انسانی معاشروں میں پیدا ہونے والے کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے، گہری اور روشن فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سطحی انداز میں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو امکان ہے کہ بہت جلد وہ مسئلہ کسی اور نئی صورت میں سراُٹھائے گایا جزوی نتائج دینے کے باوجود کُلی حل سے کوسوں دور رہے گا۔
آج کی مسلم دنیا بھی بے پناہ مسائل اور انتشار کا شکار ہے۔ دو ارب آبادی والی امت جو وسائل سے مالا مال ہے، آج دنیا میں ذلیل اور رسوا ہے۔ مسلم معاشروں میں جابجا بے چینی، بے سکونی، نفرت کے بلیک ہولز وجود میں آرہے ہیں۔ ان میں سرفہرست مسئلہ انتہا پسندی کا ہے۔ عسکریت پسند اور دہشت گرد گروہوں کو ملنے والی توانائی کا بڑا ذریعہ مسلم نوجوان ہیں جو اس انتشار کے دور میں ان کے لیے آسان ہدف ثابت ہورہے ہیں۔
آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ سردست جو کوششیں کی جارہی ہیں، وہ سطحی فکر کانتیجہ ہیں۔ مثلاً عسکری قوت کے ذریعے ان گروہوں کو کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے، جبکہ اصل محرکات اپنی جگہ موجود ہیں۔ دوسری طرف داعش جیسے گروہ اسلامی ریاست اور جہاد کی غلط تشریح کو گلیمرائز کرکے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ ضرورت اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ایک گہری اور روشن فکر کی ہے تاکہ مسلم دنیا اس انتشار سے نکل سکے جو آستین کے سانپ اور دیمک کی طرح اسے اندر ہی اندر سے کمزور کررہا ہے۔
اس تحریر میں یہی کوشش کی گئی ہے کہ حتی الامکان ان محرکات، مضمرات اور نتائج کو سامنے رکھا جائے جو اس مسئلے کے ساتھ حقیقی طور پر جڑے ہوئے ہیں ناکہ وہ جو میڈیا پر ریاستی پالیسی کے طور پر بیان کیے جاتے ہیں تاکہ مسلم امہ مناسب تشخیص کے بعد مناسب حل کی طرف بڑھ سکے۔
1) سب سے پہلا مرحلہ تو اس مسئلے کی بنیادی تفہیم کا ہے۔ وہ یہ کہ مسلم امہ کی عمارت مغربی وطنیت کے طرز پر استوار نہیں۔ آپ لاکھ سکائی-پیکوٹ معاہدوں(Ski-Picot Agreement) کے ذریعے اس امت کو ٹکڑوں میں بانٹ کر علیحدہ علیحدہ ترانوں، پرچموں اور قوموں میں تقسیم کردیں، یہ امت پھر بھی ان سے ماورا، اپنے ایک الگ ملی وجود کو برقرار رکھتی ہے۔ اسی لیے یہ امت ہر افغانی، کشمیری، فلسطینی، چینی، چیچن، برمی، شامی، عراقی کا دکھ کو اپنا دکھ محسوس کرتی ہے۔ ایک جسم کی مانند جس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو دوسرا حصہ اس تکلیف کو محسوس کرے ۔اس لیے محض ایک نعرے ” سب سے پہلے پاکستان“ یا سنی شیعہ کی تقسیم یا شامی عراقی کی پہچان عطا کردینے سے یہ امت ایک دوسرے سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ اس لیے سب سے پہلے تو مغربی اور مشرقی پالیسی سازوں کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ مسلم امہ ایک مستقل الگ وجود ہے۔ جس کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہے اور اس حیثیت کو محض چند نعروں، واقعات یا سرحدوں کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔
2) اس مسئلے کے حوالے سے دوسرا اہم محرک استعماری طاقتوں کی مسلم دنیا پر جارحیت ہے۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق اور شام ان استعماری طاقتوں کے غاصب پنجوں میں لہولہان ہیں اور سسک رہے ہیں۔ اپنے قومی، معاشی اور اسٹریٹیجک اہداف کے لیے ان استعماری طاقتوں نے لاکھوں لوگوں کو قربانی کی بھینٹ چڑھادیا۔ ایک انسانی المیے کو جنم دیا جو آج بھی جاری ہے۔ موت، بے گھری، بھوک، معذوری اور خوف تحفے میں دیے ۔
