کئی حضرات یہ ثابت اور تسلیم کرانے پہ تلے ہوئے ہیں کہ حکمران جو بھی ہے اور جس طرح بھی ہے، ہر ہر حالت میں اس کی”اطاعت“ فرض ہے اور اسے ہٹانے یا تبدیل کرانے کی کوئی بھی سوچ خروج کے زمرے میں آتی ہے جو کہ ان کے نزدیک ”حرام“ ہے۔ ہمارے خیال میں اصل مسلۂ ان کا اسلام کے عملی نفاذ سے شدید تر اختلاف کا ہے، ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلام نفاذ کا نہیں بلکہ ”نفوذ“ کاطلب گار ہے، اس لیے اسلام کے نفاذ یا اقامت دین کا تصور ہی درست نہیں ہے۔
آج امام حسین رضی اللہ عنہ کی جدوجہد پر سوالیہ نشان اسی سوچ اور فکر نے لاکھڑاکیا ہے۔ خروج کے حرام و حلال کی بحث کا پس منظر بھی یہی ہے۔
ایک محترم نے لکھا ہے کہ:
”فساق و فجار کے ہاتھوں اقتدار لے کر دیانت دار قیادت کے حوالہ کرنے کو شہادت حق کا فریضہ سمجھ لینا نوآبادیاتی نظام کے خلاف ردعمل کے طور پر جنم لینے والی اسلامسٹ فکر کے حامیوں کا تصور ہے، بڑے بڑے صحابہ سے لے کر آئمہ تک اس سیاسی کشمکش سے دور رہ کر دعوت و ارشاد کے کام میں مصروف رہے.“ اس ضمن میں خاص کر انھوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے نام لیے ہیں.
ہمارے نزدیک ایشو خروج کے حلال اور حرام کا نہیں ہے بلکہ اقامت دین کی جدوجہد کا ہے۔ خروج اگر بالفرض لازمی بھی ٹھہرے تو یہ اس جدوجہد کا انتہائی اقدام یا ایک راستہ و ذریعہ ہے جس کی شرائط، آداب اور نزاکتوں پر بات ہوسکتی ہے اور پہلے بھی بہت طویل بحثیں ہو چکی ہیں مگر اصل سوال تو یہی ہے کہ کیاکسی بھی قسم کی حکومت اور حکمران کی اطاعت ہر صورت فرض ہے؟
کیا اس طرح کے (فاسق، فاجر، دین سے منحرف اور اسلامی طرز حکومت کے مخالف اور باغی ) حکومت و حکمرانوں کے خلاف کسی بھی قسم کی جدوجہد ناروا ہے؟
کیا حکومت الہیہ، نفاذ اسلام اور اقامت دین کے لیے جدوجہد مسلمانوں کے لیےضروری نہیں؟
ہمیں تو تعجب ہوا کہ ایسے صاحب علم حضرات بھی نہ صرف فاسقین کی جگہ صالحین کو قیادت حوالے کرنے جیسی اہم بات کو محض سیاسی محاذ آرائی سے تعبیر کرتے ہیں بلکہ اسے آج کل کی کوئی نئی فکر بھی گردانتے ہیں. یہاں بنیادی سوالات اٹھتے ہیں کہ اگرصالحین کی اقتدار تک رسائی محض سیاسی کشمکش اور اقتدار کا کھیل ہے تو پھر اسلامی ریاست، حکومت الہیہ اور اقامت دین کے کیا معنی؟
قرآنی آیات، دین کے قیام کا حکم (ان اقیموا الدین)، بعثت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا بنیادی مقصد (دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنا) اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فلسفہ آخر کیاہے؟
کیا یہ سب کچھ صالح قیادت کے بغیر ممکن ہے؟ اور یہ جدوجہد کیا محض ایک سیاسی کھیل ہے؟ یہ لفظ سیاست اتنا معتوب ہی کیوں؟ علمائے دین تو سیاست کو دین اسلام کا ایک اہم جز اور شعبہ گردانتے ہیں، اگر سیاسی تصور کو نکال باہر کیا جائے تو پھر تو دین اسلام بھی دیگر مذاہب کی طرح محض پوجا پاٹ کی ایک محدود رسم کے طور پر رہ جائے گا. بالفرض یہ سیاست بھی ہے تو اس ایجنڈے کے ساتھ سیاست کرنا اتنا ناگوار کیوں ہے؟
جہاں تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و دیگر اکابرین کی اس ”سیاسی کشمکش“ سےلاتعلقی ہے وہ بھی محل نظر ہے. یہ بات علمی و تاریخی طور پر درست نہیں ہے کہ صحابہ نے بقول ان کے ”نہ اقتدار کے حصول کی کوشش کی اور نہ دوسرے دعویداروں کی حمایت۔“ اگرچہ انھوں نے ذاتی اقتدار کے لیے نہیں بلکہ اسلامی ریاست کے تصور کے تحت جدوجہد کی. امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ عبداللہ ابن زبیر نے بھی جدوجہد کی، حکومت کی اور ایک وقت پر بنوامیہ ان کے ساتھ ملنے کو تیار تھے. صحابہ کرام کی ایک تعداد ان کے ساتھ تھی.
