اسلام ایک آفاقی اور سچا دین ہے اور اللہ تعالی نے اس کو اپنے بندوں کی زندگی گزارنے کے لیے پسند فرمایا ہے جس کا ثبوت سورہ المائدہ آیت 3 میں موجود ہے.
[pullquote]الیوم اکلمت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا- الآيۃ[/pullquote]
”آج ہم نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں، اور تمھارے لیے اسلام بطور دین پسند کیا.“
پس جن لوگوں نے اس کو اختیار کیا اور اس کے مطابق زندگی گزار دی، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی کی بشارت دے دی گئی ہے، اور قرآنی نکتہ نظر سے بڑی کامیابی یہ ہے، کہ إنسان نار جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو جائے، قرآن میں ارشاد ہے.
[pullquote]فمن زحزح عن النار و أدخل الجنۃ فقد فاز الآيۃ[/pullquote]
”تو جو شخص آتش جہنم سے دور رکھا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہو گیا.“
قرآن کریم میں جہاں مسلمان کی حوصلہ افزائی کے لیے جنت کا ذکر موجود ہے، وہاں اس کے لازوال نعمتوں کی منظر کشی بھی دیکھنے کو ملتی ہے، جنت کے تصور كو واضح کرنے کے لیے گیارہ مقامات (سورہ التوبہ 72، سورہ الرعد 23، سورہ النحل 31، سورہ الکھف 31، سورہ مریم 31، سوره طہ 76، سورہ فاطر 33، سورہ ص 50، سورہ غافر 8، سورہ الصف 12 اور سورہ البینہ 8 میں جنت کے ساتھ اضافی طور پر ”عدن“ کا تذکرہ كيا گیا ہے جس کا مفہوم ہے ”ہمیشہ رہنے کا“ یعنی جنتی حیات اور اس کی خوبصورتی و نعمتیں بھی دائمی وابدی ہے.
سورہ التوبہ اور غافر کی آیتوں میں اللہ تعالی کی طرف سے اپنے نیک بندوں کے ساتھ بطور وعدہ ذکر فرمایا ہے اور باقی آیات میں مجموعی طور پر اس کو اعمال صالحہ کا بدلہ قرار دیا گیا ہے، جنت کی زندگی اور اس میں موجود نعمتوں کی منظرکشی جو قرآن نے کی ہے باقی مقدس و الہامی کتب میں موجود نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ مستشرقین اس کی اللہ تعالی کی طرف سے ہونے کا انکار کرتے ہیں.
موجودہ بائبل جو تورات (Old testament) اور انجیل (New testament) کا مجموعہ ہے، میں جنت عدن کی وہ تصویر کشی مفقود ہے، جو قرآن كريم میں کی گئی ہے، مثلا تورات میں جنت کا تذکرہ موجود ہے لیکن اس میں فقط جنت کی سرسبزی و شادابی اور نہریں بہنے کا بیان موجود ہے اور باقی نعمتیں جن کا قرآن حكیم میں ذکر ہے کہ جنتیوں کے لیے پر آسائش مکانات، حور العین، بےموسم میوے اور خدام ہمہ وقت حاضر خدمت ہوں گے اور جنتی مسندوں پر بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہوں گے وغیرہ وغیرہ کا تذکرہ تورات میں نہیں پایا جاتا، تورات میں جنت کا ذکر کچھ یوں کیا گیا ہے.
And out of the garden the Lord God made to grow every tree that is pleasant to the sight and good for food, the tree of the life also in the midst of the garden, and the tree of the knowledge of good and evil (Gens 2:9)
اس کے علاوہ کتاب پیدائش (2:10-14 اور 3:24) میں نہروں اور خادموں کا اجمالا ذکر موجود ہے، اس طرح انجیل میں بھی جنت کی یہ خوبصورت منظر کشی موجود نہیں ہے، انجیل میں فقط جنت میں داخل ہو نے کا ذکر کیا گیا ہے.
