انتہاؤں کو آرام سے اخذ کیا جاسکتاہے۔سوال یہ ہے کہ پھر توحید کا حقیق معنیٰ کیسے متعین کیا جائے؟
کیا توحید کے معنیٰ میں خدا کا تصور لازمی ہے؟ اگر خدا کا تصور لازمی ہے تو پھر خود ’’تصور ِ خدا‘‘ ہی ایسا لاینحل سوال ہے کہ آج تک دنیا کے کسی مذہب و فلسفہ سے حل نہ ہوسکا۔ کون سا خدا؟ کیسا خدا؟ کیا خدا کا جسم ہے؟ قران میں خدا کی آنکھوں کا ذکر ہے۔ قران میں خدا کے ہاتھ کا ذکر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا خدا کی آنکھیں اور ہاتھ بھی ہیں؟ اگر خدا کا جسم ہے تو وہ ضرور ’’مکان‘‘ میں کسی جگہ بیٹھتاہوگا؟ وہی خدا کا عرش ہے۔ خدا کا عرش کہاں ہے؟ وہ کتنی جگہ گھیرتاہے؟ خدا کتنا بڑاہے؟ اگر وہ جگہ گھیرتاہے اور کہیں دور اس کا جسم کسی عرش پر بیٹھاہے تو پھر جسمانی طور پر تو وہ ہم سے الگ ہوا۔ اس کی حد مقرر ہوگئی۔ تب وہ ہرجگہ، ہروقت کیسے ہوسکتاہے؟
غرض یہ سادہ سادہ سے عوامی سوالات ہیں جو محض یہ کہہ دینے سے کہ توحید میں تصور ِ خدا لازمی طور پر شامل ہے پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان سے آگے سوالات پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جب ہم ’’تصورخدا‘‘ پر بات کرتے ہیں تو عقیدہ توحید جابجا مجروح ہوتا اور بعض اوقات توحید سے فی الواقع بہت دُور نکل جاتاہے۔ مثال کے طور پر تصور خدا پر بات کرتے کرتے ہم اکثر کہتے ہیں،
’’خدا ہرشئے میں جاری ساری ہے لیکن خدا کا مجازی دنیا میں کامل رُوپ انسان خود ہے‘‘۔
آدم کی کسی رُوپ میں تحقیر نہ کرنا
پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کر
مبارک شاہ مرحوم
اگر خدا ہر شئے میں ہے تو ہر شئے مقدس ہوئی اور اگر خدا کا کامل، مجازی رُوپ انسان ہے تو تمام انسان خدا جتنے واجب الاحترام ہوجائینگے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دینِ اکبری وحدت الوجود کے بدترین نتائج میں سے ایک تھا۔ جس میں خنزیر تک کو اِس لیے قابل ِ احترام گردانا گیا کہ چونکہ خدا ہرشئے میں جاری و ساری ہے فلہذا اِس میں بھی خدا موجود ہے۔ مستی کے اِس عالم تک کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض لوگ کُتوں کے منہ چُومتے پھرتے ہیں کہ یہ بھی محترم ہے کیونکہ خدا ہرشئے میں جاری و ساری ہے۔
چنانچہ تصورخدا پر بات کرتے ہوئے ہم خود الجھ جاتے ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ’’توحید‘‘ کہاں سے شروع ہوتی ہے اور ’’شرک‘‘ کہاں سے شروع ہوتاہے کیونکہ شرک کو خود قران نے ظلم عظیم کہہ کر پکاراہے۔ اور یوں اسلام کے سب سے بنیادی عقیدہ میں ہی اتنے بڑے بڑے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں کہ ہم انہیں کسی طور حل نہیں کرسکتے۔
اس کے برعکس وحدانیت پسندوں کا نظریہ ہے۔ اگر وحدانیت پسندوں کو کسی مذہبی گروہ کی شکل میں دیکھنا ہے تو ہمارے سامنے اہلحدیث المعروف ’’وہابی‘‘ فرقہ کی مثال ہے۔ وحدانیت پسندوں کی توحید مختلف ہے اور ان کے نزدیک وحدت الوجودی عقائد کفریہ عقائد ہیں۔ اہلحدیث مصنفین بلاخوف و خطر شیخ اکبر محی الدین ابن عربی جیسے بزرگوں کو ’’الصوفی الملحلد‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔
میرا مدعا یہ ہے کہ ہم عقیدۂ توحید پر مصالحت کس طرح کرسکتے ہیں؟ کیونکہ ہم تصور ِ خدا پر مصالحت نہیں کرسکتے۔ مختلف طبائع کو مختلف طرح کا خدا پسند ہوتاہے۔ ایک قوم قابل ِ رحم حد تک غلامی کا شکار ہوچکی ہو تو اس قوم کی اجتماعی رُوح بھی بدل چکی ہوتی ہے اور اس کے برعکس ایک قوم اگر صدیوں سے آزاد ہے تو اس قوم کی رُوح یعنی اجتماعی طبیعت بھی اتنی ہی بالیدہ ہے۔غلامی میں راضی برضا رہنے والے صرف تقدیر پرست ہی نہیں تقدیر پسند بھی ہوتے ہیں اور ’’ہرشئے میں خدا جاری و ساری ہے‘‘ کا نظریہ انہیں موافق آتاہے۔
ہو اسیری میں بھی نہال اگر
ایسے سمجھو رہا ہوئے ہوہے ہو