اب اس جارحیت کے جواب میں ایک عام آدمی لامحالہ اپنے حکمرانوں اور افواج کی طرف دیکھتا ہے کہ یہ ان کا کام ہے۔ساٹھ لاکھ سے زیادہ مسلم افواج، میزائل اور نیوکلئیر ٹیکنالوجی کی حامل، دنیا کی بہترین افواج میں اپنی جگہ بناتی ہیں۔یہ ان کا کام ہے کہ وہ مظلوم اور بے بس مسلمانوں کی سیاسی، فکری، اخلاقی اور فوجی امداد کریں تاکہ وہ بے فکر ہوکر اپنی زندگی گزار سکیں اور کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کرسکے۔
لیکن اب ہویہ رہا ہے کہ یہ سیاسی اور فوجی حکمران اس مسئلے کے بنیادی فہم سے عاری ہوکر یا تو خود کو علیحدہ رکھے ہوئے ہیں یا استعماری طاقتوں کے دستِ راست بن کر انھیں مادی مدد مہیا کررہے ہیں یا زیادہ سے زیادہ ان مظلوم مسلمانوں کو خوراک، کپڑے اور اشیائے ضرورت مہیا کرکے خود کو بری الذمہ سمجھ رہے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عسکریت پسند گروہ اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاد کا علم بلند ہوتا ہے، عام آدمی اس میں کشش محسوس کرتا ہے کیونکہ اس کا تعلق عقیدے سے ہے۔ لیکن وہ اس فکری یا سیاسی شعور سے نابلد ہے جو ترجیحات یا فرائض کا تعین کرتا ہے کہ کون سا کام کس کی ذمہ داری ہے؟
اگرچہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا، انفرادی یا دفاعی جہاد ہی کی ایک نوعیت ہے جس کے لیے ایک فرد خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کرتا ہے۔ اگرچہ یہ کام باعث ِ اجر ہےلیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ایسی جماعتیں یا گروہوں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، اگر ایک ایسی ریاست موجود ہو جو اسلام کے نام پر ان کی مدد کرنے کے لیے موجود ہو۔ ظالم کا ہاتھ روکنے اور اس کی سرکوبی کے لیے تیار ہو۔ جو اپنے ریاستی وجود کے ذریعے دنیا بھرمیں ہر جگہ مظلوم مسلمانوں کو اخلاقی، سیاسی اور فوجی مدد دینے کے لیے ہردم تیار ہو ۔تویقین کیجیے کہ دنیامیں کہیں بھی جہادی گروہ ، انفرادی یادفاعی جہاد کی اصطلاح سننے میں نہیں ملے گی ۔
پھر مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب انھیں میں سے کچھ گروہ ناقص شرعی آرا(یعنی جو شرعی آرا وہ بیان کرتے ہیں وہ ناقص اور غلط انداز میں اخذ کی گئی ہوتی ہیں) کی بنیاد پر اپنی عسکریت کا ہدف عام لوگوں(خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم) ، مسلم افواج اور ریاستی اداروں کو بنا لیتے ہیں۔بقول ان کے یہ لوگ بھی ظالم کا ساتھ دینے کی وجہ سے قابلِ ہدف ہیں۔ یہ نسخہ بکنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سےکم علم، بے عمل اور گمراہ لوگ ان کی من گھڑت تاویلات کا شکار ہو کر معاشرہ میں فساد برپا کردیتے ہیں۔
انتہا پسندی یا عسکریت کے اس پہلو کو کس طرح باآسانی شکست دی جاسکتی ہے اگر مسلم ممالک ، ان کے سیاسی اور فوجی حکمران متحد ہوکر یا بطور ایک ریاست کے دنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں کی مدد کرنے کے لیے موجود ہوں ۔ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے تیار ہوں ۔ تو یقین کیجیے کہ عسکریت کا کوئی وجود ہی باقی نہیں رہے گا کیونکہ ہر شے اپنے جواز پر قائم ہے۔ اور عدم جواز سے وہ شے معدوم ہوجاتی ہے۔
