چین کے ساتھ ہندوستان کی جنگ کا ذکر چل رہا تھا؛ اسی اثنا میں فرمایا: امریکہ نے ہندوستان کو مشورے دینے کے لیے اپنا ایک تجربہ کار فوجی جنرل بھیجا؛ جس نے ہند چین سرحد کا فضائی جائزہ لیا؛ وہ سرحد کے قریب کا ہندوستانی علاقہ دیکھ کر حیرت میں پڑگیا؛ اس نے دیکھا کہ سارے کھیتوں میں بم ہی بم پھیلے ہوئے ہیں۔
اتنے بم تو ہمارے پاس بھی نہیں ہیں؛ اس نے ایک ہندوستانی افسر سے کہا۔
سر! یہ بم نہیں، کاشی پھل (کدو) ہیں۔
کاشی پھل؟....وہ کس لیے؟
سر! فوج کے کھانے کے لیے۔
فوج کو کاشی پھل کھلاؤگے؟ پھر وہ خاک لڑے گی؛ ارے بڑے کے نلے کھلاؤ نلے؛ تبھی تو کچھ لڑ سکے گی۔
پھر وہ افسر نیچے اترا؛ اس نے ہندوستان کی صفوں کا جائزہ لیا؛ اگلی صف والے کا نام پوچھا؛ بتایا گیا عبد الشکور؛ سب سے پچھلی صف میں ایک فوجی کا نام پوچھا؛ تو معلوم ہوا کہ اس کا نام رام پرشاد ہے؛ فورا بولا اِسے آگے کرو اور اُسے پیچھے؛ ورنہ جب جنگ ہوگی تو عبد الشکور جام شہادت نوش کرلے گا اور یہ پیچھے سے بھاگ جائے گا۔
بل کلنٹن کے زمانہ میں افغانستان پر حملہ ہوا تو ان دنوں وہ شمشیر بے نیام تھے؛ کسی شوخ نو عمر نے عرض کیا چچا: آج کے اخبار میں ہے کہ آج کلنٹن اور بن لادن کی کشتی ہوگی؛ بولے: اچھا صاحبزادے! اپنا والاشیر ہے شیر؛ چیر کے کھا جائے گا۔
سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کا تذکرہ بہت کرتے؛ اور ہمیشہ یہ بات ضرور سناتے کہ روسی جہاز جب بم برساتے تو افغانی انہیں لُپک لیتے (لُپکنا بمعنی کیچ کرنا)؛ اور انہیں واپس روس پھینک دیتے؛ بس وہاں تباہی مچ جاتی۔
اپنی نسل کے اکثر ”باحمیت“ ہندوستانی مسلمانوں کی طرح وہ بھی پاکستان سے بڑی والہانہ محبت کرتے تھے؛ ہندوستان اور پاکستان کا کرکٹ میچ ان کے لیے کسی معرکہء حق وباطل سے کم نہ ہوتا تھا؛ کسی نے ان کے سامنے پاکستان کے مشہور بلے باز جاوید میاں داد کی برائی کردی؛ سنتے ہی اکھڑ گئے؛ اور بولے میاں! ہاتھ پاؤں باندھ کر بھی ڈال دو گے تو بھی ہندوستان کے خلاف تو ففٹی بناکر ہی آئے گا۔
ذکر ایک مسلمِ غیور کا - احمد الیاس نعمانی

تبصرہ لکھیے