اہلسنت والجماعت میں صرف بریلوی مکتبِ فکر ہی وحدت الوجودی عقائد کا دلدادہ نہیں بلکہ دیوبندی مسلک کے سُنی بھی تصورِ خدا میں مکمل طور پر وحدت الوجودی ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک منطقی مقدمہ ہے جسے میں نے اپنی کتاب ’’تصوف، سائنس اور اقبال‘‘ میں یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اِس میں مغالطہ غیر جامع حداکبر ہے۔
کبریٰ: ماخلقت ھذا باطلا (قران)
ترجمہ: یہ کائنات باطل تخلیق نہیں کی گئی
صغریٰ: کل غیراللہ باطلٌ (حدیث)
ترجمہ: ہرغیراللہ باطل ہے
۔۔۔
استنتاج: یہ کائنات غیراللہ نہیں ہے۔
یعنی یہ کائنات عین اللہ ہے۔اور یہ خالص وحدت الوجود ہے۔
اس مقدمہ میں ’’ھذا‘‘ کالفظ مقدمہ کبریٰ کو کلیہ سالبہ سے جزئیہ سالبہ میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس لیے اس مقدمہ میں مغالطہ ہے اور مولانا اشرف علی تھانوی کا استنتاج غیردرست ہے۔
سوال یہ نہیں کہ وحدت الوجود درست ہے یا غلط ۔ وحدت الوجود کی بھی تو قسمیں ہیں۔ ہم جس قدر گہرائی میں اُترتے چلے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہرلحاظ سے ہمارا تصورتوحید متاثر ہوتاہے۔ چاہے وہ عقیدہ، وحدانیت پرستوں کا ہو یا وحدت الوجودیوں کا۔
یہ تو تھی اس بابت تفصیل کہ خود پہلا عقیدہ یعنی عقیدہ توحید ہی آج تک اجماع ِ اُمت کا منتظر ہے تو ہم آگے کیسے بڑھیں؟
اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے تشکیل جدید میں اقبال نے اس وقت کے ترکی کے وزیر اعظم سعید حلیم پاشا کا قول یہ کہتے ہوئے نقل کیا کہ وہ بڑے ہی بابصر اہل قلم ہیں،
’’سعید حلیم پاشا کو افسوس ہے کہ اسلام کے اخلاقی اور اجتماعی مقاصد بھی بعض ایسے توھمات کے زیر اثر جو امم اسلامیہ کے اندر زمانۂ قبل ازاسلام سے کام کررہے تھے، غیر اسلامی شکل اختیار کرتے چلے گئے۔ ان کے مقاصد بھی تو اسلامی بہت کم ہیں۔ عجمی، عربی یا ترکی زیادہ۔ نہ توحید کا صاف ستھرا اور پاکیزہ چہرہ کفر و شرک کے غبار سے محفوظ رہ سکا، نہ قیدِ مقامی کی روز افزوں پابندیوں نے اسلام کے اخلاقی مقاصد کی غیرشخصی اور عالمگیر نوعیت کو برقرار رہنے دیا‘‘۔
میں نے یہاں تک مختلف مکاتب ِ فکر کے عقیدۂ توحید کا اجمالی ذکر کیا۔اور ذکر بھی عوامی نوعیت کا۔ ہاں البتہ یہ کہا جاسکتاہے کہ اعتقادی درجہ کی مذہبی زندگی میں چونکہ ’’سوال‘‘ اور ’’غوروفکر‘‘ کے لیے کوئی جگہ نہیں اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجموعی طور پر عقیدۂ توحید یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی شریک نہیں اور بس۔ اس سے زیادہ نہ ہم جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کا عقیدۂ توحید کیا ہے،
اقبال کا عقیدۂ توحید
۔۔
ایک محقق ڈاکٹر راشد حمید کے الفاظ میں،
’’علامہ کے ہاں مسئلہ توحید اس قدر واضح اور اہم تھا کہ انھوں نے صرف اس نظریے کی الہامی کیفیت کو منزہ اور صاف رکھنے کے لیے وحدت الوجود کی مخالفت کی‘‘
سب سے اہم بات جس کا میں کنایۃً اُوپر بھی ذکر کرآیا ہوں یہ ہے کہ کیا ’’تصورِ خدا‘‘ عقیدۂ توحید کا لازمی جزو ہے؟ بظاہر یہ سوال بڑا عجیب سا ہے لیکن جب ہم عقیدۂ توحید کو بطور عقیدہ کے پیش کرتے ہیں تو مذہبی زندگی کا دوسرا درجہ یعنی ’’فکر‘‘ سے فارغ التحصیل ہونا لازم نہیں آتا بایں ہمہ تصورخدا اور اس کا کسی کنارے لگ جانا بھی لازم نہیں آتا۔ اقبال کے ہاں ہم عقیدۂ توحید کو بطور ایک عقیدہ کے تصور خدا کے فکری عمل سے ماورأ پاتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک،
"The essence of"Tauhid" as a working idea is equality, solid- -arity, and freedom.The state, from the Islamic stand point, is an endeavour to transform these ideal principles into space-time forces"
(The Reconstrustion of Religious Thought in Islam-p154)
