ستم کی وادی میں ظلم کی دیوی
قوم کے ان گمنام جان بازوں کو سلام
8جولائی 2016ء کے بعد کشمیر ی نوجوانوں نے گزشتہ تین دہائیوں کے کم عرصے میں تیسرے بڑے انتفادہ کی شروعات کرکے عوامی تحریکات کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو دنیا کی ہسٹری میں ایسی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے جس میں مسلسل تین ماہ تک عوام نے مجموعی طور پر ظلم و جبر اور بنیادی حقوق کی پامالیوں کے خلاف اپنے روز مرہ کے کام کاج کو خیر باد کہتے ہوئے سڑکوں پر نکل کر صدائے احتجاج بلند کیا ہو، یہ تین ہی ماہ نہیں ہیں بلکہ چوتھے مہینے میں عوامی تحریک داخل ہوچکی ہے اور کہیں پر بھی تھکاوٹ کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آ رہا ہے۔ 8 کشمیری قوم جس کے بارے میں مفروضے قائم کیے گئے ہیں کہ اِس میں مستقل مزاجی نہیں ہے، نے اکیسویں صدی کے اس دور میں جب انسان سیکنڈوں کا حساب رکھ کر مادی ترقی کی اندھی دوڑ میں لگ چکا ہے، کشمیریوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر تحریک حق خود ارادیت کی جدوجہد کی آبیاری کرنے کو ترجیح دی۔ عوامی جوش، جذبے اور ولولے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو ٹرانسپورٹر بینک سے قرضہ لے کر گاڑیاں حاصل کر چکے ہیں اور جنہیں مہینے میں ایک اچھی خاصی رقم بطور قسط ادا کرنی پڑتی ہے ،
صد ہا مشکلات کے باوجود چار ماہ بعد بھی وہ متحدہ قیادت کے کلینڈر پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔ جو تاجر دن بھر لاکھوں کماتے تھے اُنہوں نے گزشتہ تین ماہ کے دوران اپنے دکانوں اور کاروباری اداروں کو بند رکھ کر ثابت کردیا کہ پیسہ قومی کاز کے سامنے ایک حقیر چیز ہوتی ہے۔ محتاط تخمینوں کے مطابق کشمیر کی معیشت کو ہڑتال کے پہلے ڈھائی ماہ میں 10000 کروڑ کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ الغرض مادی اور اقتصادی ترقی کے سہانے خواب بھی کشمیریوں کے عزم و ہمت کو نہیں توڑ سکے ہیں۔
ہمارے حریفوں کو پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ کشمیری نام کی یہ قوم ایسی ہے جسے مالی مفادات، تعمیر و ترقی اور اقتصادی مراعات کی لالچ اپنی راہ تبدیل کرنے سے نہیں روک سکتی، اس لیے حکومت ہند اور اُس کے مقامی کارندوں نے طاقت کی زبان سے کشمیری عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوششیں کیں، جو تاحال جاری ہیں۔ تین ماہ کے عرصے میں یہاں93 افراد گولیوں اور پیلٹ گن کے چھروں سے جان بحق کردیے گئے۔ 14500 افراد جن میں خواتین، بچے، نوجوان اور بزرگ بھی شامل ہیں کو بری طرح سے گولیوں، پیلٹ گنوں اور لاٹھیوں سے زخمی کردیا گیا۔ 12244 زخمی افراد ریاست کے بڑے ہسپتالوں میں داخل کرائے گئے ہیں اور اُن میں سے بیشتر تاحال شفاخانوں میں ہی زیر علاج ہیں۔ جن زخمیوں کا علاج مقامی سطح پر پرائمری ہیلتھ سنٹروں پر کرایا گیا اُن کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ 1062 افراد کی آنکھیں پیلٹ گن کے چھروں سے زخمی ہوئی ہیں، جن میں سے51 افراد کی دونوں آنکھیں متاثر ہوئی ہیں جبکہ 50 افراد کا Optic Nerve اور 250 افراد کا Macula متاثر ہوا ہے۔ ڈاکٹر وں نے 500 سے زائد افراد کے آنکھوں کی دو دو تین تین سرجریاں کرکے اُن کی بینائی واپس لانے کی جی توڑ کوششیں کی ہیں، اس کے باوجود وہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بیشتر زخمیوں کی ایک یا پھر دونوں آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم ہونے کے خدشات ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ مسلسل سرجریاں کرنے کے بعد اب ڈاکٹر یہ کہہ رہے ہیں کہ آنکھوں سے متاثر ہونے والے زخمیوں میں اکثر Legally Blind رہیں گے یعنی اُنہیں بہت ہی قریب کی چیزیں بھی دھندلی ہی نظر آئیں گی۔ مثلا ہم پلوامہ کے رہنے والے15 سالہ اویس فاروق جن کی دونوں آنکھیں پیلٹ کے چھروں سے بُری طرح سے متاثر ہوچکی تھیں۔ ڈاکٹروں کی مسلسل کوششوں اور کئی سرجریوں کے باوجود وہ اپنی دائیں آنکھ سے سایہ ہی دیکھ پاتے ہیں جبکہ بائیں آنکھ سے نزدیک کی چیزیں تھوڑا سا صاف دکھائی دیتی ہیں۔ جب دونوں آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو بھی نہیں گن پاتا۔
پیلٹ گن جسے اسرائیل سے برآمد کر کے دلی اور یہاں کی حکومت غیر مہلک ہتھیار قرار دے رہی ہے، سے تاحال نہ صرف سینکڑوں افراد اپاہچ اور ناکارہ بن چکے ہیں بلکہ اس کے چھروں کی وجہ سے9 جولائی سے8 اکتوبر تک چودہ افراد جان بحق بھی ہوچکے ہیں۔ جان بحق ہونے والے میں ٹینگہ پورہ سرینگر کا شبیر احمد میر (عمر26)، راجپورہ پلوامہ کا الطاف احمد (عمر25)، چھتہ بل سرینگر کا ریاض احمد (عمر23)، سدھو شوپیان کا عامر لون (عمر17)، بڈی پورہ ٹنگ مرگ کا اشفاق احمد (عمر18)، رتنی پورہ پلوامہ کا عامر گل میر (عمر18)، سن ون کپواڑہ کا مصعیب مجید (عمر17)، سیر ہمدان اسلام آباد کا نصیر احمد (عمر20)، بوٹینگو اسلام آباد کا یاور احمد (عمر23)، بونہ بازار شوپیان کا شاہد احمد (عمر24)، ہارون سرینگر کا ناصر شفیع (عمر11)، چک کاوسہ کا محمد مظفر پنڈت (عمر22)، سعیدہ پورہ عیدگاہ کا جنید احمد (عمر12) اور جنوبی کشمیر کا ایک اور نوجوان جس کی عمر 20 سال تھی اور جو 9 جولائی کو جان بحق ہوا تھا، شامل ہیں۔
عوامی تحریک کے تین ماہ میں پولیس نے 7500 افراد کو گرفتار کرکے مختلف جیل خانوں میں پابند سلاسل بنایا ہے، اِن میں 489 ؍افراد کو بدنام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کر دیا گیا ہے۔ جن افراد پر پی ایس اے جیسے کالے قانون کا اطلاق کیا گیا اُن میں 14 سال کا کمسن طالب علم بھی شامل ہے اور75 برس کے شیخ محمد یوسف ساکن سوپور اور عبدالرشید وانی ساکن چوگل ہندواڑہ جیسے بزرگ بھی شامل ہیں۔ عبدالرشید وانی جسمانی طور معذور ہونے کے علاوہ کئی عارضوں میں مبتلا ہیں، اُنہیں باتھ روم جانے کے لیے کسی دوسرے فرد کا سہارا لینا پڑتا ہے اور بے شرمی کی حد یہ ہے کہ اُن پر گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور اشتعال انگیزی جیسے گھناؤنے الزام پولیس نے عائد کیے ہیں۔ دختران ملت سربراہ سعیدہ آسیہ اندرابی اور اُن کی سیکریٹری فہمیدہ صوفی کے علاوہ کئی خواتین کو بھی پابند سلاسل بنایا گیا ہے۔ تین ماہ کے عرصے میں 85 کمسن بچوں کو بھی سنگ بازی کی پاداش میں پابند سلاسل بنادیا گیا ہے، ان کی عمر 13 برس سے کم ہے۔گرفتاریوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ہر دن 50 سے 70 افراد کو پکڑ کر پولیس تھانوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔
ظلم و بربریت کا ایک اور وحشیانہ اور غیر انسانی طریقہ بھی فورسز اہلکاروں نے اختیار کیا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ رات کے دوران یا پھر صبح صادق ہونے کے فوراً بعد ہزاروں افراد پر مشتمل فورسز اہلکار کسی دیہات میں داخل ہوجاتے ہیں، وہاں جو بھی چیز اُن کے سامنے آجاتی ہے اُن کی توڑ پھوڑ کر دیتے ہیں۔ سڑکوں اور مکانات کے صحن میں موجود چھوٹی بڑی گاڑیوں کی اس قدر توڑ پھوڑ کر دی جاتی ہے کہ وہ دوبارہ قابل استعمال نہیں رہتیں۔ گھروں میں گھس کر سامان تہس نہس کیا جاتا ہے۔ کھڑکیوں، دروازوں اور دیگر ساز و سامان کی توڑ پھوڑ کی جاتی ہے۔ فرج، واشنگ مشین اور ٹی وی توڑے جاتے ہیں۔ سونا، زعفران اور دیگر قیمتی اشیاء لوٹ لی جاتی ہے۔ سرشار پلوامہ کے ایک چھوٹے سے دیہات میں رات کے دوران صرف چند گھروں سے 13 لاکھ روپے مالیت کا زعفران لوٹ لیا گیا۔ یہاں ایک لیکچرار شبیر احمد کو بھی زیر چوب جان بحق کردیا گیا۔ گھر میں گھس کر مکینوں کو زد و کوب کیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ رات کے دوران لوگوں کے بیڈ روم میں گھس کر پیلٹ اور آنسوں گیس کے گولے داغے جاتے ہیں۔ درجنوں دیہات میں دھان کی تیار فصل تباہ کرکے کسانوں کی سال بھر کی محنت پر پانی پھیر دیا گیا۔ جنوبی و شمالی کشمیر کے مختلف علاقوں میں سیب کی فصل کے جمع شدہ ڈھیر کی تباہی کے مناظر کسی بھی صاحب دل انسان کو خون کے آنسوں رلانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ کروڑوں روپے مالیت کے سیب تباہ کر دیے گئے ہیں۔ دہشت اور وحشت کے جن المناک مناظر کا سامنا آئے روز کشمیری عوام کو کرنا پڑتا ہے، اُن سے حیوانیت بھی لرزہ براندام ہوجاتی ہے۔یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بھارتی فورسز کی جانب سے جن حالات کا عام کشمیریوں کو سامنا ہے، اُس کا کشمیر سے باہر اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ وردی پوشوں کی جانب سے شروع کی جانے والی دہشت کا اندازہ اخباری رپوٹوں، بیانات اور تحریروں سے نہیں لگایا جاسکتا۔
متذکرہ بالا ظلم و جبر کی تمام داستانیں مظلوم کشمیریوں کے لیے قابل قبول ہیں کیونکہ ان مراحل سے گزرنے کے بعد ہی ہمیں کامیابی کا سورج طلوع ہوتے دیکھنے کا موقع نصیب ہوگا۔ البتہ ہمارے لیے مسئلہ سدھو شوپیان کی 14 برس کی انشاء ملک ہے جنہیں پولیس اہلکاروں نے اپنے گھر کی تیسری منزل پر راست پیلٹ چھروں کا نشانہ بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہ صرف نابینا بنادیا ہے بلکہ اچھی خاصی شکل و صورت کی مالک اس معصوم بچی کا حلیہ بھی بگاڑ کے رکھ دیا گیا۔ ہمارے لیے مسئلہ آرونی بجبہاڑہ کی رہنے والی 20 برس کی شمیمہ ہے جو 94 دن گزرجانے کے بعد بھی ایس ایم ایچ ایس کے خصوصی نگاہ داشت والے وارڈ میں سوائے سر اور گردن کے جسم کا کوئی حصہ ہلا نہیں پاتی ہے۔ اُن پر 9 جولائی کو آرونی میں پولیس ٹاسک فورس کے اہلکاروں نے براہ راست گولیاں چلائیں، ایک گولی نے اُن کی ریڑھ کی ہڈی کو بُری طرح سے متاثر کیا اور اب سر اور گردن کے علاوہ اُن کا پورا بدن مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ ہمارے لیے مسئلہ وہ سینکڑوں نوجوان ہیں جن کی دونوں یا پھر ایک آنکھ پیلٹ کے چھرے لگنے سے نابینا ہوگئی ہے اور اب وہ مکمل یا پھر جزوی طور پر دوسروں کی مدد کے محتاج بن چکے ہیں۔ ہمارے لیے مسئلہ وہ سینکڑوں نوجوان، بچے اور خواتین ہیں جن کے جسم کے اندر ابھی بھی درجنوں پیلٹ کے چھرے موجود ہیں کیونکہ چک کاوسہ بڈگام کے محمد مظفر پنڈت کی موت کے بعد اب ڈاکٹر یہ خدشہ ظاہر کرنے لگے ہیں کہ جسم میں موجود پیلٹ سے جان لیوا انفکشن ہونے کا قوی احتمال ہے۔ یہ سب ہماری جدوجہد کا اثاثہ ہیں۔ اِن لوگوں نے جان پر کھیل کر دنیا کی توجہ کشمیر کی جانب مبذول کروائی ہے۔ یہیں وہ قوت ہے جس نے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو اقوام متحدہ کے71 ویں سالانہ اجلاس میں سینہ ٹھونک کر مسئلہ کشمیر کی وکالت کرنے کی ہمت عطا کی ہے۔ یہیں وہ طاقت ہے جس کی وجہ سے بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکا ہے اور اب کشمیریوں کی جدوجہد سے دنیا کی نظریں پھیرنے کے لیے کبھی سرجیکل اسٹرائیکس کا ڈرامہ رچاتا ہے تو کبھی نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘ کا شوشہ چھوڑ کر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں موجود جسمانی طور ناکارہ بن جانے والے یہ نوجوان لڑکے، ملت کی بیٹیاں اور معصوم بچے آنے والے وقت میں مجموعی طور پر ہمارے مشکل ترین امتحان کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ ہمارے قومی ہیروز ہیں، اگر ہم نے اُن کے احسانوں کا صلہ بےرخی اور غفلت کے ذریعے سے دیا تو پھر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اُن کی دیکھ بھال، سماج میں اُنہیں اعلیٰ و ارفع مقام عطا کرنا، اُن کی ضروریات کا خیال رکھنا، اُنہیں ہر جگہ اور ہر معاملے میں ترجیح دینا اب ہماری ملی ذمہ داری بن چکی ہے۔ 500 نوجوان ایسے ہیں جن کی آنکھوں کی بینائی کے بارے میں تاحال ڈاکٹر کچھ نہیں کہہ پاتے ہیں۔ 50 کے قریب افراد کی دونوں آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مکمل طور پر بےکار ہوچکی ہیں۔ درجنوں ایسے ہیں جن کی ایک ایک آنکھیں ناکارہ ہوچکی ہے۔ اور ابھی بھی سینکڑوں پیلٹ گن کے متاثرین ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں جن کے بارے میں ڈاکٹر وثوق سے کچھ نہیں کہہ پاتے ہیں بلکہ خیال یہ کیا جارہا ہے کہ اُن میں سے بھی بیشتر کی ایک یا پھر دونوں آنکھیں بینائی سے محروم ہوسکتی ہیں۔ دوسری جانب نیم فوجی دستے ایک منظم سازش کے تحت جان بوجھ کر نوجوانوں کی آنکھوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہر ہفتے سینکڑوں زخمی ہسپتالوں میں داخل ہوجاتے ہیں جن میں درجنوں پیلٹ چھرے لگنے سے زخمی ہوئے ہوتے ہیں۔ پیلٹ گن کے چھروں سے جن نوجوانوں کی آنکھیں ناکارہ ہوچکی ہیں اُن میں 98 فیصد سے بھی زیادہ کی عمر 10 سے25 برس کے درمیان ہے۔ ان نونہالوں پر آج ہم فخر کرتے ہیں، اُن کی قربانیوں سے ہی ہماری تحریک میں جان موجود ہے لیکن اُنہیں مستقبل میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ فی الوقت ہمارے لیے سب سے بڑی پریشانی ہے۔
متاثر ہونے والے نوجوانوں میں 99 فیصد غیر شادی شدہ ہیں۔ کل کو جب اِن کی شادیوں کی بات چلے گی تو کیا ہماری قوم کی لڑکیاں بلاجھجھک اُن سے شادی کرنے کی لیے تیار ہوں گی؟ یہ ایک مسئلہ ہے اور اس پر ہمیں آج سے ہی کام کرنا ہوگا۔ اس کی ایک اہم صورت یہ ہے کہ ہم قومی سطح پر ایسے طریقے رائج کریں جن کے ذریعے سے یہ نوجوان اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں، اُنہیں مستقبل میں معاشی لحاظ سے خود کفیل بنانے کے لیے آج سے ہی منصوبہ بندی کی جائے، اِنہیں دوسروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔ حریت پسند قیادت ہر سال کا کوئی بھی عشرہ اِن ہیروز کے نام کرے، جس میں سیمینار، سمپوزیم اور دیگر تقریبات کا انعقاد کرکے قومی کاز کے لیے جسمانی طور پر ناکارہ بن جانے والے ان ہیروز کو ایوارڈ سے نوازا جائے اور اُن کی قربانیوں کو یاد کیا جائے۔ اُن کی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے دنیا بھر میں قائم اندھوں کے لیے مخصوص اسکولوں میں اِن کا داخلہ کرایا جائے۔اگر ملالہ یوسف زئی ظلم وجبر کا شکار ہونے پر عالمی توجہ اور امداد کی مستحق بن سکتی ہے تو انشاء لون اور شمیمہ کیوں نہیں بن سکتی ہیں۔ آورہ کپواڑہ کی پروینہ اختر کیوں نہیں بن سکتی ہیں جنہیں فورسز اہلکار وں نے گھر کے دیگر نو افراد کے ساتھ پیلٹ گن کے چھروں سے نشانہ بنا کر اُن کی دونوں آنکھوں کو بُری طرح سے زخمی کردیا ہے، سمتھن بجبہاڑ کی روبی جان کیوں نہیں بن سکتی ہیں جنہیں صبح سویرے اپنے ہی گھرمیں پیلٹ گن کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اشاجی پورہ کی مسعودہ بانو، پنجرن پلوامہ کی الفت بشیر ہم کس کس کا نام لیں، یہاں تو درجنوں ملالائیں موجود ہیں۔ ہمارے اُن خوبصورت نونہالوں پر عالم انسانیت کیوں مہربان نہیں ہوسکتی ہے جن کا اپاہج پن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھارتی مظالم اور دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت رہے گا۔ ہمیں وسائل تلاشنے ہیں، راستے دیکھنے ہیں اور سوجھ بوجھ کے ساتھ لائحہ عمل ترتیب دینا ہے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ضرور ان نوجوانوں کو لندن، امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھیج کر ایک تو اُنہیں اعلیٰ تعلیم سے نوازنے میں کامیابی حاصل کرلیں گے، دوسرا یہی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بیرون دنیا کشمیر کاز کے Ambassadors بن جائیں گے۔
پاکستان جہاں کے عوام نے بالخصوص اور حکومتوں نے بالعموم ہمیشہ کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کی ہے، کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور عالمی سطح پر کشمیریوں کا سب سے بڑا وکیل بھی۔ پاکستان کو یہاں متاثر ہونے والے نوجوانوں کو ملالہ یوسف زئی کی طرح عالمی سطح پر متعارف کرانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہاں ہم چاہتے ہوئے بھی بہت سارے کام نہیں کرپاتے ہیں کیونکہ یہاں بھارتی ایجنسیوں کی نظریں اور قدغنیں آڑے آتی ہیں لیکن باہر سے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔
بد سے بدترین حالات میں بھی اگر سوچ مثبت ہو تو کامیابی کی راہیں نکالی جاسکتی ہیں۔ کشمیری عوام جن حالات سے گزر رہے ہیں اُن میں بے شک بیرون دنیا ہمارے محسن ہماری آواز بلند کر رہے ہیں۔ پاکستان جیسے عظیم محسن ملک نے کشمیر کاز کے لیے قومی سلامتی تک کو بھی داؤ پر لگا رکھا ہے، اس سب کے باوجود ہمیں بحیثیت قوم خود اپنے لیے راہیں ڈھونڈنی ہیں، اندرون خانہ پیدا شدہ مسائل کا حل خود ڈھونڈنا ہے، حقائق کا ادراک کرکے لمبی جدوجہد کے لیے تیاریاں کرنی ہیں، اور جدوجہد کی راہ میں متاثر ہونے والے افراد کواپنے حال پر چھوڑنے کے بجائے اُنہیں اس قدر ہر سطح پر سپورٹ فراہم کرنا ہے کہ وہ اپنے اپاہج پن پر افسوس کرنے کے بجائے فخر کرنے لگیں۔ وہ وقت دور نہیں جب ہماری یہ قربانیاں رنگ لائیں گی اور ہماری آنے والی نسلیں ان قربانیوں کے طفیل ہی آزاد فضاؤں میں سانس لیں گی۔ ان شاء اللہ۔
تبصرہ لکھیے