’’پیارے نانا.
آپ پر اللہ اور اس کے فرشتوں نے درود بھیجا، دیکھوتو ذرا یہ کیا ہوگیا ہے؟
ذرا اپنے حسینؓ کو دیکھو جس کا سر کٹ چکا ہے۔
اے میرے پیارے ناناﷺ
حسینؓ کے لاشے پر گھوڑے دوڑائے گئے ہیں، پوراجسم خون کی سرخ پوشاک پہن چکا ہے.
معصوم بچوں کی لاشیں کٹی پڑی ہیں۔
اے میرے پیارے ناناﷺ
آج تیری بیٹیاں قیدی بنالی گئی ہیں.‘‘
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے الفاظ آسمان کو چیر کر عرش الہی تک پہنچ رہے تھے، کائنات کا ذرہ ذرہ رو رہا تھا یہاں تک کہ یہ سن کر خودسنگ دل قاتلان حسین رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے ،کربلا کی زمین شہیدوں کے خون سے سیراب کرکے ظالموں کا لشکر سروں کو نیزوں پر چڑھائے اور پاک بیبیوںؓ کو قیدی بنائے روانہ ہوچکا تھا۔
ابھی کچھ ہی دیر قبل جمعہ کے بابرکت دن ان پاک باز ہستیوںؓ نے اس زمین کو اپنے لہو سے سینچا تھا، 32 گھڑ سوار اور 40 پیادوں کا یہ لشکر جن میں 23 اہل بیت اور ان میں سے بھی 16 آل رسول (باختلاف روایت) یہاں اپنے نانا ﷺ کے دین کی شہادت دے چکے تھے۔ اسلامی سال کے آغاز پر اس دن کا انتخاب بھی اللہ کی غیرمعمولی مشیت کے سبب ہی تو تھا، تا کہ اسلامی سال کا آغاز آل رسولﷺ کی مظلومانہ قربانی سے ہو اور پھر قیامت تک کے لیے یہ ہر سال کا آغاز کا عنوان بن جائے، حسین رضی اللہ عنہ کے چاہنے والوں کے لیے انھی کے نام سے منسوب ہو کر رہ جائے۔
وہ حسین کہ جن کی پیدائش کے وقت جب ان کی امی جان حضرت فاطمتہ الزہراؓ نے ان کا نام حرب (بہادر، جنگجو) رکھنا چاہا تو نبی مہربان ﷺ نے خود بدل کر حسین رکھا اور فرمایا کہ یہ نام آج تک تاریخ میں کبھی نہیں رکھا گیا، اللہ نے یہ نام چھپا کر رکھا تھا اور اب حسین کے لیے تجویز کیا ہے، یہی نہیں بلکہ فرمایا فرشتہ آیا تھا، اس نے بشارت دی ہے کہ یہ نوجوانؓ اور اس کا بھائیؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔گویا پیدا ہوتے ہی محض جنتی نہیں جنتیوں کے سردارؓ ہونے کی بشارت۔
وہ حسینؓ کہ جو میرے نبی مہربان ﷺ کے ایسے پیارے تھے کہ آپ ﷺ نے ان کے لیے خطبہ روک دیا، ان کے لیے شفقت سے سواری بن گئے، ان کے لیے نماز لمبی کی، ان کو کندھوں پر لیے لیے پھرے، ان کا منہ چوما، ان کے ہونٹوں پر بوسے دیے، ان کے پورے وجود کو نبی مہربانﷺ کے لبوں کا لمس ملا، اس لیے کہ یہ اس پورے وجود کے ہر ہر حصے سے اپنے ناناﷺ کے دین کی شہادت دینے والے تھے، اس لیے کہ ان ہونٹوں سے ناناﷺ کے دین کی کبریائی بیان ہونے والی تھی، اس لیے کہ انہوں نے ساری دنیا کے سامنے قیامت تک کے لیے خلافت اور بادشاہت کے درمیان حد فاصل کھینچنی تھی اور پھر 10محرم الحرام کو وہ لمحہ آن پہنچا۔