یعنی عقیدہ توحید کا نچوڑ مساوات‘حریت اور استحکام میں ہے اور ریاست، اسلامی نکتہ نظر سے، ان زرّیں اصولوں کو زمان و مکاں میں مشہود کرنے کا نام ہے ۔ اس تعریف میں تو خدا کا ذکر ہی نہیں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اقبال کی توحید ’’خدا ایک ہے اور اُس کا کوئی شریک نہیں‘‘ کی اسلامی تعریف کو تسلیم نہیں کرتی۔ نہیں!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اقبال عقیدہ کے عملی پہلو کو مرکزی اہمیت دیتاہے اور اس کے عقلی پہلو یعنی تصور خدا کو مذہبی زندگی کے دوسرے درجہ یعنی ’’ فکر‘‘ یا اجتہادی درجہ کے لیے چھوڑ دیتاہے۔ اس لیے فقط توحید کا اقبالی فہم مقصود ہو تو یہ ’’اُمتِ واحد‘‘ کی خواہش کا نام ہے۔ جیسا اقبال نے تشکیل کے دیباچہ میں کہا اور میں نے پہلے بھی کوٹ کیا کہ،وما خلقکم وبعثکم الا کنفس واحدہ۔۔۔۔۔۔سے اقبال کی مراد ایک ’’نامی وحدت‘‘ ہے۔ ایک ایسا آرگینک طرز کا رشتہ جو دنیا کے تمام انسانوں کے درمیان پیدا ہوجائے اور وہ خود کو ایک جسم محسوس کرنے لگیں۔یہ ہے اقبال کی توحید ۔ اس توحید کے پہلے سرے پر انسان بطور فرد وارثِ کائنات ہے اور اس کے آخری سرے پر انسان بطور اُمت وارث کائنات ہے۔ اس میں خدا اور تصورخدا کا کچھ خاص تذکرہ نہیں ہے۔ خدا کیساہے؟ کتنا بڑاہے؟ اس کے واحد ہونے سے کیا مراد ہے؟ یہ سوالات اقبال اجتہادی درجہ کے لیے چھوڑ چکاہے۔
ناشکیب امتیازات آمدہ
در نہادِ او مساوات آمدہ
ہمچو سرو آزاد فرزندانِ اُو
پختہ از قالو بلیٰ پیمانِ اُو
(مورز بے خودی‘کلیات اقبال‘ص ۱۰۴
خدا کا وحدہُ لاشریک ہونا اقبال کے نزدیک فکر و عقل سے متعلق مسئلہ نہیں بنیادی طور پر عمل سے متعلق مسئلہ ہے۔اور ویسے بھی پوری دنیا کے انسان مل کراگر کہنا شروع کردیں کہ ’’خدا ایک ہے‘‘، تب بھی خدا کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور اگر ساری دنیا کے انسان مل کر یہ کہہ دیں کہ خدا ایک نہیں کئی ہیں، تب بھی خدا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عقیدۂ توحید کے تحت خدا کو انسانوں سے اپنے ایک ہونے کا اقرار سننے کا شوق نہیں۔ یہ کوئی پہلوانی کا مقابلہ ہے نہ یونانی خداؤں کی طرح تکبر اور برتری کے احساس کا اظہار۔ اسلامی توحید عملی سرگرمی ہے۔ اس لیے اسے بطور عقیدہ بھی اساطیری طرز کی وحدانیت سے الگ کرکے دیکھنا ہوگا۔ یہاں خدا قصے کہانیوں کا کردار نہیں، معاشرے میں موجود ایک حی و قیوم قوت ہے جو نفس واحدہ میں جلوگر ہے بایں ہمہ نفس واحدہ اپنی مُراد پاتاہے تو ہرقسم کی دوئی سے پاک ہوکر۔
اقبال کی توحید کسی حد تک سپائنوزا کے توحیدِ وجود سے مماثلت رکھتی ہے۔ اقبال ’’جسم اور رُوح‘‘ کو دو الگ الگ اجزأ نہیں سمجھتا۔ اقبال کے الفاظ میں،
"According to the Quran they do belong to the same system. "To Him belong' Khalq (creation) and 'amr'(direction)."Thus my real personality is not a thing, it is an act. My whole reality lies in my directive attitude. You cannot perceive me like a thing in space"
(The Reconstruction of Religious Thought in Islam p.103)
اقبال کے نزدیک اسلامی نظریہ توحید کی رُو سے تمام کائنات میں وحدت کا اُصول کارفرما ہے۔ اور اس لحاظ سے یہ نظریہ محض اساطیری طرز کا عقیدہ نہیں ہے۔
اقبال کا عقیدۂ رسالت
۔۔
اقبال نے تشکیل ِ جدید میں لکھاہے،
’’ایک اعتبار سے نبوت کی تعریف یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ شعور ولایت کی وہ شکل ہے جس میں وارداتِ اتحاد اپنے حدود سے تجاوز کرجاتی اور ان قوتوں کی پھر سے رہنمائی، یا ازسرنوتشکیل کے وسائل ڈھونڈتی ہیں جو حیات اجتماعیہ کی صورت گر ہیں‘‘۔
نبوت کو ولایت کی ایک مزید ترقی یافتہ شکل قرار دیتے ہوئے اقبال ’’وحی‘‘ کے معنی کو متعین کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ عام معنوں میں تو وحی اُس کلام کو کہتے ہیں جو خدا اپنے نبی یا رسول کے ساتھ کرتاہے۔ لیکن اقبال قران کی ہی آیات کی مدد سے یہ مؤقف اختیار کرتاہے کہ،