3) تیسرا اہم مسئلہ مسلم ممالک کے وسائل پر قابض استعماری طاقتیں ہیں جو مسلم دنیا میں انتہا پسندی کو جنم دے رہی ہیں۔ خواہ یہ قبضہ آئی ایم ایف کی صورت میں معاشی غلبہ ہو، خواہ براہ راست جارحیت کے نتیجے میں تیل ، گیس اور دوسرے قدرتی وسائل پر حق جمانا ہو، خواہ سرمایہ دارانہ نظام کی غارت گری کی صورت میں ہو۔ یہ تمام چیزیں مل کر مسلم دنیا میں بے چینی اوراضطراب کو جنم دے رہی ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے مسلم دنیا کو اس معاشی جبر سے نکالنے والی وہ ریاستی قوت درکار ہے، جو ایک آزاد ریاست کے طور پر اپنا کردار ادا کرسکے اور اپنے شہریوں کو معاشی انصاف مہیا کرسکے۔
4) امریکی تھنک ٹینک پیو(PEW) کے مطابق پاکستان کی 98 فیصد آبادی شرعی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے، یہی حال باقی مسلم دنیا کا ہے۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ باقی 2 فیصد اقلیتی لبرل اور سیکولر طبقہ، استعماری طاقتوں اور ریاست کی آشیر باد سے 98 فیصداکثریت کے سروں پر مسلط ہے۔ اور اپنے لبرل اور سیکولر تصورات میڈیا، تعلیم اورریاستی اداروں کی ذریعے جبراً لوگوں پر تھوپ رہا ہے۔ رینڈ اے کارپوریشن کی شایع کردہ رپورٹ ”سول ڈیموکریٹک اسلام (Civil Democratic Islam) میں اسی 2 فیصد طبقے کی مالی ،ا خلاقی اور مادی امداد کرنے کی تجاویز موجود ہیں جس پر مسلم حکمران دل و جان سے کاربند ہیں۔ اور یہ محرک مسلم دنیا میں بڑھتی ہوئی تفریق کا ایک اہم عنصر ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے ریاستی سطح پر عوام کی خواہشات کا انعکاس بے حد ضروری ہے تاکہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق اپنی اجتماعی زندگیوں کو ڈھال سکیں۔ لوگ اسلام چاہتے ہیں۔ وہ ایسا معاشرہ چاہتے ہیں ،جہاں اسلام کی متعین کردہ معاشرتی حدود کے مطابق زندگی گزاری جاسکے، جہاں ریاست، تعلیم اور میڈیا اسلامی تصورات کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہوں۔ اب اگر ہم ریاستی سطح پر عوام کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانےمیں ناکام رہتے ہیں تو یہ تفریق بڑھتی رہے گی جو مسلم دنیا میں بے چینی، اضطراب اور ردعمل کا اہم محرک ہے۔
تو یہ وہ اسباب ہیں جو مسلم دنیا میں بڑھتی ہوئی بےچینی کے اہم محرکات ہیں۔ اور جن کا سدباب کیے بغیر مسلم معاشروں کو یکسو ہونا ، ناممکن ہے۔ ایسی یکسوئی کہ جس کے بعد معاشرہ مادی ، اخلاقی اور روحانی طور پر بلند ہوسکے۔ اگر یہ محرکات موجود رہتے ہیں تو مسلم دنیا میں پھیلتے ہوئے بھنور اور بلیک ہولز بہت جلد مسلم معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں اپنے فکری اور سیاسی شعور کا بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ فکری ،دین کے فہم کی بنیاد پر اور سیاسی، ریاست اور فرد کے فرائض کے حوالے سے۔ہمیں اس شعور کو ایک ایسی مثالی ریاست کی صورت میں ڈھالنے کی ضرورت ہے، جہاں فرد اور ریاست اپنے اپنےفرائض اور دائرہ کار سے بخوبی آگاہ ہوں۔ایسی ریاست ہو، جو فرد کی محافظ اور ڈھال ہو اور فرد معاشرہ کی تعمیر و ترقی کا کردار۔ بلاشبہ یہ ایک کٹھن کام ہے ۔ لیکن ہمیں اپنے نوجوانوں کو عسکریت سے بچانے کے لیے انھیں ایک مثالی ریاست کی تشکیل و تعمیر کا مقصد دینا ہوگا ورنہ وہ بے سمت بھٹکتے رہیں گے۔ یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت بھی ہے، جس نے منتشر انسانی تاریخ کا رخ ایک اعلی اور افع معاشرے کی طرف موڑ دیا تھا۔
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھےاس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں!
کچل ڈالا تھا جس نے پاوُں میں تاج ِسردارا
تبصرہ لکھیے