پاکستانی قوم یوں تو آئے دن، دل دہلادینے والی ہولناک خبروں کے ساتھ بدعنوانیوں کے قصّے بھی سنتی رہتی ہے لیکن چند گھنٹوں یا دنوں بعد سب بھلا بیٹھتی ہے، اب اس کو قساوت قلبی کہیں یا کچھ اور، بہرحال ز ندہ قوموں کی یہ نشانیاں نہیں ہوتی ہیں۔
چند ماہ قبل کرنسی اسمگلنگ کا ایک کیس پکڑا گیا، جس نے کافی شہرت پائی اور جو خاتون یہ کام سر انجام دے رہی تھیں،ان کو ان کی سابقہ وجہ شہرت کی وجہ سے عوام میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی، ان کو ڈالرگرل کے خطاب سے بھی نوازا گیا، وکلاء کی قانونی موشگافیوں کے بعد ان کی رہائی تو عمل میں آگئی لیکن تفتیشی افسر کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے، رہائی کے بعد ان کو ایک سرکاری یونیورسٹی میں بھی مدعو کیا گیا، گو کہ جس طالب علم نے ان کو یہ عزت بخشی تھی، یونیورسٹی سے اخراج کا سامنا کرنا پڑگیا، اب بھی وقتا فوقتا، پیشیوں کے وقت قابل ذکر تذکرہ اخباروں میں اور TV پر ڈالر گرل کو مل جاتا ہے۔
ہم قوم سے یہی گزارش کرسکتے ہیں کہ ڈالر گرل کے ساتھ ذرا ہر زمانے کے ڈالر بوائے کو بھی یاد رکھیں، جن کی وجہ سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک، ہر دور حکومت میں ایک ڈالر بوائے موجود رہا، جو حکمرانوں کی کرپشن کو جاری و ساری رکھنے کے لیے، غیر ملکی اداروں سے ڈالروں میں قرضے لیتا رہا، جس کی وجہ سے قوم کا ہر بچہ پیدائش سے لے کر موت تک مقروض رہتا ہے۔گزشتہ 8 سالہ جمہوری دور میں جتنا قرضہ لیا گیا ہے، وہ1947ء سے لے کر2007ء کے مجموعی قرضے سے زیادہ ہے. اسی طرح سابقہ حکومت کے 5 سالہ دور میں جتنا قرضہ لیاگیا، اس سے زیادہ قرضہ موجودہ حکومت کے 3 سالہ دور میں لے لیا گیا ہے، یعنی قرضوں کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں لیکن عوام کی حالت میں کوئی بہتری رونما نہیں ہو رہی ہے. گیس، بجلی اور اشیائے صرف کی قیمتیں گزشتہ 8 سالہ عوامی دور میں، عوام کے لیے دگنی سے بھی زیادہ کردی گئی ہیں، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات سے پاکستانیوں کی اکثریت محروم ہے، مریضوں کے لیے سرکاری اسپتال میں بستر اور دوائیاں دستیاب نہیں ہیں، عوام کی اکثریت نجی اسپتال میں علاج کرانے سے قاصر ہے لیکن حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کو عوام کے ٹیکس کے پیسے سے بیرون ملک علاج کرانے کی سہولت حاصل ہے، پینے کا صاف پانی جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے، اکثریت اس سے محروم ہے.
حکمران اورنج لائن ٹرین کی شکل میں اہلیان لاہور کو 214 ارب کا تحفہ دینے پر مصر ہیں اور دوسری طرف پورے پنجاب کے لیے صحت کی مد میں موجودہ صوبائی بجٹ میں200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اس سے حکمرانوں کی ترجیحات کاا ندازہ ہوجاتا ہے۔ انتخابات کے وقت کیا گیا، لوڈشیڈنگ کے خاتمے، کڑے احتساب، مہنگائی ختم کرنے کا وعدہ ہو یا ہر منصوبے میں شفافیت کا، کوئی بھی اب تک پورا نہیں کیا گیا ہے، عوام کے ٹیکس کے پیسے سے عیاشی کرنے کے باوجود بھی حکمرانوں کا دل نہیں بھرتا، ملکی ترقی یا عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں اپنا مالی حصہ رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ 8 سالہ دور میں بھی ماضی کی طرح حکمرانوں کی بدعنوانیوں کے بےشمار قصے منظر عام پر آئے، جس میں نندی پور اور پانامہ لیکس سر فہرست ہیں۔ ان میں سے کچھ عدالتوں کی بھی زینت بنے لیکن ملزمان کمال ہوشیاری سے عدالتوں سے قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر عوام کے سینے پر مونگ دلنے کو پہلے کی تیار ہیں۔ زراعت کا شعبہ، جس پر معیشیت کا دارومدار ہے، حکومت کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے اس سال پیداوار اور کھپت کے لحاظ سے،گزشتہ 15 سالوں میں سب سے نچلی سطح پر رہا، تجارت میں توازن کے اعداد و شمار بھی کوئی حوصلہ بخش نہیں ہیں۔
قومی ادارے بھی زبوں حالی کا شکار ہیں، کچھ تو عملا بند پڑے ہیں، جیسے ملک کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ اسٹیل مل! مردم شماری 1998ء بعد سے اب تک نہیں ہوئی ہے، گزشتہ 2 سال سے صوبوں کو این ایف سیNFC ایوارڈ سے رقم کا اجراء نہیں ہوسکا ہے۔ کراچی حیدرآباد سڑک کی تعمیر جاری ہے، جس میں تاخیر کی وجہ سے حادثات کا رونما ہونا معمول بن گیاہے۔ کورنگی انڈسٹریل ایریا کی سڑک ہو یا قائدآباد سے اسٹیل مل تک نیشنل ہائی وے کی تعمیر کا معاملہ ہو، حکام خواب غفلت میں ہیں۔ کراچی جو منی پاکستان بھی کہلاتا ہے، پاکستان کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، کورنگی انڈسٹریل ایریا اور قائدآباد سے اسٹیل مل تک بےشمار صنعتیں اور کارخانے قائم ہیں، لاکھوں لوگوں کا روزگار ان صنعتوں اور کارخانوں سے وابستہ ہے، جو سڑکوں کی اس ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے سخت اذیت میں مبتلا ہیں۔ ان تمام حالات میں، اب یہ سوچنا عوام کا کام ہے کہ حکمران ہم کو دھوکہ دے رہے ہیں یا ہم بخوشی خود یہ دھوکہ کھا رہے ہیں۔ آخر یہ ا ربوں ڈالر، جو ڈالر بوائز ہمارے نام پر لیتے ہیں، کہاں جارہے ہیں؟ کیونکہ عوام کی اکثریت تو اب تک پسماندگی کا شکار ہے۔ جس دن عوام میں یہ شعور بیدار ہوگیا کہ ہم ذات، برادری، نسل اور زبان سے بالا تر ہوکر، ووٹ کے ذریعے سیاستدانوں کا احتساب کر سکتے ہیں، وہ دن ڈالر بوائز کا پاکستان میں آخری دن ہوگا۔
تبصرہ لکھیے