’’قران مجید نے لفظ وحی کا استعمال جن معنوں میں کیا ہے ان سے تو یہی ثابت ہوتاہے کہ وحی خاصۂ حیات ہے اور ایسا ہی عام جیسے زندگی۔ یہ دوسری بات ہے کہ جوں جوں اس کا گزر مختلف مراحل سے ہوتا یا یوں کہیے کہ جیسے جیسے وہ ارتقا اور نشوونما حاصل کرتی ہے ویسے ہی اس کی ماہیت اور نوعیت بدلتی رہتی ہے۔ یہ کسی پودے کا زمین کی پہنائیوں سے آزادانہ سرنکالنا، یہ کسی حیوان میں ایک نئے ماحول کے مطابق کسی نئے عضو کا نشوونما، یہ انسان کا خود اپنی ذات اور وجود میں زندگی کی گہرائیوں سے نور اور روشنی حاصل کرنا، یہ سب وحی کی مختلف شکلیں ہیں‘‘۔
پہلے پیرے میں نبوت کی تعریف اور دوسرے پیرے میں وحی کے معنی کی تعیین سے ثابت ہورہاہے کہ اقبال وحی کو بہرحال ارتقا پذیر قوت سمجھتا ہے۔ خاص طور پر یہ الفاظ کہ،
’’جیسے جیسے وہ ارتقأ اور نشوونما حاصل کرتی ہے ویسے ہی اس کی ماہییت اور نوعیت بدلتی رہتی ہے‘‘۔
یہاں اقبال کے خیال پر ایک بے رحم سوال اُٹھتاہے کہ ’’اگر وحی ارتقا پذیر قوت کا نام ہے تو پھر اس قوت کا ارتقا ایک خاص مقام پر رُک کیوں گیا؟ بایں ہمہ اگر اقبال کی نبوت کی تعریف اور وحی کی تعریف کو قبول کرلیا جائے تو لازم آتاہے کہ اقبال کے عقیدہ ٔ ختم نبوت کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اقبال کے عقیدۂ ختم نبوت پر نظرثانی کریں۔ اقبال کا یہ جملہ قابل ِ غور ہے،
’’جیسے جیسے وہ ارتقأ اور نشوونما حاصل کرتی ہے ویسے ہی اس کی ماہییت اور نوعیت بدلتی رہتی ہے‘‘۔
اقبال نے وحی کی برتر شکلوں کو ماہییت اور نوعیت کے اعتبار سے مختلف قرار دیاہے۔ گویا اس طرح اقبال اُس سخت تنقید سے بچ سکتا ہے جو وحی کو شعور ولایت کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل قرار دینے سے اقبال پر وارد ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ یوں کہ اگر ہم وحی کی ایک ایسی نوعیت کو بھی تسلیم کرلیں جو فی الواقعہ اپنی نوع کے اعتبار سے یکسر مختلف تجربہ ہے تو اقبال بچ سکتاہے۔ اقبال بلاشبہ اسے ایک یکسر مختلف تجربہ قرار دیتا ہے اور یوں گویا وہ شعور ِ ولایت اور شعور نبوت میں درحقیقت درجے کا نہیں بلکہ نوعیت کا فرق قائم کرکے ان کے ردمیان ایک دیوار کھڑی کردیتا ہے۔ اقبال نے ابن صیاد کا واقعہ درج کرکے یا ایک مغربی مفکر کے اس خیال کا جواب دیتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم معاذاللہ سُوئے اعصاب کا شکار تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گویا باقاعدہ اس بات کو عملاً تسلیم بھی کیا ہے کہ شعور ولایت اور شعورنبوت کا فرق درجاتی نہیں بلکہ نوعی ہے۔یہ فرق بالکل ویسا ہی ہے جیسا دو مختلف انواع میں ہوسکتاہے۔ دراصل اقبال کو کائنات میں وحدت ہی وحدت نظر آتی ہے چنانچہ وہ یہ گوارا نہیں کرتا کہ رسول کی وحی کو تو خارج سے وارد ہونے والی واردات کہا جائے جیسا کہ وحی کو عام عقیدے کی رُو سے سمجھا جاتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ ایک معمولی ولی کے کشف والہام کو اس کے اندرونِ ذات کی کوئی گہری واردات قراردیا جائے۔ اقبال وحی کو شعورِ ولایت سے اس طرح بلند تر دیکھتاہے کہ اس کے نزدیک شعور ِ ولایت کی واردات ذاتی اور انفرادی بلکہ خودغرضانہ ہوتی ہے جبکہ نبی کی واردات حیاتِ اجتماعیہ کی تشکیل نو بلکہ تعمیر نو کا موجب بنتی ہے جو ثبوت ہے اس بات کہ دونوں میں درجے کا نہیں نوع کا فرق ہے۔
اقبال کا عقیدۂ ختم نبوت
۔۔
اقبال ختم نبوت کا عقیدہ اختیار کرتے ہوئے سب سے پہلے شعور نبوت اور شعور ولایت کا یہی فرق بیان کرتاہے اور اسی کی بنا پر ایک نتیجہ اخذ کرتاہے کہ،
’’اب بنی نوع انسان کے عالم صغرسنی میں ایسا بھی ہوا کہ اس کی نفسی توانائی کا نشونما شعور کی وہ صورت اختیار کرلے جسے ہم نے شعور نبوت سے تعبیر کیا ہے‘‘۔
یہاں نوع ِ انسانی کے عالم صغرسنی سےاقبال کی کیا مُراد ہے۔ اقبال کہنا چاہ رہا ہے کہ جب انسانی تاریخ میں نبی آیا کرتے تھے تو دراصل اس وقت انسان بحیثیت مجموعی بچہ تھا۔ اس لیے اس وقت تک نبی آتے رہے۔ قابل ِ غور بات یہ ہے کہ اس جملہ میں اقبال نے وحی کو ’’نفسی توانائی‘‘ کہہ کر پکاراہے جو باقاعدہ نشوونما پاتی ہے۔ جملہ دوبارہ ملاحظہ کیجے!
