کچھ دنوں سے تمام توپوں کا رخ اظہر علی کی طرف ہو گیا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے ہر مسئلے کی وجہ اظہر علی ہے۔ تجزیہ نگار اور کچھ سابق کرکٹرز اظہر علی پر مضحکہ خیز حد تک تنقید کر رہے تھے. عبدالقادر صاحب نے تو ایک اوور میں 20 رنز پڑنے پر اظہر علی پر ون ڈے کرکٹ پر تاحیات پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کر دیا تھا۔ سرفراز احمد کی بطور کپتان 4 لگاتار فتوحات نے اس جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مگر ون ڈے سیریز کے تینوں میچ جیت کر اور آخری ون ڈے میں سنچری کر کے اظہر علی نے وقتی طور پر ناقدین کو خاموش تو کیا ہے مگر چند اور ناکامیوں کے بعد یہی تبصرے پھر سے شروع ہو جانے کا قوی امکان ہے۔ اظہر علی پر ہونے والی تنقید اور اس کی حقیقت کو جاننے کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔
2011ء میں ویسٹ انڈیز کی اس وقت کی کمزور ترین ٹیم جس میں کرس گیل، ڈیرن براوو، سیمی، پولارڈ، ساروان، چندرپال سمیت کوئی بھی اہم کھلاڈی حصہ نہیں لے رہا تھا، اس سے دو میچ ہارنے کے بعد اس وقت کے کوچ وقاریونس کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے شاہد آفریدی کو ہٹا کر مصباح الحق کو کپتان بنا دیا گیا جو اس وقت ٹیسٹ ٹیم کو فتوحات کی طرف گامزن کر چکے تھے۔ اس تبدیلی کے مثبت رزلٹ آئے۔ مصباح کی قیادت میں پاکستان نے بہت تسلسل کے ساتھ ون ڈے میں فتوحات تو حاصل نہیں کیں مگر پاکستان نے ون ڈے کرکٹ میں بہت سے سنگ میل ضرور عبور کیے۔ پاکستان نے بہت عرصے بعد بھارت کو بھارت میں ہرانے کا کارنامہ سرانجام دیا، تاریخ میں پہلی بار جنوبی افریقہ کو اسی کی سرزمین پر شکست دی،12 سال بعد ایشیا کپ بھی جیتا۔ پھر سعید اجمل اور محمد حفیظ پر اچانک لگنے والی پابندی اور پچھلے 2 سال میں پاکستان کے سب سے کامیاب فاسٹ باؤلر جنید خان کے ان فٹ ہو جانے سے پاکستان مصباح کی کپتانی کے آخری سال میں اچھی کارکردگی نہ دکھا سکا جس میں ورلڈکپ2015ء بھی شامل ہے کیونکہ پاکستان کی ٹیم کا 2 سال سے چلتا ہوا کمبی نیشن اچانک ڈسٹرب ہو گیا تھا، مگر اس سب میں حقیقت کو سمجھنے کے بجائے مصباح الحق پر تنقید شروع ہو گئی؛
”وہ بہت دفاعی کپتان ہے، اسے ماڈرن کرکٹ کی سمجھ ہی نہیں ہے، وہ آہستہ کھیلتا ہے جس سے ٹیم پریشر میں آجاتی ہے، وہ ٹیم کے لیے نہیں اپنے آپ کے لیے کھیلتا ہے، مسٹر ٹک ٹک ہے“، جیسی باتیں ہر طرف سنای دینےلگیں۔
2015ء ورلڈ کپ کے بعد اس نے ون ڈے کو خیر آباد کہہ کر صرف ٹیسٹ کھیلنا جاری رکھا مگر وہ کسی کو بھی پسند نہیں تھا سوائے چند پرانی سوچ کے لوگوں کی۔ وہ کھیلتا رہا، کھیلتا رہا، ہر بار ملک سے باہر کھیلتا رہا اور پھر اس نے پاکستان کو ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی بار پہلی پوزیشن دلا دی۔ پاکستان کی طرف سے بطور کپتان سب سے زہادہ ٹیسٹ جیتنے کا ریکارڈ بنا دیا۔ بطور کپتان 50 سے زیادہ کی اوسط سے کھیلا۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تیز ترین ففٹی اور تیز ترین سنچری بنا ڈالی۔ اس نے ٹیسٹ میں یہ سب اس لیے حاصل کیا کیونکہ ہم نے اسے ٹیسٹ میں اپنے طریقے سے کھیلنے دیا۔ وہ ورلڈکپ نہ جیت سکا کیونکہ قسمت نے عین موقع پر اس سے اہم کھلاڈی چھین لیے اور کیونکہ ہم نے اسے ون ڈے میں اپنے طریقے سے نہیں کھیلے دیا۔
2015ء کے ورلڈ کپ کے بعد اظہرعلی کو کپتان اس لیے بنایا گیا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان ٹیم میں اس وقت پورے 50 اوور کھیلنے والا اور کوئی کھلاڈی تھا ہی نہیں۔ اسے نوجوانوں کی ٹیم دی اور ہر سیریز کے بعد اس میں تبدیلی کی جاتی رہی۔ اس نے انگلینڈ کے خلاف چند میچ نکال کر ہمیشہ اچھی کارکاردگی دکھائی اور اس کی اوسط اب بھی 42 کی ہے جو ٹیم میں بابر اعظم کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ اب اس پر بھی انھی الفاظ میں تنقید کی جا رہی ہے جن میں مصباح پر کی جاتی تھی، اور مجھے پورا یقین ہے کہ کچھ عرصہ بعد اسے بھی ایسے ہی سراہا جائے گا جیسے مصباح کو سراہا جا رہا ہے کیونکہ اظہر علی مصباح الحق کا ہی دوسرا کرکٹنگ جنم ہے۔
تبصرہ لکھیے