امام حسین رضی اللہ عنہ 9 محرم کو کربلا کے میدان میں، تلوار سے ٹیک لگائے اپنے خیمے کے سامنے بیٹھے ہیں، ہلکی سی اونگھ آتی ہے، بیدار ہوتے ہیں تو چہرے پر مسکراہٹ ہے، فرماتے ہیں نانا خواب میں آئے تھے، بولے حسین مجھ سے ملنے کی تیاری کر لو۔ اور پھر کربلا کے سارے ہی خیمہ نشین رات بھرا پنے رب کو منانے اور اس کے دربار میں آہ و زاری کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ اگلے دن ان مطمئن اور جنتی روحوں کوامام عالی مقام رضی اللہ عنہ خود صف آراء کرتے ہیں، امام حسین کے بھائی، ابو بکر، عثمان، عباس، جعفر اور محمد سب ہی موجود ہیں، ان کے بیٹے بھی موجود ہیں، آپ کے حمایتی دیگر لوگ بھی جرات و بہادری کا پیکر بنے کھڑے ہیں، اور تین ہزار یزیدیوں کا لشکر بھی سامنے موجود ہے۔ معرکے کا آغاز ہوتا ہے اور پے در پے شہادتیں اہل بیت کے حصے میں آتی چلی جاتی ہیں، سب کو اپنے سے زیادہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی جان عزیز ہے، حمایتی بھائی بھتیجے یکے بعد دیگرے داد شجاعت دیتے شہید ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ظہر کا وقت آن پہنچا ہے امام حسین رضی اللہ عنہ نماز کی مہلت طلب کرتے ہیں، نہیں ملتی، آپ کے اطراف اپنے پیاروں کی لاشیں ہیں، خون سے لباس مبارک رنگین ہے، تھکن سے چور، ایسے میں ذرا دیر کو خیمے کے باہر بیٹھ کر ننھے عبداللہ کو خیمے سے باہر بلا کر گود میں لیتے ہیں کہ جہنمی حرملہ کا تیر سنسناتا ہوا آتا ہے اور معصوم عبداللہ کا حلق چھلنی کر دیتا ہے، بے بسی اور مظلومیت شاید آج سے زیادہ کسی انتہا کو کبھی نہ پہنچی ہوگی، آپ عبداللہ کے معصوم خون سے چلو بھر کر آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں اور خدا کی قسم اگر یہ دنیا دارالعمل نہیں دارلجزا ہوتی تو اللہ کا قہر اس لمحے یزید کے لشکر کو زمین میں دھنسا مارتا، آسمان پھٹ پڑتا۔
پھر آپ میدان کارزار میں جا پہنچتے ہیں، معرکہ گرم ہے، اکیلے حسین اور ہزاروں کا لشکر، مگر حسین بھلا پہلے کبھی کسی سے ڈرا تھا جو اب دبے گا؟ جرات سے دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہوتے ہیں، ایسے میں ایک بدبخت مالک بن بشیر کی تلوار امام کے سر پر پڑتی ہے اور سر سے خون جاری ہوجاتا ہے، آپ رضی اللہ عنہ خود مبارک اتار کر عمامہ باندھ لیتے ہیں مگر اب نیزے کا وار اور پھر تلوار کے وار سے وہ شہ سوار زمین پر آ رہتا ہے، ڈاڑھی مبارک خون سے تر ہوجاتی ہے اور ایک شقی القلب آگے بڑھ کر سرمبارک کو تن سے جدا کردیتا ہے. کربلا کی سرزمین نے آج سے زیادہ دکھ اور تکلیف کامرحلہ نہیں دیکھا تھا۔ شہدا کی لاشوں کے کٹے پھٹے ڈھیر وہیں چھوڑ کر اور پاک بیبیوں کو قیدی بناکر بد نصیب لشکر روانہ ہوجاتاہے۔
افق کی سرخ قبا سے سراغ ملتا ہے
تمہارا خون ستاروں میں جگمگائے گا
تمہارے بعد کہاں یہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے تمہارا جواب لائے گا
امام عالی مقام اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی اور موت دونوں کے ذریعے شہادت حق کادرس دے کر اپنے ناناﷺ سے جا ملے اور آج جنتوں کی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے، مگر ان کے خون کا ہر قطرہ اپنے چاہنے والوں کے لیے کچھ سبق چھوڑ گیا ہے۔ آئیے ان پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔
معزز قارئین! امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اپنی بصیرت سے دراصل یزید کی خلافت کی شکل میں اسلامی ریاست کے دستور، مزاج اور نظام میں ایک بڑی تبدیلی کو سامنے دیکھ رہے تھے جس کو روکنا اور اس کے لیے جان و مال اور خاندان سب لٹادینے کو انہوں نے فرض عین سمجھا اور سب قربان کر دیا. وہ تبدیلی کیا تھی؟ ملک کا قانون پہلے کی طرح اسلامی تھا، چور کا ہاتھ کاٹا جاتا تھا، زانی کو سنگسار کیا جاتا تھا، لوگ نمازیں پڑھ رہے تھے، عبادات، اخلاق، معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی، نکاح، طلاق، وراثت کے طریقے بھی وہی تھے، لوگ اللہ رسول آخرت اور دیگر تمام ایمانیات پر بھی قائم تھے، پھر آخر تبدیلی کیا آرہی تھی جو امام عالی مقام کو قبول نہ تھی؟
دراصل یزید اسلامی ریاست کا دستور اور مقصد تبدیل کرنے جا رہا تھا، ریاست کی گاڑی خلفائے راشدین کے دور میں جس سمت بڑھ رہی تھی، اب اس کے الٹی طرف بڑھنا شرو ع ہو رہی تھی۔ اب اللہ کے بجائے انسانی بادشاہت کا آغاز ہو رہا تھا، بندے اور زمین اللہ کی تھی مگر مرضی اور حکم یزید کا چل رہا تھا، اللہ کی حکمرانی کا زبانی اعتراف تووہ بھی کر رہا تھا، مگر عملاََ اس کی مرضی ہی لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کر رہی تھی، یہی وجہ تھی کہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اس زورآور گاڑی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کو تیار ہوگئے، انہیں نانا کے دین میں تحریف کسی قیمت پر قبول نہ تھی۔
دوسری بات حکمرانون نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم تقریبا معطل کر دیا تھا اور حکومت کا مقصد اپنی بادشاہی کو پھیلانا، اللہ کے بندوں کو اپنا بندہ بنانا بن گیا تھا، بنوامیہ نے تو نومسلموں سے جزیہ لینا شروع کر دیا تھا، وہی بادشاہوں کے ٹھاٹھ باٹھ اختیار کر لیے تھے، حلال و حرام کا فرق ختم ہوتا جا رہا تھا، سیاست اخلاق سے عاری ہو رہی تھی، حکمران خود خدا سے ڈرنے کے بجائے خدا کے بندوں کو خود سے ڈرانے لگے تھے، ایمان و ضمیر بیدار کرنے کے بجائے انعام و رشوتوں کے ذریعے لوگوں کو خریدنا شروع کر دیا تھا، قیصر و کسرٰی کے رنگ ڈھنگ اختیار کیے جا رہے تھا، اسلامی دستور میں بنیادی انحراف آچکا تھا جس نے اسلامی ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا تھا۔
آئیے اسلامی دستور کو سامنے رکھتے ہیں اور اس کے7 بنیادی اصولوں کے حوالے سے خلفائے راشدین اور بادشاہی ادوار کا موازنہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کیا آج بھی کہیں یہ انحراف تو جاری نہیں ہے؟
(1) حکمران، لوگوں کا پسندیدہ
خلفائے راشدین کا دور
(الف) صحابہ کرامؓ میں سے سب سے بہتر ہستی کا انتخاب.
(ب) بیعت کے ذریعے اقتدار نہ کہ اقتدار کے بعد بیعت.
(ج) سازش اور کوشش سے اقتدار کے حصول کی کوشش تو دور کی بات، اقتدار کی طلب اور خواہش کا ہی وجود نہیں.
(د) اگر لوگوں کا اعتماد ختم تو اقتدار ختم.
