(کشمیر میں قابض بھارتی پولیس کے ہاتھوں پیلٹ گن کے چھروں سے شہید ہونے والے بارہ سالہ معصوم طالب علم جیند احمد کا ایک دل کو لہو کر دینے والا فرضی خط لکھا گیا ہے۔ کوئی بھی صاحب دل اسے پڑھ کر آنسو نہیں روک پاتا۔ ریحان اصغر سید نے دلیل کے لیے اس کا ترجمہ کیا ہے، قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔)
بنام انکل نعیم اختر
وزیر تعلیم جموں کشمیر
(برائے میرے امتخانات کی منسوخی)
پیارے انکل!
میں یہ بات آپ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ میں (یعنی جنید احمد کلاس ہفتم، رول نمبر ۲۹ نیو بونونت انگلش سکول سرینگر) دو ہزار سولہ کے سالانہ امتحانات میں شرکت نہیں کر سکوں گا جھنیں آپ نومبر دو ہزار سولہ میں ہر صورت کروانے کے لیے کمربستہ نظر آتے ہیں، کیونکہ میں پہلے ہی آپ سے بہت دور جا چکا ہوں۔
میں اپنے گھر کے دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا جب ایک مہربان صورت پولیس انکل نے اپنی بدصورت نظر آنے والی بندوق سے مجھ پر گولی چلائی۔ اور پیلٹ گولیوں کی بوچھاڑ نے مجھے سر سے لیکر پاؤں تک چھلنی کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ پولیس انکل غلط فہمی کا شکار ہو کر مجھے کوئی ”مطلوب پتھر پھینکنے“ والا لڑکا سمجھے ہوں گے جو کہ میں نہیں تھا۔ مجھے ان پولیس انکل سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
پلیز! محبوبہ آنٹی کو بتا دیجیے گا کہ میں کسی فوجی کیمپ پر حملہ کرنے نہیں گیا تھا، اور ہاں! مجھے دودھ اور ٹافیاں پسند ہیں جس کا تذکرہ محبوبہ آنٹی نے دو مہینے پہلے راج ناتھ انکل (جو کے میرے دادا ابو جیسے ہیں) کے ساتھ پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ کیا انھوں نے سوالیہ انداز میں نہیں پوچھا تھا کہ کیا یہ پتھر پھینکنے والے لڑکے آرمی کیمپوں پر دودھ اور ٹافیاں لینے جاتے ہیں، جن پر وہ اپنی پتھربازی کے ذریعے حملہ کرتے اور نشانہ بناتے ہیں؟ یہ کہہ کر انھوں نے کشمیر میں ہونے والے بےگناہوں کے قتل عام اور بندوق سے محبت کرنے والی فورسز کی وحشت کو جائز قرار دیا تھا. مجھے ان فوجیوں سے بھی کوئی شکایت نہیں ہے کیوں کہ انھیں قتل کرنے کی ہی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ ان کا کام ہے اور وہ اسی چیز کی تنخواہ لیتے ہیں۔
میرے ہمسائیوں نے میرے زخمی جسم کو قریبی ہسپتال لے جانے کی کوشش کی لیکن میرے گھر سے ہسپتال کا مختصر سا فاصلہ بہت طویل ثابت ہوا اور اسی دوران میری زندگی کی بچ جانے والی سانسوں کا سلسلہ پورا ہو گیا۔
اب جب میں اپنی قبر میں ہوں، آپ سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کے میرا سارا سابقہ تعلیمی ریکارڈ اور نتائج ضائع کر دیے جائیں اور مجھ پر رول نمبر سلپ جاری کرنے کی عنایت نہ کی جائے، جس طرح لیلہار پور کی شائستہ حامد کو اس کی موت کے دو مہینے بعد کامیاب قرار دیا گیا تھا۔
میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے ایسی جگہ بھیجا ہے جہاں پامپور کے ایک اُستاد شبیر احمد مونگا پہلے سے موجود ہیں۔ یہاں میرے پاس بے پناہ وقت ہے کہ میں ان سے پڑھوں اور منطق، دلیل سے تنقید کرنے کی زبان جانوں۔
میں اس لیے بھی آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے میرے پرانے قصبے ورمول کے دوست فیضان سے ملوا دیا ہے جسے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور آزاد گنج پل ورمول سے دریائے جہلم میں پھینک دیا گیا تھا۔ اب ہم یہاں خوب انجوائے کریں گے، کھلا وقت ہوگا اور پھر یہاں قتل کیے جانے، اندھا یا معذور ہونے کا ڈر بھی تو نہیں ہے.
برائے مہربانی میرا پیغام محبوبہ آنٹی تک پہنچا دیجیے کہ وہ میری قبر پر آنے کی زحمت نہ فرمائیں کیوں کہ میں ان کو یہ کہتا ہوا نہیں سن سکتا کہ آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا، آپ اس کے لیے مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں؟ میں ان سے بھی ناراض نہیں ہوں۔
شاہ فیصل انکل میں آپ کی کمپین ”کشمیری باکس ڈاٹ کام“ کا حصہ نہ بننے پر معذرت خواہ ہوں، جس میں آپ نے اندھے ہو جانے والے بچوں کے لیے کتابیں اور دوسری تعلیمی اشیاء دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے. ان کا منصوبہ مجھے پیلٹ سے اندھا کرنے کا تھا، لیکن رحم دل پولیس انکل نے مجھے اندھا کرنے سے مار دینا زیادہ مناسب سمجھا۔
میں ذاتی طور پر اس پولیس والے انکل کا انتہائی شکرگزار ہوں جھنوں نے مجھے اندھا کرنے کے بجائے قتل کر کے مجھے اپنے والدین پر بوجھ بننے سے بچا لیا۔ میں پرانے قصبے وارمول کے اعجاز کبیر بیگ کے والدین کا درد سمجھ سکتا ہوں جسے اپنی والدہ کی دوائی خریدنے کی پاداش میں اندھا کر دیا گیا تھا۔
خدارا میرے والد کو نہ ستائیےگا، میں انھیں قائل کر لوں گا کہ وہ میرے قتل کی کوئی ایف آئی آر نہ کٹوائیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ انھیں تھانے میں بلا کر دھمکائیں گے نہ خوفزدہ کریں گے، اور نہ حصول انصاف کی کوشش میں برے انجام سے ڈرائیں گے.
مجھے اس شاندار طریقے سے الوداع کہنے پر میں آپ کا انتہائی ممنون ہوں۔ ایسا شاندار الوادعیہ منتخب لوگوں کے حصے میں ہی آتا ہے۔ اگرچہ میری آنکھیں بند ہوگئیں اور جسم بے جان ہو گیا مگر اس کے باوجود میں پاوا شیلز کی شدت اور تلخی محسوس کرتا رہا۔ ہاں! میں اس کے لیے مودی انکل سے بھی کوئی شکایت نہیں کر رہا۔
آپ سے حقیقی محبت کرنے والا،
لیکن مردہ طالب علم
جنید احمد
کلاس ہفتم
رول نمبر ۲۹
نیو بونووانت ہائی سکول نیو کمپس
اعلی مسجد ہال روڈ
سرینگر، کشمیر
تبصرہ لکھیے