ہوم << اسلام کو دیس نکالا دیا جائے - آصف رندھاوا

اسلام کو دیس نکالا دیا جائے - آصف رندھاوا

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو فرد واحد سے لے کر معاشرے کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں رہنمائی کرتا ہے کیونکہ یہ خالق کا بنایا ہوا ہے جو انسان کی بحثیت انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ضرورتوں سے واقف تھا، اس لیے اس مالک کائنات نے اسلام کو بنی نوع انسان کے لیے پسند کیا اور عملی نمونہ پیغمبر ﷺ کے ذریعے فراہم کیا اور بے شک آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل ہی دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت ملتی ہے لیکن جب جب انسان نے اس رہنمائی اور طریق کار (سنت) کو پس پشت ڈالا اور اپنی عقل و دانش کو معیار بنایا تو ٹھوکر کھا بیٹھا کیمونزم سوشلزم کے نظام آئے، پذیرائی بھی ملی مگر چند سال ہی، اور اب کیپٹل ازم کا نظام جس نے معاشرے کی خلیج کو کچھ اور بڑھاوا دیا، امیر کو امیر تر اور غریب کو نوالے نوالے کا محتاج کر دیا. کیمونزم اور سوشلزم کے پرچارک وہ تمام فکری یتیم جو کیمونزم کی گود میں پیدا ہوئے اور اس کے ترانے گاتے اور پرچم لہراتے جوان ہوئے، اب لے پالکوں کی کی طرح کیپٹل ازم کی گود میں پڑے نظر آتے ہیں اور وہی راگ الاپتے ہیں جو کل وہ کیمونزم کے لیے الاپ رہے تھے. اب نظام سرمایہ درانہ ہے لیکن اس کی راہ میں ابھی ایک رکاوٹ باقی ہے اور وہ ہے مذہب، جو حائل ہو جاتا ہے، حلال حرام، جائز و ناجائز، ذخیراندوزی، ناجائز منافع خوری، سود اور دوسرے تمام غیر اخلاقی افعال کے درمیان، اب اس مذہب کو معاشرتی یا اجتماعی زندگی سے نکالنے کے لیے سیکولر طبقہ معرض وجود میں لایا گیا جس نے خوش نما اصطلاحات اور پر فریب نعروں سے لوگوں کو بہلانے پھسلانے کا کام شروع کیا.
اگر آپ یہودی پروٹوکول کا مطالعہ کریں تو اس میں بھی دانشوران یہود یہی فرماتے نظر آئیں گے کہ اپنے مکروہ مقاصد کو خوبصورت الفاظ اور نعروں میں چھپاؤ تاکہ عوامی سطح پر مخالفت کم ہو، جس کی چند عام فہم مثالیں روشن خیالی، آزادی اظہار رائے وغیرھم ہیں، لیکن اگر ان کی گہرائی اور گیرائی میں اترا جائے تو اندر سے وہی مکروہ مقاصد ہی برآمد ہوں گے، جن کا اول و آخر ہدف معاشرے کی تباہی ہی نکلتا ہے، مغرب نے اس کا مزہ چکھ لیا، جہاں معاشرے اور خاندان اپنا وجود کھو چکے ہیں، اب یہی کام اسلامی ممالک میں کرنے کی سعی کی جا رہی ہے کہ مذہب کو معاشرتی زندگی سے نکال کر ایک مادر پدر آزاد معاشرہ تشکیل دیا جائے. ایسا کون چاہتا ہے، اس کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں.
اس میں ایک گروہ تو وہ ہے جس کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے، جس کے پاس دھن دولت کے انبار ہیں، لیکن دنیاوی لذتیں کشید کرنے کی راہ میں حائل مذہب ہے، اس لیے ان سے نماز روزے کی بات کی جائے تو ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے، آپ کون ہوتے ہو پوچھنے والے؟
ثانی الذکر گروہ سامراج کے ان فرستادوں پر مشتمل ہے جن کو اسلام مخالف قوتوں نے ہائر کر رکھا ہے، یہ لوگ انفرادی سطح پر بھی پائے جاتے ہیں اور این جی اوز کی شکل میں بھی، اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار کہلاتے ہیں، اور حق نمک ادا کرنے کے لیے وقتا فوقتا قرارداد مقاصد پر مباحثہ کرتے ہیں، جو ان کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسی ہے، نہ نگل پاتے ہیں نہ اگل پاتے ہیں، کبھی قائد کی 11 اگست کی تقریر کو لے کے بیٹھ جاتے ہیں، ان کا کام عوام میں کنفیوژن پھیلانا، حل شدہ مسائل پر بحث کرنا، دور دور کی کوڑیاں لانا اور گھسے پٹے دلائل کی جگالی کرتے رہنا ہے، فرد کے حقوق اور اخوت و مساوات کی بات کرنا لیکن نشانہ ہمیشہ اسلام کو بنانا، منافقت کے یہ پتلے کشمیر افغانستان عراق شام فلسطین کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں، اس کےلیے بھی ملا اور مدرسہ کو مطعون کرتے ہیں.
اور آخری گروہ ان سامراجی قوتوں کا ہے جو اپنے خاندانی اور معاشرتی نظام کو تو تباہ کر چکے ہیں، اب ان کی کوشش و کاوش اور وسائل مسلم معاشروں کو تباہ کرنے پر صرف ہو رہے ہیں اور ملکوں ملکوں پھیلے ان کے گماشتے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں، بلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کے دکھا رہے ہیں ہیں، پاکستانی لبرلز پاکستان میں کس طرح کا نظام چاہتے ہیں، اس پر پھر کبھی سہی لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ پاکستانی لبرلز کی پہلی اور آخری خواہش صرف اتنی سی ہے کہ اسلام کو دیس نکالا دیا جائے تاکہ ان کو کھل کھیلنے کے مواقع میسر آ سکیں.