(الحمد للہ کبھی ان پاکباز ہستیوں کے بارے میں کسی ذہن میں ایسا خیال ہی نہیں آیا)
شاہی دور
(الف) امیر معاویہؓ کی پوزیشن متنازعہ ( اسی لیے خلافت راشدہ میں شامل نہیں کیا گیا اور یزید نے تو اس کو بالکل الٹ پلٹ دیا)
(ب) بیعت میں لوگ آزاد نہیں رہے۔
(ج)مجبور کر کے بیعت لی گئی۔
(د) لوگوں کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں۔
(س) نہ ماننے پر سخت سزا (قتل کیا گیا، کوڑے مارے گئے، اذیتیں دی گئیں)
(2)شورائیت
خلفائے راشدین کا دور
(الف) حکومت مشورے سے.
(ب) مشورہ علم ، تقویٰ اور درست رائے رکھنے والوں سے.
(ج) خلافت راشدہ کے مشیر اختلاف کی ہمت رکھنے والے صحابہ کرامؓ
شاہی دور
(الف) مشورے کا طریقہ تبدیل.
(ب) شہزادے اور خوشامدی یا پھرگورنر اور فوجی مشیر (وہ مشیر جن کواعتماد کے ایک ووٹ کے بجائے لعنت کے ہزار ووٹ ملتے)
(ج) حق پرست مشیر معتوب
(3) اظہار رائے کی آزادی
خلفائے راشدین کا دور
(الف) ضمیر اور زبانیں آزاد
(ب) امر بالمعروف اور نہی عن المنکرحق نہیں فرض
(ج) احتساب پر انعام، ڈانٹ نہیں تعریف
(د) آزادی اظہار، عوام پراحسان نہیں دستوری حق
(س) فرائض خلافت کا اہم جزو
(ص) معاشرے اور ریاست کی فضا کو اس اہم حق کے لیے خود خلفاء راشدین نے سازگار بنایا۔
شاہی دور
(الف) ضمیروں پر تالے ڈال دیے گئے
(ب) منہ بند کروادیے گئے
(ج) زبان کھولو تو تعریف میں ورنہ خاموش رہو
(د) ضمیر زیادہ مجبور کرے تو پھر قید اورقتل کے لیے تیار ہو جاؤ
(س) آہستہ آہستہ مسلمانوں کو بے ہمت، بزدل اور مصلحت پسند بنا دیا گیا۔
(ط) خوشامد اور چاپلوسی کی مارکیٹ ویلیو زیادہ اور حق گوئی کی کم ہوتی چلی گئی
(ظ) اعلیٰ قابلیت کے ایماندار اور آزاد خیال لوگ حکومت سے لاتعلق ہوتے گئے
(ع) عوام کا کسی حکمران سے دلی تعلق نہیں رہا، (کوئی کسی کی حمایت میں نہیں نکلا، لوگ تماشائی بن کر حکومتوں کو آتا جاتا دیکھتے رہتے)۔
(4)خدا اور خلق کے سامنے جوابدہی کا احساس
خلفائے راشدین کا دور
(الف) دن رات جواب دہی کی شدید فکر، ہر وقت ہر جگہ جوابدہ،
(ب) صرف شوری میں نہیں دن میں پانچ نمازوں میں جوابدہی کے لیے موجود، ہر جمعہ کو خطبہ، اپنی کہتے، ان کی سنتے،
(ج) شب و روز بازاروں میں اکیلے پھرتے، ان کے صدارتی محل (کچے مکان) کا دروازہ سب کے لیے کھلا رہتا
(د) نمائندوں کے واسطے سے نہیں بلکہ براہ راست جواب دہی
(س) عوام سے کوئی خطرہ نہیں (اس لیے کہ اقتدار کی خواہش سے پاک ہستیاں تھیں)
شاہی دور
(الف) جوابدہی کا تصور عملا ختم، بس زبانی کلامی، (کوئی مائی کا لال سوال نہیں کر سکتا تھا)
(ب) اپنی قوم کے فاتح، مفتوح، عوام بھلا کیا پوچھ سکتے تھے؟ ان کا نعرہ تھا جس میں ہمت ہے اقتدار چھین لے،
(ج) نماز اپنے محلوں میں اور باہر مسلح دستوں کے ساتھ، کوئی قریب نہ پھٹک سکتا تھا
(5)بیت المال ایک امانت
خلفائے راشدین کا دور
ّ(الف) خدا کامال اور مسلمانوں کی امانت
(ب) ناحق، کوئی چیز اس میں آسکتی تھی نہ جا سکتی تھی
(ج) خلیفہ کے لیے قرآنی حکم کہ اگر ضرورت مند ہوتو اتنا لو جس سے بس ضرورت پوری ہوجائے۔
(د) ایک ایک پائی کا حساب کتاب
(س) مسلمانوں کو حساب پوچھنے کا پورا حق (حضرت عمرؓ سے کرتہ کے بارے میں سرعام سوال)
شاہی دور
(الف) خزانہ، خدا اور خلق کا نہیں خلیفہ کا مال