’’اب بنی نوع انسان کے عالم صغرسنی میں ایسا بھی ہوا کہ اس کی نفسی توانائی کا نشونما شعور کی وہ صورت اختیار کرلے جسے ہم نے شعور نبوت سے تعبیر کیا ہے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ اگر نفسی توانائی کا نشوونما ایسا ہی ارتقائی عمل تھا تو پھر ایک خاص وقت میں اس کا ارتقا اچانک رُک جانا کیونکر معقول ہے؟ اگر یہ کمال بنی نوع انسان کے عالم ِ صغرسنی میں وقوع پذیر ہوتارہا ہے تو انسان کے بڑا ہوجانے کے بعد یہ ارتقائی عمل خود بخود کس قائدے کی بنا پر رُک گیا؟
اس کے بعد اقبال فرض کرلیتا ہے کہ،
’’اور جس کے معنی یہ ہیں کہ اس شعور کی موجودگی میں نہ تو افراد کو خود کسی چیز پر حکم لگانا پڑے گا، نہ ان کے سامنے یہ سوال ہوگا کہ ان کی پسند کیا ہو اور ناپسندیدگی کیا۔ انہیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ وہ اپنے لیے کیا لائحہ ِ عمل اختیار کریں۔ یہ سب باتیں گویا پہلے ہی سے طے شدہ ہونگی۔ یہ نہیں کہ انہیں اس بارے میں خود اپنے فکر اور انتخاب سے کام لینا پڑے‘‘۔
یوں گویا اقبال نے ختم نبوت کو ایک مظہر فطرت قرار دیاہے۔جو لوگوں پر پہلے سے طے شدہ پابندیاں لے کر نازل اور ظاہر ہوتاہے۔اوّل تو اس مظہرفطرت کو بیان کرنے کے لیے اقبال نے ایسا کوئی اصول ِ فطرت بیان نہیں کیا جسے ہم فلسفیانہ استدلال قرار دے سکیں۔ محض یہ کہہ کر کہ ایک زمانہ تھا جب انسان بچہ تھا تو اس وقت کسی کی نفسی توانائی کا نشوونما اس قدر بڑھ جاتا کہ وہ شعور ِ نبوت کی صورت اختیار کرلیتا اور شعور ِ نبوت یہ ہوتا کہ اس کے بعد ماننے والوں کو اپنے فکر اور انتخاب سے کام نہ لینا پڑتا۔ وہ اس نبی کی ہر بات مانتے چلے جاتے۔ انہیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے لیے کیا لائحہ ِ عمل اختیار کریں۔ یہ سب باتیں گویا پہلے ہی سے طے شدہ ہوتیں۔ اور پھر اچانک یوں ہوا کہ فطرت کا یہ مظہر پیش آنا بند ہوگیا۔ اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔
بظاہر معلوم ہوتاہے کہ اقبال ختم نبوت کا عقیدہ سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال وحی کو ایک ارتقا پذیر قوت سے تعبیر کرتا اور اسے نفسی توانائی قرار دیتا ہے۔اور یوں اقبال کی یہ کوشش کہ وحی اور کشف کے درمیان نوعی حد ِ فاصل کھینچ سکے خود بخود کالعدم ہوجاتی ہے۔
وحی کو اقبال نے اس لیے بھی مظاہر فطرت میں سے قرار دیا ہے کہ اقبال کے سامنے، شہد کی مکھی کو وحی کرنے والی آیت، اُم ِ موسیٰ کو وحی کرنے کی آیت یا شیطان کی طرف سے اپنے دوستوں کو بھیجی گئی وحی والی آیت بھی موجود رہی۔ جیسا کہ اقبال نے خود ان آیات کا ذکر کیا۔ اقبال نے تویہاں تک کہا کہ ایک درخت کا زمین سے آزادانہ پھوٹ پڑنا بھی وحی کے زیر ِ اثر ہے۔ بلاشبہ ان آیات سے یہی مترشح ہوتاہے کہ وحی ایک ایسی عالمگیر رہمنائی کو کہتے ہیں جو فطرت میں ہرشئے کے لیے کارفرمارہتی ہے۔ اسی استدلال کی بنا پر اقبال نے اپنا مقدمہ کھڑا کیا اور کہہ دیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’اب بنی نوع انسان کے عالم صغرسنی میں ایسا بھی ہوا کہ اس کی نفسی توانائی کا نشونما شعور کی وہ صورت اختیار کرگیا جسے ہم نے شعور نبوت سے تعبیر کیا ہے‘‘۔
اس طرح کہہ دینے سے گویا اقبال نے یہ تسلیم کرلیا کہ وحی ارتقا پذیر ہے چنانچہ اگراقبال کی تصریحات کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ ماننا لازم آئے گا کہ وحی کا ارتقا اب بھی جاری ہے۔ اور اب بھی ایسا ممکن ہے کہ کسی شخص کی ’’نفسی توانائی‘‘ اچانک ارتقا کرجائے اور وہ شعور نبوت حاصل کرلے۔
مختصر یہ کہ اقبال کے عقیدۂ ختم نبوت سے ختم نبوت کا ماننا لازم نہیں آتا۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر نفسی توانائی ارتقاپذیر ہے تو پھر اس کا ارتقا رُک کیوں گیا اقبال کا کہناہے کہ،