پھر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا فعل اور قربانی نظروں سے کیوں اوجھل ہے؟
امام کےاس اقدام کوکوئی سیاسی کام کہے تو کہے لیکن انھوں نے تو یہ سب کچھ دینی فریضہ سمجھ کر کیا، اس وقت بکثرت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زندہ تھے، اور تابعین کا تو قریب سارا گروہ ہی موجود تھا. ہماری نگاہ سے کسی صحابی یا تابعی کا یہ قول نہیں گزرا کہ ”حضرت حسین رضی اللہ عنہ ایک فعل حرام کا ارتکاب کرنے جا رہے ہیں اور جنہوں نے روکا تھا تو اس بنیاد پر کہ اہل عراق قابل اعتماد نہیں ہیں. (سید مودودی رحمہ اللہ).“
اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا معاملہ ہے کہ گویا انھوں نے بھی محض تحقیقی و دعوتی کام کرکے زہد و ارشاد کی زندگی گزار کر صالح قیادت کو محض ایک سیاسی شغل جانا.
کم ازکم ہم تو اسے ان پر ایک الزام سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ ظالم اور فاسق حکمران کے حوالے سے تو باقاعدہ ان کا مستقل مسلک اور نظریہ موجود ہے، ان کے نزدیک ظالم کی امامت نہ صرف باطل بلکہ اس کے خلاف خروج واجب ہے ، ان کے عہد میں جو خروج ہوئے (زید بن علی، محمد بن عبداللہ اور ابراہیم بن عبد اللہ) انھوں نے نہ صرف اس کی حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ ساتھ بھی دیا، اور اسے نفلی حج سے ستر گنازیادہ ثواب کا کام قرار دیا. امام مالک رحمہ اللہ کا طرز عمل بھی امام ابوحنیفہ سے مختلف نہیں رہا.
ظالم اور فاسق سے حکمرانی چھین لینا اور صالحین کے حوالے کرنا تو اہل سنت و الجماعت کے درمیان ایک مستقل موضوع چلا آ رہا ہ.ے اول صدی ہجری کے اختتام تک تو تقریباً خروج ہی پر اتفاق رہا، البتہ اس کے بعد دیگر پر امن ذرائع پر اطمینان اور فتاویٰ موجود ہے لیکن کسی نے بھی خروج کے عمل کو نص کے خلاف نہیں گردانا بلکہ نتائج اور عواقب اور دیگر راستوں کی دستیابی کی بنیاد پر ترجیح دیگر ذرائع کو رہی لیکن ہر دو حوالوں سے معاملہ، اختیارات فساق وفجار سے لے کر صالحین کے حوالہ کرنا ہی ہے. سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اگر روایتی مذہبی تصور زندگی اختیار کر لیتے، محض اشاعت دین پر اکتفا کر بیٹھتے تو یزید اور ان کے حواریوں کو شاید اتنا بڑا اعتراض نہ ہوتا لیکن جو چیز ان کی نزدیک قابل اعتراض اور خطرناک تھی، وہ امام کا تصور دین، ریاست، حکومت اور سیاست تھا۔ اسلامی خلافت کی اپنی اصل حالت میں بحالی اور اس کا تحفظ تمام تر جدوجہد کا مرکز و محور تھا اور اسی موقف پر استقامت اور ڈٹ کر کھڑا ہونے سے معرکہ کربلا بپا ہوا اور امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے لازوال قربانییوں کی تاریخ رقم کی۔
اس عظیم جدوجہد اور لازوال قربانی کی آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ سنت حسین رضی اللہ عنہ کو زندہ کرنے والوں کی صف میں یا یزیدیت کے علمبرداروں کے لشکر میں؟
ہر دور کے یزید کے محفل میں بیٹھ کر
دیتے ہے لوگ گالیاں گزرے یزید کو!
کربلا کے میدان میں بہتے ہوئے عظیم اور پاکیزہ خون کا یہی پیغام ہے کہ:
شہ رگ شبیر سے ہے کربلا کی آبرو
عصر حاضر کے یزیدوں کی طرفداری نہ کر
تاریخ کی گواہی ہے اور وقت کا اعلان ہے کہ:
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
یہ سوال بھی کوئی نیا نہیں کہ بیک وقت کئی جماعتوں کی جدوجہد کی کیا پوزیشن ہوگی؟
اہل علم کے نزدیک چونکہ حق اور دین غالب نہیں ہے، اس لیے کسی ایک جماعت کو ”الجماعت“ نہیں گردانا جاسکتا اور جو جو جماعتیں قرآن و سنت کے تعلیمات کے مطابق کسی بھی طریق کار کے مطابق جدوجہد کر رہی ہیں، اختلاف کے باوجود وہ ایک دوسرے کی معاون و مددگار ہیں، اور شہادت حق ہی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں. ہمارا خیال ہے کہ حکومت الہیہ کے قیام کے جدوجہد کو محض سیاسی کشمکش اور اقتدار کا حصول گرداننا سیکولر سوچ، فکر و فلسفے اور نظریے کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہے.
تبصرہ لکھیے