استشراق (Orientalism) میں عمومی طور پر مشرقی علوم اور خصوصی طور پر اسلام موضوع تحقیق ہوتا ہے، اس سے وابستہ اسکالرز اپنے مضمون میں ماہر اور منطقی طرز تنقید پر دسترس رکھنے والے ہوتے ہیں.
استشراق دنیا کی واحد عالمی تحقیقی تحریک ہے جس کو مغربی اہل ثروت طبقے اور حکومتوں کی سرپرستی حاصل ہے، تقریبا ہر ملک میں ان کے مراکز قائم ہیں، امریکہ، جرمنی برطانیہ اور فرانس اس میں سرفہرست ہیں، موجودہ دور میں صرف امریکہ میں ان کے پچاس فعال تحقیقی مراکز مختلف ناموں سے اسلام کے حوالے مصروف تحقیق ہیں.
چونکہ ان کا ہدف جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہے، اس لیے ان کو یہ اپنے افکار پہنچانے کے لیے منشورات کا سہارا لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پورى دنیا میں معروف (300) علمی رسالے ان کے زیر سایہ شائع ہو رہے ہیں. مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ضیاء اکرم العمری کی تحقیق کے مطابق (1800م) سے (1950م) تک مستشرقین نے ساٹھ ہزار کتب مختلف زبانوں میں شائع کرکے لائبریریوں کو پہنچائیں. ایک تحقیق کے مطابق یورپ میں ہر روز اسلام کے بارے میں ایک کتاب شائع ہوتی ہے، لیکن اس میں کیا ہے؟ اور اس میں اسلام کی جو تصویر پیش کی گئی ہے، وہ اسلام کی حقیقی روح کے موافق ہے یا متصادم؟ اس کے بارے میں ہمیں پتہ نہیں چلتا.
چونکہ عالم اسلام میں ان کتب اور مقالات کو پڑھنے اور ان پر تنقید کرنے کے لیے کوئی علمی اور تحقیقی ادارہ یا تحریک موجود نہیں ہے، جس کا مقصد مستشرقین کے مسخ شدہ اسلام اور حقیقی اسلام کو دنیا پر واضح کرنا ہو، اگرچہ انفرادی طور پر بعض سکالرز کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کی پرواز بھی انگریزی اور عربی تک محدود ہے، حالانکہ مستشرقین انگریزی زبان میں بہت کم لکھتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ استشراق میں انگریزی زبان نے صلیبی جنگوں کے بعد جگہ لی ہے، اس پہلے انگریزی زبان استشراق سے لاعلم تھی. استشراق پر زیادہ تر کام ہسپانوی، فرانسیسی، روسی اور جرمن زبان میں ہوا ہے، حتی کہ موجودہ دور کے چیدہ چیدہ مستشرقین بھی انھی زبانوں میں لکھتے ہیں، اگرچہ بعد میں بعض کتب و مقالات کا انگریزی میں ترجمہ ہوتا ہے لیکن اکثریت ترجمہ ہونے سے رہ جاتی ہے.
اسلامی سکالرز ان کتب میں دلچسپی رکھتے ہیں نہ ان کا مطالعہ کرتے ہیں، کڑوا سچ یہ ہے کہ مطالعہ کرنے کی قابلیت ہی نہیں رکھتے، جو علماء اسلام کا تحقیقی اور گہرا علم رکھتے ہیں، انھیں فروعی مسائل کی بنیاد پر ایک دوسرے پر کفر و بدعت کے فتوی لگانے سے ہی فرصت نہیں ملتی ہے، ثانيا ہمارے اکثر علماء مغربی زبانوں سے ناواقف ہیں،
اس لیے مستشرقین اسلام پر پوری علمی قوت کے ساتھ تابڑ توڑ حملوں میں مصروف ہیں، اور اسلام کی جو تصوير دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں، خواہ اسلام کی روح سے کوسوں دور کیوں نہ ہو، لیکن جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس کو اسلام سمجھ کر قبول کرتا ہے.
