یہ غالباً سولہ سترہ برس پرانی بات ہے جب روزنامہ امت کا دفتر کراچی کے گنجان ترین علاقے نامکو سینٹر میں ہوا کرتا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب شہر ایم کیو ایم کے قبضے میں اور صحافت یرغمال ہوا کرتی تھی۔ تب نیوز چینلز نے جنم نہیں لیا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا میں صرف پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان ہی تھے، جو بلاشرکت غیرے سرکار کے قبضے میں تھے۔ لے دے کر اخبارات اور جرائد ہی بچے تھے، جو ایم کیو ایم سے بچے ہوئے نہیں تھے، سرشام ہی اخبارات کے فیکس نائن زیرو کے بیانات دینا شروع کردیتے جن کی نوک پلک سنوار کر اخبارات نمایاں طور پر شائع کرنے کے پابند ہوتے تھے۔
ایسے میں روزنامہ امت اکلوتا اخبار تھا جس نے اس پابندی کو قبول کرنے سے علانیہ انکار ہی نہیں کیا، بلکہ ایم کیو ایم کے حوالے سے کھل کر لکھنا بھی شروع کردیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب الطاف حسین کو لندن میں چھینک بھی آتی تو کراچی میں آٹھ دس معصوم شہریوں کا صدقہ دے دیا جاتا۔ اس ماحول میں امت کی بے باکی اکثر کی نظروں میں حماقت ٹہری تھی۔ ان دنوں ایڈیٹر صاحب کا معمول ہوتا تھا کہ وہ آٹھ نو بجے رپورٹنگ ڈیسک پر آتے اور ہر رپورٹر سے پوچھتے کہ آج کیا لائے ہو؟ خبر اچھی اور بڑی ہوتی تو وہ رپورٹر کو اپنے چھوٹے سے دفتر میں بلالیتے، خبر کے بارے میں سوال جواب کرتے، شواہد طلب کرتے کہ اس ایکسکلوزیو نیوز کے ثبوت کیا ہیں اور اس ادارے، شخص کا موقف کہاں ہے؟ موقف کے بنا خبر شائع نہیں ہوتی تھی۔ ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ جس کے خلاف خبر ہے، اس سے لازمی رابطہ کریں۔ اس کا موقف لیں، بے شک وہ گالیاں دے۔
ایسے ہی اک رات ایڈیٹر صاحب اپنے کمرے سے نکلے، رپورٹنگ ڈیسک پر پہنچے اور رپورٹروں سے کارگزاری پوچھنے لگے۔ ایک سینئر رپورٹر نے خبر سامنے رکھ دی جو ایم کیو ایم کی خاتون بااثر راہنما نسرین جلیل صاحبہ کے خلاف تھی۔ ایڈیٹر صاحب نے خبر ہاتھ میں لی اور پڑھنے کے بعد رپورٹر سے پوچھا کہ موقف کہاں ہے؟ رپورٹر نے پس و پیش کی کہ ایم کیو ایم والوں سے کیسے بات کی جائے؟ کیسے موقف لیا جائے؟ ایڈیٹر صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ موقف لو، اس کے بعد ہی خبر فائل کرنا۔ رپورٹر نے سعادت مندی سے سر ہلایا اور تار کھینچ کر ٹیلی فون کو قریب کھسکاکر نمبر ڈائل کرکے نسرین جلیل صاحبہ سے لگا۔ ایڈیٹر صاحب اپنے کمرے کی طرف پلٹے تو آغا خالد صاحب نے رپورٹر سے پوچھا: ’’بات ہوگئی؟‘‘
رپورٹر نے اثبات میں سر ہلایا جس پر آغا خالد صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ فون تو ڈید پڑا ہوا ہے، موقف کیسے لے لیا؟ اب رپورٹنگ ڈیسک میں لگنے والا قہقہہ خاصا زور دار تھا۔
آج سیلانی کو وہ واقعہ اور قہقہہ بڑی شدت سے یاد آرہا ہے کہ اک دور وہ بھی تھا اور یک دور آج کا بھی ہے کہ صحافت کی لغت سے ہی ذمہ داری، اصول پسندی کے الفاظ نکال دیئے گئے ہیں۔ مقام افسوس یہ کہ ایسی بے اصول صحافت اب وہ اخبار بھی کررہے ہیں جو پاکستان کے بڑے اخبار قرار پاتے ہیں۔ جو فرنٹ پیج پر پاکستان کے سب سے بااصول لیڈر بابائے قوم کی تصویر فخریہ چھاپتے ہیں کہ قائد اعظم ان کا اخبار پڑھا کرتے تھے۔ انگریزی کے اسی بڑے اخبار کے صفحہ اول پر لگنے والی خبر نے اپنی ہی ساکھ پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
سیلانی اسلام آباد سے دور کراچی میں رہتا ہے، لیکن اب فاصلوں کی اہمیت ہی کیا رہی ہے۔ سیکنڈوں منٹوں میں یہاں کی آگ کی تپش وہاں اور وہاں کی پھوہار کی بوندیں یہاں پہنچ جاتی ہیں۔ پھر کراچی کے اس بڑے انگریزی اخبار کی خبر ڈسکس کیسے نہ ہو، یہ خبر تو ملکی سرحدوں سے نکل کر نئی دہلی میں بھی مزے لے لے کر سنائی جارہی ہے کہ معاملہ پاکستان کا ہے۔ سچی بات ہے یہ خبر سیلانی کی نظر سے نہیں گزری تھی، البتہ اس نے سنا تھا کہ ایک بڑے انگریزی اخبار نے کچھ ’’بڑی بریکنگ نیوز‘‘ دی ہے۔