’’شعور نبوت کو گویا کفایت فکر اور انتخاب سے تعبیر کرنا چاہیے۔ لیکن جہاں عقل نے آنکھ کھولی اور قوت تنقید بیدار ہوئی تو پھر زندگی کا مفاد اسی میں ہے کہ ارتقائے انسانی کے اولین مراحل میں ہماری نفسی توانائی کا اظہار جن ماورائے عقل طریقوں سے ہوا تھا ان کا ظہور اور نشوونما رک جائے‘‘۔
اس اقتباس میں اقبال نے کہا ہے کہ رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب نے دراصل ’’عقل کی آنکھ کھول دی اور قوت ِ تنقید کو بیدار کردیا‘‘ ۔ مزید وضاحت یہ ہے کہ رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب نے گویا استقرائی عقل کو جنم دیا۔ اقبال نے انہی سطور میں باقاعدہ استقرائی عقل کے آغاز کی بات بھی کی ہے۔ یہاں یہ بتادینا ضروری ہے کہ استقرائی عقل سے مراد ہے سائنسی طریقہ کار۔ یعنی تنقید کا طریقہ کار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال کرنے کا طریقہ کار اور حسی تجربے پر اعتماد کرنے کا طریقہ کار۔ کیونکہ اسلام سے قبل یونانی فکر کی تقلید میں انسانیت حسی تجربات سے حاصل ہونے والے علوم سے نفرت کرتی تھی۔ اسلام نے آکر یہ اعلان کردیا کہ اب آنکھیں کھولنے کا وقت ہے۔ یہ دنیا خیالی نہیں ہے۔ یہ کائنات حقیقی ہے۔ اس کی سیر کرو! اسے تسخیر کرو! چاند ستاروں کی گردش پر غور کرو! درختوں، پھولوں، پتھروں اور پہاڑوں پر غور کرو! اور گویا اسلام نے سائنس کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ یوں اقبال اپنے عقیدۂ ختم نبوت کو ایک اور طریقہ سے کمک پہنچاتا اور کامیابی سے ہمکنار ہوتاہے۔ وہ اس طرح کہ اقبال کے مطابق اسلام کا ظہور عالم ِ مشہودات میں استقرائی عقل کا آغاز تھا۔ اس سے قبل استخراجی عقل کارفرما تھی۔ استخراجی اور استقرائی عقل کے عین درمیان رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات موجود ہے۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں،
’’اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یوں نظر آئے گا جیسے پیغمبر اسلام کی ذات گرامی کی حیثیت دنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطہ کی ہے۔ بہ اعتبار اپنے سرچشمہ وحی کے آپ کا تعلق دنیائے قدیم سے ہے لیکن بہ اعتبار اس کی روح کے دنیائے جدید سے‘‘۔
اقبال کے نزدیک نبوت کا معراج ہی یہی تھا کہ وہ انسان کو استخراجی عقل کی پرستش سے نکال کر استقرائی عقل تک لے آئے۔ اگر ایک بار انسان استقرائی عقل اختیار کرنے میں کامیاب ہوگیا تو پھر اسے نبیوں اور رسولوں کی ضرورت نہ رہیگی۔ کیونکہ اب وہ اس وحی کو جو ایک مظہر فطرت ہے براہِ راست خود حاصل کرنے کا اہل ہوچکا ہوگا۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں،
’’لیکن یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ حیات ِ انسانی اب وارداتِ باطن (وحی) سے، جو باعتبار نوعیت انبیأ کے احوال و واردات سے مختلف نہیں، ہمیشہ کے لیے محروم ہوچکی ہے۔قران مجید نے ’آفاق و انفس‘ دونوں کو علم کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اس کا ارشاد ہے کہ آیات کا ظہور محسوسات و مدرکات میں، خواہ ان کا تعلق خارج کی دنیا سے ہو یا داخل کی ، ہر کہیں ہورہا ہے‘‘۔
اس تمام تر استدلال کے بعد اقبال اپنے اصل عقیدہ کی وضاحت کرتاہے۔ اقبال وحی کی نشوونما کا قائل ہے تو اپنے افکار کا ساتھ دیتے ہوئے اس کے تازہ بہ تازہ ارتقا کا منکر نہیں ہے۔ جیسے کہ ہم ابھی ایک اقتباس میں دیکھ چکے ہیں۔ چنانچہ اقبال آئندہ سطور میں نہایت وضاحت کے ساتھ بتاتاہے کہ دراصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وحی نہیں جو رک گئی ہے بلکہ یہ ’’دعویٰ‘‘ ہے جو روک دیا گیا ہے۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں،
