عامر خاکوانی میرے دوست ہیں، احترام کے مرتبے پہ فائز ہیں، لیکن جس تن دہی سے انھوں نے یہ کالم لکھا، کہ ”سیرل المیڈا کی سٹوری، ڈان اخبار، اور حکومت کی چالاکیاں“ اسے پڑھ کر سر دھننے کو جی چاہا۔ ضرورت محسوس ہوئی کہ خاکوانی صاحب سے پوچھا جائے، آزادی صحافت کو وہ کیا سمجھے ہیں؟ وہ اپنے کالم کی ابتدا یوں کرتے ہیں ”صاحبو! یہ آزادی صحافت کا معاملہ ہرگز نہیں ہے۔ سیرل المیڈا کوئی منہاج برنا یا حسین نقی ہے نہ ہی ڈان آزادی صحافت کا مقدمہ کندھے پر اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ غیر ذمہ دارانہ صحافت، ایک حد سے زیادہ پرجوش صحافی کا معاملہ ہے، جس نے ضرورت سے زیادہ گرم لقمہ نگل لیا اور اب زبان جلنے پر سی سی کر رہا ہے۔ اس معاملے میں اصل کردار حکومت کی چالاکیوں اور حکومتی مشیروں کی اوورسمارٹنس کا ہے، جسے ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔“
سب سے پہلے تو یہ سمجھانا چاہا، کہ پہلے منہاج برنا، حسین نقی کے مرتبے پہ فائز ہو جاؤ، پھر جو کہو گے، وہ آزادی صحافت کا معاملہ ہوگا۔ اس جملے پہ غور کیجیے، 'ضرورت سے زیادہ گرم لقمہ نگل لیا“۔ آگے یہ لکھا، کہ ”اس معاملے کے اصل کردار حکومت کی چالاکیوں، اور حکومتی مشیروں کی اوور سمارٹنس کا ہے“۔ جناب خاکوانی یہیں اپنا مقدمہ ہار جاتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ گرم لقمہ نگلنے سے مراد ہے، کہ اسٹیبلشمنٹ کا قد کاٹھ چھوٹا کرنے کی کوشش منہگی پڑ گئی؟ اور ساتھ ہی بہت سادگی سے ثبوت کی بنیاد پہ ”حکومت کو چالاک، اور حکومتی مشیروں کو اوور سمارٹ قرار دے دیا“۔ یہ ہے وہ ذمہ دارانہ صحافت جس کا جناب خاکوانی بھرپور دفاع کرنے آئے ہیں۔ یہ ہماری صحافت کا المیہ ہے کہ منتخب عوامی نمائندوں کو بنا ثبوت جو مرضی کہہ دیں، مثلا بعض صحافی یہ کہیں کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے وزیراعظم کو ڈانٹ دیا، تو یہ آزادی صحافت کی عمدہ مثال ہے، لیکن یہ لکھنا، کہ شہباز شریف نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو کہا کہ ہم جسے پکڑتے ہیں اسے چھڑوا لیا جاتا ہے، ایسا لکھنا گرم لقمہ نگلنے والی بات ہے۔ مجھے تسلیم کہ یہ گرم لقمہ نگلنے والی بات ہے، لیکن حضور آزادی ٹھنڈے یخ لقمے نگلنے، یا گرم لقمے اگلنے سے سوا ہے۔
آگے چل کر انھوں نے بتایا کہ صحافیوں کو کیسے کیسے خبریں موصول ہوتی ہیں، اور میرے الفاظ میں یوں کہ دیکھنا یہ ہوتا ہے، کون سا گرم لقمہ ہے، اور کون سا ٹھنڈا ٹھار۔ پھر یہ لکھا کہ ذرائع اس کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیں، تو وہ ”خبر“ نہیں رہتی۔ وغیرہ۔ سیرل المیڈا کی اسٹوری کے حوالے سے ڈان اور سیرل المیڈا دونوں ہی کا مؤقف یہ ہے، کہ وہ اپنی خبر پر قائم ہیں، یعنی انھوں نے تردید سے انکار کر دیا ہے۔ ایک عام سا صحافی بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جب کوئی ادارہ اپنی خبر واپس لینے سے انکار کرتا ہے، تو یہی بات اس کی کریڈیبلٹی بناتی ہے کہ اس کی خبریں باؤنس نہیں ہوتیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ”غلط خبر“ چھاپنے پر کوئی قانونی چاری جوئی کی جائے، تو ادارہ اس کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ یہ دفاع ثبوت کی بنا پر ہوتا ہے۔ ایسا نہیں، کہ کسی کو ”چالاک یا اوور اسمارٹ“ کہہ کر نکل جائیں۔ کیا خاکوانی صاحب یہی زبان ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے استعمال کرنے کی جرات رکھتے ہیں؟۔ ان کی طرف سے میں جواب دیتا ہوں، ”جی نہیں“ کیوں کہ یہ گرم لقمہ نگلنے والی بات ہے۔ جناب آپ گرم لقمہ نہیں نگل سکتے مت نگلیے، یہ گرم لقمہ سیرل المیڈا نے نگلا، تو اس کی حمایت نہ کیجیے، مخالفت کی وجہ تو ڈھنگ سے بیان ہو۔
جناب خاکوانی اپنے کالم ہی میں یہ فرماتے ہیں، ”اگر یہ خبر درست ہے اور حکومت نے خود لیک کرائی تاکہ قومی اداروں کو دباو میں لیا جا سکے اور اب مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اس خبر کی تردید کی جا رہی ہے، تب یہ معاملہ بہت زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔ ایسی حکومت کو ملک چلانے کا کوئی حق نہیں۔“ یعنی اگر مگر کرتے فرض کر لیا، کہ یہ ”لیک“ حکومت ہی نے کی ہے۔ اس اگر مگر میں ایک بار بھی نہیں سوچا، کہ یہ ”لیک“ اسٹیبلشمنٹ نے کی ہو، تا کہ حکومت کو بدنام کیا جا سکے۔ یہ آزادی صحافت کی سنہری مثال ہے، اور کچھ نہیں۔ جناب آزادی صحافت یہی ہے، جو آپ کے کالم کے عنوان سے ظاہر ہے؟
جناب خاکوانی، آپ ایک مدت سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بتا سکتے ہیں، کہ بلوچستان اور ضربِ عضب کے دوران کتنے صحافیوں کی رپورٹنگ اخباری صفحات کی زینت بنی؟ کیا آپ فوجی تناظر کے حوالے سے وہی خبریں نہیں چھاپتے، جو آئی ایس پی آر ریلیز کرتی ہے؟۔ کیا آپ اس خبر کی تصدیق کسی آزاد ذرائع، یا اپنے ہی مقامی رپورٹر سے کرتے ہیں؟ تو پھر آزادی صحافت کا ذکر ہی کیوں؟ صاف کہیے، جو خبر اسٹیبلشمنٹ کی جگ ہنسائی کا باعث ہے، وہی قومی مفاد کے خلاف ہے؟ کہہ دیجیے، قومی مفاد، دراصل اسٹیبلشمنٹ کا مفاد ہے؟ لیکن ایسا کہنا، گرم لقمہ نگلنے والی بات ہوگی، اس لیے آپ محتاط ہیں؟۔
جہاں تک ڈان اور سیرل المیڈا کا تعلق ہے، حکومت سمجھتی ہے، اس نے غلط بیانی کی ہے، تو عدالت تک گھسیٹ سکتی ہے۔ اگر حکومت ہی کو اپنی عدالت کے انصاف پہ بھروسا نہیں، تو الگ بات۔ یہاں یہ ذکر بھی کر دیتے کہ ڈان کے مدیر نے اپنے اداریے میں مذکورہ خبر کا بھر پور دفاع کرتے، اپنے آپ کو ذمہ دار کہا ہے۔ محترم بھائی خاکوانی، آزادی صحافت کی تعریف حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کو نہیں، صحافیوں کو کرنا ہوتی ہے، اگر آپ اس آزادی صحافت کی اس تعریف کے قائل ہیں، کہ عوام کے منتخب نمائندوں کی مٹی پلید کرو، وردی پہ داغ نہ آنے دو، تو یہ کالم اس تعریف پر پورا اترتا ہے۔
تبصرہ لکھیے