مستشرقین عمومی طور حدیث اور سیرت میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس لیے ان کے تحقیقی مقالات اور کتب باقی شعبہ جات کے مقابلے ان دونوں میں زیادہ ہیں جیسا کہ پروفیسر كارل بروکلمن (Carl Brockelmann (1868-1956 کا مشہور مجموعہ (GAL) اور پروفیسر ڈاکٹر فواد سیزگن (Fuat Sezgin) کی شہرہ آفاق تصنیف (GAS) سے ظاہر ہے. عصر حاضر میں سیرت خصوصًا سیرت خلفائے راشدین کا متخصص تل ابیب یونیورسٹی فلسطین اسرائیل کے پروفیسر ڈاکٹر ابراہام حاكم (Avraham Hakim) کو مانا جاتا ہے، اور اس کی تحقیق کا موضوع اکثر خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ (23ھ) ہوتے ہیں.
سیدنا عمر فاروق جن کی زبان اور قلب کی سچائی و حق گوئی کی گواہی خود سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، اور جن کے حق میں قرآنی آیات اترتی تھیں، وہ عمر جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہر نبی کی امت میں ایک یا دو امتی معلم ہوتے ہیں، اگر میرى امت میں ہو تو وہ عمر بن الخطاب ہے، وہ عمر جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، اور جبرائیل علیہ السلام جن پر اپنا سلام بھیجتے تھے، وہ عمر جن کے علم و عمل کا اقرار ان کے ساتھی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعين کیا کرتے تھے، کہ عمر فاروق ھم میں اعلم باللہ اور باحکام اللہ تھے اور ہم سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے، وہ عمر فاروق جن سے شیطان ڈرتا تھا، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب سے عمر نے اسلام قبول کیا ہے، شیطان اس کا سامنا نہیں کر سکتا ہے، وہ عمر جو فتن اور مسلمانوں کے درمیان ایک مضبوط دیوار کی حثیت رکھتے تھے، جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ جب تک تمہارے درمیان عمر ہے، آپ لوگ فتنوں سے محفوظ ہوں گے، وہ عمر فاروق جن کے اجتہاد کو کئی مواقع پر پر اللہ نے پسند کرکے اس کے موافق حکم شرعی کا نزول فرمایا تھا، وہ عمر جو کبھی بھی کسی کافر اور باطل قوت کے سامنے سر نہیں جھکاتے تھے، ہمہ وقت کفری اور باطل قوتوں سے مقابلہ اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے تیار اور مصروف رہتے تھے، وہ عمر جن کا نام سن کر کفار کے پاؤں لڑکھڑاتے تھے، وہ عمر جنھوں نے یہود کو خیبر اور فدک سے نکالا تھا، جن کی خلافت میں مسلمانوں نے فارس، فلسطين، شام، خراسان، اور مصر کو فتح کرکے اسلامی حکومت کی حدود میں داخل کر دیا تھا.
آج بھی تاریخ کے صفحات سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو ایک عظیم فاتح، عادل حکمران اور طاقتور خلیفہ ہونے کے حوالے سے یاد کرتے ہیں، لیکن پروفیسر ابراہام نے سیدنا عمر فاروق کی جو تصویر مغرب کے سامنے پیش کی ہے، وہ یقینا حقائق اور تاریخ کو مسخ کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے. اس کے نزدیک عمر فاروق (نعوذ باللہ) اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اعلی سمجھتے تھے، اور اس دوڑ میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی اس کا ادراک تھا، اس لیے جب بھی کوئی خارق العادۃ کام (معجزہ) رسول اللہ سے صادر ہوتا، تو سب سے پہلے عمرفاروق کو خبر دیتے تھے، جس کا مقصد عمر فاروق پر اپنی دھاک بٹھانا تھا، پروفیسر کے نزدیک عمر فاروق نے صدق قلب سے اسلام قبول کیا تھا نہ اسلام کی حقانیت پر یقین رکھتے تھے، اس لیے اہل کتاب کی کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے، باوجود اس کے کہ رسول اللہ اس کو پسند نہیں فرماتے تھے، اور اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر کام پر اعتراض کیا کرتے تھے، خواہ وہ غزوہ بدر میں قیدیوں کا معاملہ ہو یا مشرکین مکہ کے ساتھ صلح حدیبیہ حتی کہ کئی مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی نبوت اور وحی کا بتاتے، اور یا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مجبورا مداخلت کرنی پڑتی، لیکن عمر بحث و مباحثہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کی مخالفت سے باز نہیں آتے تھے.