’’اگر ہم نے ختم نبوت کو مان لیا تو گویا عقیدۃً یہ بھی مان لیا کہ اب کسی شخص کو اس دعوے کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کے علم کا تعلق چونکہ کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے لہذا ہمیں اس کی اطاعت لازم آتی ہے‘‘۔
اب ایک آخری منطقی سوال یہ بچ جاتاہے کہ اگروحی کا ارتقأ نہیں روکا گیا اور اس فطری مظہر کا اظہار آج بھی ہورہا ہے تو پھر دعویٰ کیوں روک دیا گیا؟ یعنی آج اگر کوئی شخص وحی کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ ہم کیوں نہ تسلیم کرینگے؟
اس سوال کا جواب ہم پہلے دیکھ آئے ہیں۔ قران کی وحی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کے ساتھ ہی کائنات کے پست و بلند پر غور کرنے کی اجازت عطاکردی گئی۔ یعنی استقرائی عقل عطاکردی گئی۔ بقول اقبال سقراط کا موضوع تو صرف انسان ہے۔ افلاطون کو تو حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والے علم سے نفرت ہے اور ان کی پیروی میں ساری یونان کی علمی تاریخ کو عالم ِمحسوس سے نفرت ہے۔ وہ صرف استخراجی عقل کے قائل ہیں۔ دوجمع دو چارہوتاہے جیسے پختہ اصولوں کی روشنی میں حاصل ہونے والے علم کو علم مانتے ہیں۔ وہ تو ستاروں ، سیاروں، پھولوں ، پودوں، درختوں اور پہاڑوں کے علم کو علم نہیں مانتے۔ قران بہ اصرار یہ منواتاہے کہ حسی تجربے سے حاصل ہونے والا علم بھی علم ہے۔ حسی تجربے سے حاصل ہونے والی علم کی بنیاد ’’شک‘‘ پر ہے۔
یہ چیز کیا ہے؟ یہ پتھر کالے رنگ کا کیوں ہے؟ یہ درخت اونچا اور وہ درخت پست قد کیوں ہے؟ یہ شکوک و شبہات جن کی اجازت اسلام نے دی۔ گویا عقل اب تنقید کرنے کے قابل ہوگئی۔ وہ حسی اور عقلی دونوں طرح کے علوم سے مستفید ہونے کی اہل ہوگئی تو پھر گویا وہ عقلیت کی قبر سے نکل کر آزاد ہوگئی۔ آزاد عقل کو کسی انسان کی رہنمائی کی نہیں بلکہ خود پر اعتماد کی ضرورت تھی۔ اسے قران نے غوروفکر کرنے پر شدت کے ساتھ اکسایا اور انسان کی سرے سے جان ہی چھوٹ گئی۔ اگر اسلام کو مذہب نہ سمجھا جائے تو دوسرے الفاظ میں یہی کہنا پڑیگا کہ اسلام دراصل تمام تر الوہی مذاہب سے چھٹکارا دلانے کے لیے نازل ہوا تھا۔
یعنی اقبال کے نزدیک انسان کو صوفیانہ واردات سے رہنمائی اب بھی ملیگی لیکن اب وہ آزاد ہے اور جو کچھ الہام، کشف یا وحی ہے وہ اس کا اپنا ہی ہے اور وہ اس کا اکیلا ہی ذمہ دار ہے۔ اس کے نتائج سے اگر دیگر لوگ اتفاق بھی کرلیں تب بھی ان پر اُس کی اطاعت لازم نہیں آئے گی کیونکہ وہ سب پھر اپنی تنقیدی عقل کو استعمال کرنے میں حق بجانب ہونگے۔
اقبال کا عقیدہ آخرت (جنت، جہنم، حیات بعدالموت)
۔۔
اقبال کہتے ہیں،
’’زندگی وہ فرصت ہے جس میں خودی کو عمل کے لاانتہا مواقع میسر آتے ہیں‘‘۔
موت سے پہلے اس جملے کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے۔ اقبال کہنا چاہ رہے ہیں کہ خودی جو انسانی شخصیت کا اندرنی اور نہایت گہرا رُخ ہے۔۔۔۔۔۔۔ عرصۂ حیات ِ جسمانی کے دوران عمل کے ذریعے خود کو مستحکم بناسکتی ہے۔ مزید سادہ الفاظ میں انسان اپنی شخصیت کوحسن عمل کے ذریعے مستحکم بناسکتاہے اور یہ موقع اس کی شخصیت کو جسمانی زندگی کے عرصہ میں نصیب ہوتاہے۔ کیونکہ اقبال کے نزدیک ایک مستحکم خودی کو موت نہیں آتی۔ بقول اقبال،
فرشتہ موت کا چھُوتاہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دُور رہتاہے
یا
زندگانی ہے صدف قطرۂ نیساں ہے خودی
وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
ہو اگر خود نگر و خودگرو خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
