قوموں کی ذہنی غلامی کی ایک علامت یہ ہے کہ بجائے اپنی قومی زبان کو اہمیت دینے کے غیروں کی زبان کو فوقیت دی جاتی ہے۔ انگریز کی طویل غلامی کے اثرات سے آج تک ہم نکل نہ پائے۔ اردو جو کہ ایک خوبصورت زبان ہے، اور جسے بانی پاکستان نے قومی زبان کا درجہ دیا مگر اس کے ساتھ ہمارا مجموعی قومی رویہ سوتیلی اولاد سا ہے۔ ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ انگریزی جاننے والا ہی دراصل ذہین اور قابل ہے، اگر چہ انگریزی اور دیگر زبانوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کی نیت سے زبانوں کو سیکھنے کی ترغیب بھی دی ہے مگر بحیثیت ایک پاکستانی اور مسلمان اردو کی ترویج، اس کی حفاظت ہمارا ملی فریضہ ہے اور اپنے اکابرین کے ذخیرہ کتب سے استفادہ کا ذریعہ بھی۔
دوسری طرف زمینی حقائق کچھ حوصلہ افزا نہیں ہے عصر حاضر کے تعلیمی اداروں سے ایک ایسی نسل تیار ہو رہی ہے جو کہ انگریزی کو باعث افتخار سمجھتی ہے اور مغربی تہذیب سے مرعوب ہے، اردو لکھنا پڑھنا اس کے لیے باعث عار ہے، قومی زبان سے لاتعلقی انتہا پر ہے. المیہ یہ ہے کہ یونیورسٹی سطح کے طالب علموں کو بغیر ملاوٹ کی اردو سمجھ نہیں آتی۔ اغیار نے نہایت مہارت سے یہ بات ذہنوں میں انڈیلی ہے کہ انگریزی کے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے.
فی الحقیقت یہ ایک مفروضے کے سوا کچھ نہیں، مشاہد ے سے یہ بات ثابت ہے کہ سائنس اور دیگر علوم کے مضامین کی تدریس انگریزی کے بجائے اردو میں کی جائے تو جلد تفہیم ہوتی ہے، اور بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں. انگریزی کو بس ایک عالمی برادری سے رابطہ کا ذریعہ سمجھا جائے نہ کہ یہ ہمارے پورے تعلیمی و انتظامی نظام پر حاوی ہو جائے. حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اردو کو اس کا مقام دلائے۔
اردو کے ساتھ ایک ظلم عظیم اینگلو اردو کی صورت میں ہوا، آج کی نسل اردو بولتی ہے تو اس میں 70 فیصد انگریزی کے اور 30 فیصد اردو کے الفاظ ہوتے ہیں۔ اینگلو اردو نے ہماری پیاری زبان کا ستیاناس کردیا ہے. اس صورتحال کی ذمہ دار و قصوروار تنہا نئی نسل نہیں بلکہ معاشرہ اور والدین بھی ہیں، انہیں جیسی تربیت دی گئی وہ ویسے ہی بن گئے. حق یہ ہے کہ اگر آپ اردو زبان بول رہے ہیں یا لکھ رہے ہیں تو مکمل اور خالص اردو کا استعمال کریں، ملاوٹ سے حتی الامکان بچیں، اسی طرح جہاں ضرورت ہو انگریزی بھی خالص بولیں، یہی درست اور مبنی بر انصاف رویہ ہے۔ اینگلو اردو کے عفریت سے نجات حاصل کرنے اور اردو زبان کی ترویج کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے. ہم میں سے ہر ایک اپنی ذات سے اس کی ابتدا کرے، اپنی روزمرہ کی بول چال میں اردو کو دیگر زبانوں پر فوقیت دے اور خالص اردو کو رواج دے، اپنے شاگرد اور اولاد کے دل میں اردو کی عظمت و اہمیت بٹھائے، مطالعہ کی ترغیب دے کر ان کا اردو سے ربط جوڑے، اگر ہم نے سنجیدگی سے کوشش نہ کی تو ڈر ہے کہ آنے والی نسل اردو سے نابلد نہ ہوجائے، اور وسیع ذخیرہ کتب سے محرومی اس کا مقدر نہ ہو جائے، کل کے پچھتاوے سے بہتر ہے کہ اساتذہ، والدین اور حکومت اردو کی حفاظت کے لیے آج اپنا کردار ادا کریں۔
مجھے تو حیرت ہوئی کہ اس ادارے سے وابستہ والدین کو پہلے سے یہ بات کیوں معلوم نہ تھی کہ انتظامیہ کو خبردار کرنا پڑ گیا!!