سیلانی کو وہ خبر ای میل کی صورت اسلام آباد میں ایک دوست نے بھیجی، وہ دفاعی تجزیہ نگار ہیں، رابطہ ہوا تو پھبتی کستے ہوئے کہنے لگے ’’آج کل آپ کراچی والے کیا چلارہے ہیں۔۔۔۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں‘‘ سیلانی کو معاملے کا علم ہی نہیں تھا۔
’’ارے بھئی کراچی والوں نے ڈی جی آئی ایس آئی اور شہباز شریف کو بھڑا دیا اور آپ کو خبر ہی نہیں۔‘‘
استفسار پر پتا چلا کہ ایک بڑے اور پرانے انگریزی اخبار نے کسی اجلاس کی خبر چھاپی ہے، جس میں بتایا گیا ہے شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر کے درمیان گرما گرمی ہوئی ہے اور ظاہر یہ کیا جارہا ہے کہ سول اور عسکری قیادت فاصلے پر کھڑی ہے۔۔۔ سول حکومت کا گلہ ہے عسکری قیادت انتہا پسند جہادیوں کو سپورٹ کرتی ہے اور اسی وجہ سے پاکستان عالمی تنہائی کی طرف جارہا ہے۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تو سیدھا سیدھا سول اور ملکی سلامتی کے اداروں کو ایک دوسرے سے بھڑانے کی کوشش ہے۔ بھارت سمیت دنیا کو بتانا ہے کہ فوج اور حکومت کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے اور حکومت نے عسکری اداروں پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی سے بچنے کے لیے اہم معاملات پر اتفاق رائے سے کارروائیاں ہونی چاہئیں۔
’’اوہ ان حالات میں یہ خبر تو واقعی خطرناک ہے۔ اگر کسی اردو اخبار میں شائع ہوتی تو شاید اتنا زیادہ مسئلہ نہ ہوتا لیکن یہ انگریزی اخبار تو بااثر سفارتی حلقوں میں پڑھا جاتا ہے۔‘‘
’’اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ سوچ سمجھ کر ہی خبر شائع کی گئی ہے۔‘‘
انہوں نے سیلانی کو خبر ای میل کردی، جو اب سیلانی کے سامنے تھی۔ خبر کیا تھی نئی دہلی اور واشنگٹن کی باچھیں کھلارہی تھی۔
’’حکومت نے واضح اور غیر معمولی طریقے سے قیادت کو یہ پیغام پہنچادیا کہ عالمی سطح پر تیزی سے پاکستان تنہا ہورہا ہے جبکہ ریاستوں کی جانب سے کئی اہم معاملات پر کارروائیوں کے لیے اتفاق رائے کا بھی تقاضا کردیا۔‘‘
پیر 3 اکتوبر کو آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر ہونے والی ایک خفیہ ملاقات میں کم سے کم دو اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔ پہلا یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے ہمراہ چاروں صوبوں کا دورہ کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹرز کمانڈرز کو ایک پیغام دیں گے۔ وہ پیغام یہ ہوگا کہ: فوج کے زیر انتظام کام کرنے والی خفیہ ایجنسیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کالعدم شدت پسند گروہوں اور ان گروپس کے خلاف کارروائیوں میں مداخلت نہیں کریں گی، جنہیں اب تک سویلین ایکشن کی پہنچ سے دور سمجھا جاتا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کے دورہ لاہور سے اس عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ دوسرا یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہدایات دیں کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں جبکہ ممبئی حملہ کیس سے متعلق مقدمات راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں دوبارہ سے شروع کی جائیں۔ یہ فیصلے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان ہونے والی زبردست بحث کے بعد کیے گئے۔ زیر نظر مضمون ان شخصیات سے ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے جو رواں ہفتے ہونے والے اس اہم اجلاس میں شریک تھے، تاہم ان تمام افراد نے آن ریکارڈ بات کرنے سے انکار کیا اور انہوں نے جو باتیں کیں، ان کی تصدیق متعلقہ افراد کی جانب سے بھی نہیں کی گئی۔‘‘
حیرت کی بات یہ تھی کہ خبر ہی میں کہا جارہا تھا کہ اس حوالے سے فریقین میں سے کسی نے تصدیق کی نہ آن دی ریکارڈ بات کی۔ پھر بھی خبر صفحہ اول پر چھاپ دی گئی۔ خبر میں مزید دعویٰ کیا گیا تھا:
’’سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر سول عہدے داروں کے درمیان حیرت انگیز اور غیر معمولی تبادلہ خیال شروع ہوگیا۔ سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے رد عمل میں ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر نے استفسار کیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ اس پر اعزاز چوہدری نے جواب دیا کہ عالمی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسے ضروری سمجھتی ہے گرفتار کرے، تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کہی یا پھر عمومی طور پر کالعدم تنظیموں کے ارکان کے حوالے سے کہی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے غیر متوقع طور پر مداخلت کی گئی اور انہوں نے رضوان اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردیتی ہے۔
شہباز شریف کا یہ موقف سن کر شرکاء ششدر رہ گئے، تاہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے خود وزیر اعظم نواز شریف نے رضوان اختر کو مخاطب کیا اور کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا، وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔ قبل ازیں اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ فوج کی پالیسی ہے کہ وہ شدت پسند گروہوں کے درمیان فرق نہیں کرتی اور فوج اس پالیسی کو رائج رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔ تاہم آئی ایس آئی چیف نے مختلف شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے وقت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا اور کہا ان کارروائیوں سے ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ بھارت کے دباؤ پر کی جارہی ہیں یا ہم نے کشمیریوں سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے۔‘‘
ملک کے ٓبڑے انگریزی روزنامے میں سیاسی اور عسکری قیادت میں تلخ ملاقات کا الزام، اس کا ’’احوال‘‘ اور ’’فیصلے‘‘ رپورٹ کرنے والے نے اتنی بڑی خبر بنا موقف کے ہی نیوز ڈیسک کو دے دی اور پھرشاباش کہ اسے چھاپ بھی دیا گیا۔ سیلانی کے دوست نے بتایا کہ اصولی صحافت کے علمبرداروں نے اگلے روز وزیر اعظم ہاؤس سے آنے والی تردید بھی اندرونی صفحوں میں شائع کر دی۔
اس خبر کے حوالے سے سیلانی کے دوست کا کہنا تھا یہ خبر دینے والے صاحب انگریزی اخبار کے رپورٹر ہی نہیں ہیں، وہ تو کالم نگار ہیں۔
اصولی صحافت کی شاہکار خبر سیلانی کے لیپ ٹاپ پر اپنی تما م تر شرانگیزیوں کے ساتھ موجود تھی۔ اس خبر کا مقصد قومی سلامتی کے اداروں اور حکومت کو آنے سامنے لانے اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے بجائے کیا ہوسکتا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی جوبن پر ہے۔ بھارت سے بپھرے کشمیری سنبھلے نہیں سنبھل رہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر مجاہدین کے حملے پھر سے بڑھ گئے ہیں۔ نوجوانوں نے پھر سے بندوقیں اٹھالی ہیں اور ایسی صورتحال میں جب بھارت پاکستان کو عالمی سطح پرتنہا کرنے کے لیے سازشیں کررہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر توپیں لارہا ہے، راجھستان میں مورچے کھود رہا ہے، بارڈر کے دیہات خالی کرا رہا ہے، جنگی تیاریاں کررہا ہے، نریندرا مودی جنگ کے دنوں کے لیے اسلحے کی مخصوص پوجا کررہا ہے اور ہم یہاں اپنی ہی سول اور عسکری قیادت کو لڑوا رہے ہیں۔ دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ حکومت کچھ کہتی ہے اور فوج کچھ کرتی ہے۔۔۔
بالفرض مان لیتے ہیں اجلاس میں ایسا ہی ہوا ہوگا تو بھی کیا اسے ان حالات میں خبر بننا چاہیے تھا؟ صحافی ہونے، اخبار نکالنے اور پیسہ کمانے سے پہلے ہم پاکستانی بھی ہیں۔ پاکستان ہے تو ہم یہاں موجیں کررہے ہیں۔ مزے سے رہ رہے ہیں۔ یہاں سے کمائے جانے والے پیسوں سے ہمارے بچے باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں اور ہم سالانہ تعطیلات میں دنیا کے مہنگے شہروں میں مع اہل و عیال پائے جاتے ہیں۔۔۔ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے خودغرض ہوکر وطن کی نہیں، اپنی ان عیاشیوں کی ہی فکر کرلینی چاہیے کہ پاکستان ہے تو یہ عیاشیاں ہیں۔ ہم اس شاخ کو تو نہ کاٹیں جس پر آشیانہ ہے۔۔۔۔ سیلانی یہ سوچتا ہوا سامنے میز پر رکھے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو لب بھینچے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
تبصرہ لکھیے