پروفیسر ابراہام چونکہ یہودی ہے، اس لیے تاریخ اسلامی سے واقف ہر فرد اس کا درد سمجھ سکتا ہے کہ وہ خلفائے راشدین میں سے صرف سیدنا عمر فاروق کے پیچھے ہاتھ دھو کر کیوں پڑا ہے. ایک تو ہم مسلمان ہیں، کہ رات کو جو کھایا اس کو بھی بھول جاتے ہیں، لیکن یہود نے ابھی تک خیبر و فدک نہیں بھلایا، لیکن بحیثیت استشراق کے ایک طالب علم کے، جہاں تک اس پروفیسر کی تحقیق سے میرا واسطہ پڑا، اپنی کم علمی کے باوجود جن منہجی غلطیوں کا ادراک کیا، اس کی وضاحت درج ذیل نکات میں ضروری سمجھتا ہوں:
1) علم حدیث میں ”قانون الاعتبار“ اور ”دراسۃ السند و المتن“ کو انتہائی اہمیت حاصل ہے کہ باحث (محقق) ایک موضوع کے بارے میں تمام احادیث کو جمع کرے اور پھر اس کا آپس میں موازنہ کرکےاصل کو پہنچ جائے کہ حقیقت کیا ہے کیونکہ ایک تاریخی واقعہ کے بارے میں ہم تمام احادیث کو اگر جمع نہ کریں تو اس کی حقیقت کو ہم نہیں پہنچ سکتے لیکن پروفیسر ابراہام کی تحقیق میں یہ مفقود ہے، عنادًا یا جھلًا، اس نے ایک روایت اپنی مرضی کی نقل کرکے حکم لگایا ہے مثلا مسند احمد اور بزار کی وہ روایت جس کے راوی جابر رضی الله عنہ ہیں کہ عمر فاروق نے تورات کا ایک عربی نسخہ (کاپی) تیار کر کے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ غصہ ہوئے، الی آخر الحدیث. اس حدیث سے اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سیدنا عمر فاروق قرآن اور وحی پر مطمئن نہیں تھے، اس لیے تورات کی عربی کاپی تیار کرکے اس کو پڑھتے تھے، حالانکہ یہ واقعہ صرف جابر رضی اللہ عنہ کی روایت پر نہیں، بلکہ ایک اور صحابی عبد اللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بھی تفصیل سے منقول ہے، جس کو خطیب بغدادی(463ھ) نے الجامع لاخلاق الراوی میں دو مختلف سندوں سے نقل کیا ہے اور اس میں پورا واقعہ مذکور ہے، اور اس میں کہیں ذکر نہیں کیا گیا کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اس نسخہ کو تیار کیا تھا بلکہ اس میں صراحتا ذکر ہے کہ بنو قریظہ قبیلہ کے ایک شخص نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو تحفے میں دیا تھا، اور یہ بھی کہ جب عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھا، تو فورا پھینک دیا اور فرمایا (رضیت باللہ ربا و بالاسلام دینا و بمحمد رسولا) تو االلہ کی ربوبیت، اسلام کو بطور دین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر راضی ہونے کا اقرار اس بات کا ثبوت ہے، کہ عمر فاروق مطمئن تھے.
2) اگر کسی تاریخی واقعہ کا تعلق کسی کے ساتھ ہو تو اس میں اس کی روایت زیاد معتبر اور قوی سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس کو پتہ ہوتا ہے کہ حقیقت میں کیا رونما ہوا تھا، اور اس کا بھی پروفیسر ابراہام کی تحقیق میں فقدان ہے –
3) اجتہادی اور منصوص علیہ (جس پر وحی نازل ہوئی ہو) فیصلوں کے درمیان فرق کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے اس لیے غزوہ بدر اور صلح حدیبیہ کا اختلاف برتری کی دوڑ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر محمول کیا گیا ہے، حالانکہ عمر فاروق نے اجتہادی فیصلوں پر اختلاف رائے کا اظہار کیا ہے، لیکن جب بھی پتہ چلا ہو کہ یہ اجتہادی نہیں بلکہ وحی ہے وہاں سر تسلیم خم کیا ہے اور اختلاف کی وجہ اپنے آپ کو برتر ثابت کرنا نہیں بلکہ اس كا مقصد مسلمانوں کا غلبہ و قوت اور کفر کو کمزور کرنا تھا، جیسا کہ امام خطابی (388ھ) کی معالم السنن شرح ابی داؤد، ابن حجر العسقلانی (852ھ) کی فتح الباری میں اور قسطلانی (923ھ) کی آراء ہیں.