When Paul tells of a man (perhaps himself) who was caught up to the third heaven into paradise (Paradeison) (Isa 65:77ff)
انجیل کی چار نسخے ہیں جنہیں انگریزی زبان میں (The Four Gospels) کہا جاتا ہے، تو لوقا کی روایت یعنی انجیل لوقا میں عیسی علیہ السلام کا ایک مکالمہ نقل کیا گیا ہے جو کہ عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق انھوں نے مصلوب ہونے سے قبل کیا تھا، جس شخص کے ساتھ یہ مکالمہ ہوا ہے وہ بھی چوری کی پاداش میں سولی پر چڑھایا جار رہا تھا اور بقول انجیل عیسی علیہ السلام نے اس سے فرمایا تھا کہ:
Today you will be with me in paradise (Paradesion) (Luke 23:43)
مستشرقین کی اکثریت کا تعلق تو یہودیت اور نصرانیت سے ہے، اس لیے جنت کے قرآنی تصور کا انکار کرتے ہیں، اور اس کو خود ساختہ او ارتقائی شکل قرار دیتے ہیں، کس چیز کی ارتقائی تصویر؟ تو مستشرقین کے نز دیک افرم ( Ephraim the Syrian) (وت 373م) نے مذہبی گیتوں کا ایک مجموعہ تیار کیا تھا جو کہ مغرب کے کتب خانوں میں ( Hymns on paradise) کے نام سے موجود ہے اور عیسائی اس کو مقدس تسلیم کرتے ہیں، یہ جنت کے بارے میں گیتوں پر مشتمل ہے اور چونکہ وہ شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے قبل ہو گزرا ہے اور اس کی گیتوں اور قرآنی معلوت میں تھوڑی بہت مماثلت ہے، اس لیے مستشرقین قرآنی منظر کشی کو ان گیتوں کی ارتقائی تصویر سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے.
اگر ہم افرم کے گیتوں اور قرآنی آیات کا موازنہ کریں يا ان گیتون کا یہودیوں کی ایک اور مقدس کتاب، کتاب السفر مصنفہ حزقیال (Ezekiel) (622 ق م) سے تقابل کریں تو روز روشن کی طرح عیان ہوجائے گا کہ قرآن نے نہیں بلکہ افرم نے جنت کا تصور حزقیال سے لیا ہے اور اس كا خیالى خاکہ پھر اپنے گیتون میں پیش کیا ہے، اس حوالے سے کئی دلائل ہیں، لیکن سب سے بڑى دلیل یہ ہے کہ افرم کے نزدیک جنت ایک چوٹی پر واقع ہوگی، حالانکہ کسی بھی آسمانی کتاب خواہ وہ قرآن ہو یا موجودہ تحریف شدہ تورات اور انجیل، کسی میں بھی ایسی جنت کا حوالہ نہیں ملتا، یہ اشارہ صرف حزقیال کی کتاب میں ملتا ہے کہ جنت ایک چوٹی پر ہوگی.
You were on the Holy mountain of God (Ezek 28:13-16)
مستشرقین قرآن کو وحی من اللہ ماننے سے انکاری ہیں، اس لیے مغربی دنیا میں قرآن کے بارے طرح طرح کے نظریات پھیلانے میں مصروف ہیں، مثلا پروفیسر حداد کا کہنا ہے کہ رسول اللہ نے قرآن میں موجودہ احکام و آفاقی معلومات ورقہ بن نوفل اور بحیرہ راہب سے لیے تھے اور ان سے ملاقات کے بعد نبوت کا دعوی کیا تھا، حالانکہ پروفیسر حداد کا یہ دعوی تاریخی عقلی اور نقلی ہر اعتبار سے بالکل باطل ہے. کسی اور مضمون میں اس کی وضاحت کروں گا، اور اسی طرح گولڈ زیہر (وت 1921م) ہاورٹز (وت1931م ) اور شاخت (1969م) کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تالیف میں یہودیت اور نصرانیت سے استفادہ کیا گیا ہے، ان کے پاس اس دعوے کے اثبات کے لیے قیاس آرائی اور دلیل مشابہت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے.
مستشرقین کا عقیدہ یہ ہے، کہ قرآن کریم نے ”جنت عدن“ کی منظر کشی میں افرم کی گیتوں سے استفادہ کیا ہے اور پھر مختلف عبارات سے اس کو ارتقائی شکل میں پیش کیا ہے، تو اس لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان بنیادی فرق کو واضح کیاجائے. جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قرآن نے نہیں بلکہ خود افرم نے جنت کے تصور میں حزقیال سے استفادہ کیا ہے لیکن پھر بھی دونوں کے درمیان چند بنیادی فروق موجود ہیں، مثلا افرم کے گیتوں میں جنت کو مکان کے اعتبار سے محدود کیا گیا ہے، اور قرآن میں اس طرح کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس طرح افرم کے گیتوں میں نفسانی اور جنسی خواہشات کی نفی کی گئی ہے، جبکہ قرآن کریم میں حور العین اور ازواج مطہرات کا ذکر خصوصی طورکیا گیا ہے جو افرم کے برعکس اثبات پر دليل ہے، تو قرآن کریم وحی اور کلام اللہ ہے نہ اس نے کسی حکم کے بیان یا منظر کشی میں تورات، انجیل یا دیگر مقدس کتابوں سے استفادہ کیا ہے، اور نہ یہ محرف ہے بلکہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، اور اگر کہیں تورات یا انجیل سے مماثلت پائی جاتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے، کہ ان سب کا منبع اور مصدر ایک ہے، اس لیے مماثلت ضرور ہوگی.
(عالم خان گوموشان یونیورسٹی ترکی، میں فیکلٹی ممبر اور پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں)
تبصرہ لکھیے