چنانچہ عرصہ حیاتِ جسمانی خودی کی عارضی قیام گاہ ہے۔ پیکرآدم ِ خاکی میں مشہود ہونے سے پہلے خودی فرد کی انفرادی سطح پر اپنی ایک اور الگ شناخت کی حامل نہیں تھی، یعنی اگر وہ کسی لامتناہی ہستی سے انسان میں منتقل ہوئی ہے تو بھی انسان بننے سے پہلے اس کی الگ شناخت نہ تھی۔انسانی وجود میں جوھر کی صورت جلوہ گر ہونے کے بعد خودی کو ایک الگ انفرادی شناخت ہاتھ آگئی۔ اب اگر خودی چاہے تو اپنی شناخت کو مزید مضبوط بناتے ہوئے ہمیشہ کے لیے خود کو اتنا مستحکم کرلے کہ عارضی حیات میں کسی بھی قسم کا حادثہ اس کی صحت پر اثرانداز نہ ہو۔ یہاں تک کہ یہ حادثہ اگر ’’موت‘‘ کا حادثہ ہو تب بھی۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں،
’’لہذا خودی نے اپنے عمل اور سعی کی بدولت اگر اسی زندگی میں اتنا استحکام پیدا کرلیا کہ موت کے صدمے سے محفوظ رہے تو اس صورت میں موت کو بھی ایک راستہ ہی تصور کیا جائیگا‘‘۔
آخرت کی زندگی سے متعلق اقبال کا مؤقف بڑا دلچسپ ہے، اقبال کا کہنا ہے کہ،
’’موت اس (خودی) کا پہلا امتحان ہےتاکہ وہ دیکھ سکے اسے اپنے اعمال و افعال کی شیرازہ بندی میں کس حد تک کامیابی ہوئی۔ اعمال کا نتیجہ نہ تو لطف ہے نہ درد۔ اعمال یا تو خودی کو سہارا دیتے ہیں یا اس کی ہلاکت اور تباہی کا سامان کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ امر کہ خودی فنا ہوجائے گی یا اس کا کوئی مستقبل ہے عمل پر موقوف ہے اور اس لیے خودی کو برقرار رکھینگے تو وہی اعمال جن کی بنا اس اصول پر ہے کہ ہم بلا امتیازِ من و تُو خودی کا احترام کریں۔ لہٰذا بقائے دوام انسان کا حق نہیں۔ اس کے حصول کا دارومدار ہماری مسلسل جدوجہد پر ہے۔ بالفاظ دگر ہم اس کے اُمیدوار ہیں‘‘۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اقبال بعثتِ ثانیہ سے کیا مراد لیتے ہیں؟ تو یہاں ہم اُن کا یہ اقتباس دیکھتے ہیں،
’’علمائے الٰہیات کے درمیان جو مسئلہ مختلف فیہ ہے وہ یہ کہ انسان کی بعثت ِ ثانیہ پر کیا اس کا جسم بھی پھر سے زندہ ہوجائے گا۔ اس میں زیادہ ترخیال یہ ہے اور شاہ ولی اللہ کی رائے بھی جن کی ذات پر گویا الٰہیات اسلامیہ کا خاتمہ ہوگیا یہی تھی کہ حیات بعد الموت پر ایسا کوئی مادی پیکر ناگزیر ہے جو خودی کے نئے ماحول میں اس کے مناسب حال ہو۔ لیکن میں سمجھتاہوں ان کے اس نظریے کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ جب ہم خودی کا تصور بحیثیت ایک فرد کے کرتے ہیں تو ضروری ہوجاتا ہے کہ اسے کسی مقام یا اختباری پس منظر سے نسبت دیں‘‘۔
گویا اقبال کہہ رہے ہیں کہ بعثتِ ثانیہ کے وقت کسی پیکر کا ہونا محض ہمیں ضروری لگتاہے کیونکہ ہم جب خودی کو فرد ِ واحد سمجھتے ہیں تو پھر اس کے لیے مکان میں ہونا بھی لازمی سمجھتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک دوبارہ اُٹھایا جانا جسمانی طور پر ضروری نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ،
’’کیونکہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ انسان کا معاد کسی نہ کسی جسد عنصری سے وابستہ ہے ، خواہ اس جسد عنصری کی حقیقت کچھ بھی ہو اور سردست ہم اسے سمجھ بھی نہ سکیں ، جب بھی بعثت ِ ثانیہ کے باب میں ہمیں کوئی بصیرت حاصل نہیں ہوتی۔ قران مجید نے بھی اس سلسلے میں جن مماثلتوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان سے مقصود صرف یہی ظاہر کرنا ہے کہ بعثت ثانیہ ایک حقیقت ہے، یہ نہیں کہ اس کی ماہیت کیا ہے‘‘۔
جنت اور جہنم کے حوالے سے تو اقبال نے نہایت واضح الفاظ میں اپنا عقیدہ بیان کیا ہے،
’’جنت اور دوزخ اس (خودی) کے احوال ہیں۔ مقامات یعنی کسی جگہ کے نام نہیں ہیں‘‘۔
مزید لکھتے ہیں،
’’جیسے دوزخ کے بارے میں ارشاد ہے کہ اللہ کی جلائی ہوئی آگ جو دلوں تک پہنچتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر وہ انسان کے اندر بہ حیثیت انسان اپنی ناکامی کا درد انگیز احساس ہے، جیسے بہشت کا مطلب ہے فنا اور ہلاکت کی قوتوں پر غلبے اور کامرانی کی مسرت‘‘۔
تبصرہ لکھیے