4) مستشرقین چونکہ عمومی طور پر ضعیف اور من گھڑت روایت کو نہیں دیکھتے، صرف مسلمانوں کی کتابوں میں مذکور ہونا ان کے لیے کافی ہے، اس کو نقل کرکے اپنا مدعا بھی ثابت کرتے ہیں اور مسلمانوں پر تنقید کا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، مثلا ایک مشہور روایت ہے، جس کو ہمارے خطباء اور واعظین مساجد اور مدارس میں سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی مدح میں بڑھا چڑھا کر سامنے لاتے ہیں اور ناقدین اس کو ذم میں پیش کرتے ہیں حالانکہ روایت من گھڑت ہے، اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے. روایت بہت طویل ہے اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انھوں نے زمانہ جہالت میں اپنی پیاری سی چھوٹی بیٹی زندہ درگور کی تھی، جس کو کبھی کبھار یاد کرکے روتے تھے اور سفر میں اشیائے خوردنوش کا بت بنا کر عبادت بھی کیا کرتے تھے، اور جب بھوک لگتی تو اس کا کبھی ایک عضو کبھی دوسرا عضو حتی کہ پورا کا پورا کھا جاتے، قبولیت اسلام کے بعد اس کا تذکرہ کر کے ہنستے تھے.
اگراس روایت کی تحقیق کی جائے تو حدیث کی کسی بھی مستند کتاب میں اس کا ذکر نہیں. اس کو عباس محمود العقاد نے اپنی مشہور کتاب عبقریۃ عمر میں نقل کیا ہے، اور یہ کتاب یورپ کے كتب خانوں میں (The Genius of Umar) نام سے موجود ہے، بہرحال مذکورہ بالا روایت نقل کرکے اس نے کوئی بھی مصدر یا مرجع ذکر نہیں کیا ہے، اور آخر میں والله اعلم بھی کہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کو خود اس کی صحت کے بارے علم نہیں ہے لیکن ہمارے علماء بغير تحقيق کے اس کو نقل کرتے ہیں.
اس روایت کے موضوع اور من گھڑت ہونے کے کئی دلائل ہیں، چند ایک یہ ہیں
1. مستند تاریخ اور سیرت کی کتب سے ثابت ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک بڑی بیٹی تھی، جس کا نام ام حفصہ رضی الله عنہا ہے تو یہ کیسی منطق ہے کہ بڑی بیٹی زندہ ہے (جو بعد میں رسول اللہ صلی اللہ کے نکاح میں آئیں اور ام المؤمنین بنیں)، اور چھوٹی کو غیرت اور شرم کی وجہ سے زندہ درگور کر ديا.
2. اگر واقعی عمر فاروق نے ایسا کیا تھا تو ان کے خاندان کے اور افراد بھی اس موضوع پر لب کشائی ضرور کرتے، حالانکہ خاندان کے کسی بھی فرد سے اس حوالے سے کوئی روایت منقول نہیں ہے-
3. کتب احادیث مثلا مسند البزاز اور معجم الکبیر میں امام طبرانی نے سورۃ التکویر آیت 8 کی تفسیر میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ قیس بن عاصم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے زمانہ جہالت میں اپنی آٹھ بچیوں کو زندہ درگور کیا ہے، مختصرا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس كا کفارہ ادا کرنے بارے میں فرمایا، تو اگر عمر فاروق قیس بن عاصم کا واقعہ نقل کرتے ہیں، تو اپنا واقعہ کیوں نقل نہیں کیا کہ میں نے یوں کیا تھا ، اور جب رسول اللہ صلی اللہ سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے مجھے جوابًا یوں فرمایا.
لہذا واضح ہوا کہ اس طرح واقعہ کا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے منسوب نہیں ہے، اور نہ وہ کسی برتری یا دنیاوی غرض و منصب کے لیے رسول اللہ کے ساتھ تھے ، بلکہ وہ ایک سچے، تابعدار اور مخلص صحابی رسول تھے، نہ حکومت و منصب کے لیے اپنے اپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے اور نہ معاذ اللہ منافق تھے، اگر ایسا ہوتا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بذات خود ابوبکر صدیق رضی اللہ کا نام خلافت کے لیے پیش نہیں کرتے اور نہ ان کے ہاتھ پر سب سے پہلے بیعت کرتے.
درحقیقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عظمت و شرف کے اس مرتبے پر فائز تھے کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے، اس لیے سیدنا عمر فاروق کی عظمت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ارشاد مبارکہ کی یہ مہر تصدیق تا قیامت کافی ہے.
تبصرہ لکھیے