(ب) ہر جائز و ناجائز راستے سے مال آتا اور جاتا
(ج) خلیفہ ہی نہیں اس کے عام ہرکارے بھی کرپشن سے بیت المال کو لوٹتے تھے
(د) ذہنوں سے جوابدہی کا تصور تک ختم
(6)قانون کی حکمرانی
خلفائے راشدین کا دور
(الف) خود خلفائے راشدین اس کا بہترین نمونہ
(ب) دوستی اور رشتہ داری قانون سے ہٹ کر کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتی تھی۔
(ج) ناراضگی کسی کو قانون سے ہٹ کر کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتی تھی۔
(د) خود بھی عام آدمی کی طرح عدالت میں مقدمے لے جاتے اور کوئی دوسرا بھی انہیں عدالت میں کھڑا کر سکتا تھا۔
(س) گورنر، سپہ سالار سب قانون کی گرفت میں کسے ہوئے تھے۔
(ص) کوئی قاضی پر اثرانداز ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا
شاہی دور
(الف) خلیفہ تو کیا ان کی لونڈیاں اور غلام بھی قانون سے بالاتر
(ب) انصاف کے دو پیمانے ایک کمزور کے لیے دوسرا طاقتور کے لیے
(ج) عدالتوں میں فیصلوں کے لیے دباؤ اور قاضیوں کی شامت (یہاں تک کہ ایماندار قانون دانوں نے کوڑے کھانے کو قاضی بننے پر ترجیح دی تاکہ غلط فیصلے نہ کرنے پڑیں۔)
(7)حقوق میں مساوات
خلفائے راشدین کا دور
(الف) کامل مساوات پوری قوت سے نافذ
(ب)نسل، وطن، زبان کا کوئی امتیاز نہیں
(د) خدا اور رسول کے ماننے والے سب برابر
(س) ترجیح صرف تقوی کی بنیاد پر
شاہی دور
(الف) عصبیت کے شیطانوں کا قبضہ
(ب) شاہی خاندان اوران کے حامی سب سے اعلیٰ اور آگے
(ج) عربی و عجمی کی واضح تفریق
(د) عام قبیلوں کا ایک دوسرے پر فخر جتانا
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کا کردار
امام ذی وقارؓنے اپنی بصیرت سے دیکھ لیا تھا کہ خلافت بادشاہت میں تبدیل ہونے کے بعد کیا ہونے جا رہا ہے اور یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ناناﷺ کے دین کے ساتھ اس سلوک کو برداشت کر لیتے؟ اس لیے وہ نتائج سے بے پرواہ ہوکر ایک جمی جمائی مضبوط حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے. امام نے اس خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو برداشت کر کے جو بات ثابت کی، وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جسے بچانے کےلیے ایک مؤمن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچے بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے اور ان خصوصیات کے مقابلے میں اسلامی دستور اور ریاست میں آنے والی مذکورہ منفی تبدیلیاں وہ آفتیں ہیں جنہیں روکنے کے لیے ایک مؤمن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کرنا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہیے۔ اب کسی کا دل چاہے تو اسے حقارت سے سیاسی کام کہہ دے ورنہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی نظرمیں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا، اس لیے انہوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھا۔
(اس مضمون کی تیاری میں مرحوم مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ کی تحاریر، حضرت مولانا طارق جمیل کی تقاریر اور تاریخ اسلام از صولت مرزاسے راہنمائی اوراستفادہ کیا گیا)
تبصرہ لکھیے